Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Anjuman-e-Qawateen

فکرِآخرت


دنیا اور آخرت دو مکان ہیں۔ دنیا عاریتہً اور آخرت موہوب۔ دونوں کی مرمت کی ضرورت ہے۔ عمر کا روپیہ کسی ایک مکان کی آبادی کے لئے کافی ہے اگر آپ عمر کا روپیہ چند روزہ دنیا کی تعمیر میں خرچ کردئے تو اپنے آخرت کے مکان کو اجڑا ہوا پائیں گے تو اس وقت کس قدر حسرت ہوگی یا یوں سمجھئے کہ :۔

حکایت:کوئی شخص روپیہ کماکر لایا اور گھر پہنچ کر بیوی بچوں کو دیا،یا کوئی یوں کیا کہ روپیہ کماکر لارہا تھا راستہ میں دیکھا ایک درخت کی شاخ ٹیڑھی ہے،اس نے بڑھئی کو بلواکر سب روپیہ ﴿اُس کے سیدھاکرنے پر﴾خرچ کر ڈالا۔ گھر میں منتظر ہیں کہ میاں باہر سے کماکر لائیں گے، میاں تو یہ کام کرکے بیٹھے۔سب اُس کو بیوقوف کہیں گے۔

غرض دنیا کے گھر کو بنانا ایسا ہی ہے جیسے راستہ کے درخت کو درست کرنا۔ اگر دنیا سے جی نہ لگائے ہو تو اتنا بھی آخرت کا شوق نہیں کہ جتنا مسافر کو ہوتا ہے، ذرا ہر ایک اپنے اپنے دل کو دیکھے کہ کیسے کیسے خیالات آرہے ہیں کہ یوں رہیں گے، یوں بسیں گے، یوں جائیدادیں پیدا کریں گے، یوں نوکر ہوں گے، یوں وکالت کریں گے، یوں پاس ہوں گے، کبھی یہ بھی خیال آیا کہ ہم مرجائیں گے تو یوں خدا کے سامنے جائیں گے، یوں جنت ملے گی یوں باغات ہوں گے، یوں مکانات ہوں گے، یوں حوریں ہوں گی، اگر آخرت کو سدھارلیا تو یوں بہار ہوگی۔ یوں عیش ہوگا، ورنہ مصیبت و پریشانی ہوگی۔

جس سے جی لگتا ہے اسی کے انسان خیالات پکاتا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ دنیا سے جی لگا ہے اور آخرت سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ جب یہ خیال آیا تو دنیا کی مصیبت کا کہ دنیا کی زندگی کیسے کٹے گی، اس کی مصیبتوں سے کیسے بچیں گے، اسی طرح کبھی یہ بھی خیال آیا کہ آخرت کی زندگی کیسے کٹے گی،دوزخ کی مصیبت کیسے سہ سکیں گے۔

یہ سب حالات بتلارہے ہیں کہ ہم نے دنیا کو گھر سمجھا ہے ، اگر آخرت کو گھر سمجھتے تو مصیبتوں کا ہم کو غم نہ ہوتا، مسافر خانہ کے کھٹمل ستائیں تو تب بھی یہی خیال آیا ہوتا ہے کہ رات گزرجائے گی کل گھر میں آرام کریں گے۔

خواب میں اگر کسی شخص نے یہ دیکھا کہ سانپ بچھو نے کاٹ لیا ہے، اور خوب پیٹا جارہا ہے، اسی وقت آنکھ کھل گئی، کیا دیکھتا ہے کہ نہایت عمدہ سیج کسے ہوئے پلنگ پر ہے اور بہت بڑا محل ہے، لوگ اِدھر اُدھر کھڑے ہوئے ہیں، جھک جھک کر سلام کررہے ہیں، کوئی مورچھل جھیل رہا ہے، کوئی عطر لارہا ہے، کوئی پان لارہا ہے تو کیا اس شخص کے ذہن میں اُس خواب کا کچھ اثر باقی رہے گا؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح دنیا کا غم، خواب کا غم ہے۔

ایک شخص خواب میں دیکھے کہ تخت سلیمان پر ہوں اور تمام لوگ میرے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں، لوگ اپنی اپنی حاجتیں میرے سامنے پیش کررہے ہیں، میں ان کو پوری کررہا ہوں۔ غرض تمام شاہی ٹھاٹھ جما ہوا ہے۔ آنکھ کھولتے ہی چاروں طرف کیا دیکھتا ہے کہ پولیس بیڑیاں لئے کھڑی ہے، جیل خانہ لے جانا چاہتی ہے، طرح طرح کی سزائیں دی جارہی ہیں۔

غرض دنیا کی خوشی ، خواب کی خوشی کی طرح ہے کسی نے خوب کہا ہے؛

حالِ دنیا را پر سیدم من از فرزانۂ

ترجمہ: میں نے ایک عقلمند سے دنیا کی حقیقت دریافت کیا

گفت یا خوابے است یا بادیست یا افسانہ

ترجمہ:اس عقلمند نے کہا کہ یا تو وہ ایک خواب ہے یا ہوا ہے یا ایک کہانی ہے۔

واقعی دنیا کی مثال خواب کی سی ہے، اگر دنیا میں عمر بھر عیش کئے اور مرنے کے ساتھ ہی پکڑے گئے تو وہ عیش کیا کام آئے گا۔

حکایت:ایک شخص نے سوتے وقت اپنی بی بی سے پانی مانگا وہ پانی لانے تک خاوند سوگیا وہ یہ سوچتی رہی کہ میں شوہر کو نہ اٹھاؤں تو وہ پیاسا رتا ہے اور اگر اٹھاتی ہوں تو نیند خراب ہوتی ہے اسی شش وپنج میں صبح تک کھڑی رہی، صبح کو خاوند اٹھا اور بی بی کو کھڑا دیکھا۔ یہ بات خاوند کو بہت بھلی معلوم ہوئی اور خاوند کے دل میں بیوی کی بہت وقعت ہوئی۔ جوش محبت میں کہا تمہاری جو خواہش ہے کہو !میں اسے پوری کروں گا ۔عورت نے کہا :اگر یہی ہے تو میری خواہش یہ ہے کہ مجھے طلاق دے دو۔ خاوند کو بہت حیرت ہوئی کہ یہ کیا بات ہے دونوں میں جھگڑا ہوا۔عورت نے کہا تمہارا اور میرا فیصلہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ہوگا۔

 Ø¯ÙˆÙ†ÙˆÚº Ú†Ù„Û’ØŒ راستہ میں شوہر Ú©Ùˆ ٹھوکر لگی، گرا اور ٹانگ ٹوٹ گئی۔ عورت Ù†Û’ کہا :اب گھر چلو، طلاق Ú©ÛŒ ضرورت نہیں ہے۔

مرد نے کہا :آخر یہ کیا بات ہے؟عورت نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کرنا چاہتا ہے اُسے کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے۔ خدا کے دوستوں پر مصیبت آیا کرتی ہے۔ جب سے میں تمہارے پاس آئی ہوں، تم پر کوئی مصیبت نہیں آئی تو معلوم ہوا کہ تم خدا کے دوستوں میں سے نہیں ہیں۔ میں ایسے شخص کے پاس نہیں رہنا چاہتی جو خدا کا دوست نہیں۔ اب تمہاری ٹانگ ٹوٹ گئی تو معلوم ہوا کہ تم خدا کے دوست ہو، اب طلاق لینے کی ضرورت ہی نہ رہی۔ اس خاتون کی یہ حالت اس واسطے تھی کہ وہ دنیا کو گھر نہیں سمجھتی تھیں۔ بعض لوگ ایسے ہیں کہ وہ دین کا کبھی ذکر کردیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کو دین کی فکر ہے اور آخرت کو ہم گھر سمجھے ہوئے ہیں۔

از: فضائل رمضان ،حضرت محدث دکن ابوالحسنات سید عبداللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ