نام: سودہ رضی اللہ عنہا ، آپ قریش کے قبیلہ عامر بن لوی سے تھیں-
نسب مبارک یہ ہے: سودہ بنت زمعہ بن قیس بن عبد شمس بن عبد و بن نصر بن مالک بن حسل بن عامر لوی – ماں کا نام شموس بنت قیس تھا جو انصار کے خاندان بنو نجار سے تھیں-
اللہ تعالی نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو نہایت صالح طبیعت عطا کی تھی، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح آپ کے چچازاد بھائی سکران بن عمر سے ہوا، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق کا آغاز کیا تو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ساتھ اسلام لائیں، اس طرح آپ کو قدیم الاسلام ہونے کا شرف بھی حاصل ہے- حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ساتھ اسلام لانے کے بعد ہجرت کرکے حبشہ چلی گئیں، کئی برس وہاں رہ کر مکہ مکرمہ واپس لوٹے- چند دن بعد حضرت سکران رضی اللہ عنہ کے وصال سے پہلے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے ایک خواب دیکھا،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پیدل چلتے ہوئے آپ کی طرف تشریف لائے اور ان کی گردن پر اپنا قدم مقدس رکھ دیا- جب حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اس خواب کو اپنے شوہر سکران بن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: اگر تمہارا یہ خواب سچا ہے تو میں یقیناً مرجاؤں گا اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تم سے نکاح فرمائیں گے- اس کے بعد دوسری رات حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے یہ خواب دیکھا کہ ایک چاند ٹوٹ کر ان کے پیٹ پر گرپڑا ہے، صبح سکران رضی اللہ عنہ سے اس خواب کا بھی ذکر کیا تو سکران بن عمر رضی اللہ عنہ نے چونک کر کہا اگر تمہارا یہ خواب سچا ہے تو میں اب بہت جلد انتقال کرجاؤں گا اور تم میرے بعد حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نکاح کرو گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا- اسی دن حضرت سکران رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے اور چند دنوں کے بعد وصال کرگئے- (زرقانی)
ایک بیٹا عبدالرحمن نامی یادگار چھوڑا جو مشرف بہ اسلام ہوئے اور خلافت فاروقی میں جنگ جلولاء میں شہید ہوئے-
چنانچہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوگئی تھیں- یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا وصال کرگئی تھیں، بن ماں کے بچوں کو دیکھ دیکھ کر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت مبارک افسردہ اور غمگین رہتی تھی، آپ کی یہ حالت دیکھ کر ایک جاں نثار صحابیہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے ایک دن بارگاہ نبوی میں عرض کی :حضور کو ایک مونس اور رفیق حیات چاہئیے- اگر اجازت ہو تو آپ کے نکاح ثانی کے لئے کہیں پیام دوں؟ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کے اس مخلصانہ مشورہ کو قبول فرمایا اور فرمایا کہ کس جگہ پیام دینے کا خیال ہے؟ خولہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اگر کنواری سے نکاح کرنا چاہیں تو آپ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیٹی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں- اگر بیوہ سے چاہیں تو حضرت سودہ بنت زمعہ موجود ہیں، جو آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی اتباع کیں- آپ نے فرمایا دونوں جگہ پیام دے دو- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چونکہ قریب قریب ایک ہی زمانہ میں ہوا، مورخین میں اختلاف ہے کہ کس کو تقدم حاصل ہے- حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا نکاح 10 نبوی میں ہوا نکاح کا خطبہ ان کے والد نے پڑھایا اور 400 درہم مہر مقرر ہوا- چنانچہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد امہات المومنین کے زمرے میں داخل ہوگئیں اور زندگی بھر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زوجیت کے شرف سے سرفراز رہیں اور انتہائی والہانہ عقیدت و محبت کے ساتھ آپ کی وفادار اور خدمت گزار رہیں-
اس نکاح کی خبر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبداللہ بن زمعۃ کو ہوئی جو ابھی کافر تھے، انہوں نے اپنے سر پر خاک ڈالی، جب مشرف بہ اسلام ہوئے تو کہا : مجھے اپنی اس حماقت پر بہت افسوس ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نکاح میری بہن کے ساتھ ہونے پر میں نے اپنے سر پر خاک ڈال لی-
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بے حد فیاض او رسخی تھیں- ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے درہموں سے بھری ہوئی ایک تھیلی بھیجی، انہوں نے پوچھا اس میں کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا: درہم ، فرمائیں: تھیلی کھجوروں کی ہے اور اس میں درہم ہیں- یہ کہہ کر تمام درہم ضرورت مندوں میں اس طرح بانٹ دئیے جس طرح کھجوریں تقسیم کی جاتی ہیں-
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نہایت رحم دل اور سخی تھیں، اور جو کچھ آپ کے پاس آتا تھا اسے نہایت فراخ دلی سے حاجت مندوں میں تقسیم کردیتی تھیں- حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ نے میں لکھا ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا دستکار تھیں اور طائف کی کھالیں بنایا کرتی تھیں- اس سے جو آمدنی ہوتی تھی اسے راہ خدا میں خرچ کردیتی تھیں- حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کی عمر زیادہ ہوچکی تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ابھی نوعمر تھیں اس لئے انہوں نے اپنی باری بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کردی تھی ، جسے انہوں نے خوشی سے قبول کرلیا- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ میں نے کسی عورت کو جذبۂ رقابت سے خالی نہ دیکھا سوائے سودہ رضی اللہ عنہا کے- حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نہایت پاکیزہ اخلاق کی حامل تھیں ، ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ سوائے سودہ رضی اللہ عنہا کے کسی عورت کو دیکھ کر میرے دل میں خواہش پیدا نہ ہوئی کہ ان کے جسم میں میری روح ہوتی- حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے مزاج میں ظرافت تھی، آپ کا قد دراز تھا، دراز قد ہونے کی وجہ سے آپ کی چال چلن دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسکراتے تھے اور آپ کی اداؤں پر تبسم فرماتے تھے- حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 10 ہجری میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئیں، چونکہ دراز قد اور فربہ اندام تھیں، اس لئے تیز چلنے سے مجبور تھیں، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مزدلفہ سے روانگی سے پہلے انہیں چلے جانے کی اجازت دے دی تاکہ بھیڑ بھاڑ سے تکلیف نہ ہو- حجۃ الوداع کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تمام ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے فرمایا: اس حج کے بعد اپنے گھروں میں بیٹھنا چنانچہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشاد کا جو مطلب سمجھا اس پر سختی سے تعمیل کی- دوسری ازواج مطہرات ادائے حج پر اس حکم کا اطلاق نہیں کرتی تھیں لیکن سودہ رضی اللہ عنہا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال اقدس کے بعد بھی ساری عمر گھر سے باہر نہ نکلیں اور فرمایا کہ میں حج اور عمرہ دونوں کرچکی ہوں، اب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشاد کے مطابق گھر سے باہر نہ نکلوں گی-
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صلب مبارک سے آپ کو کوئی اولاد نہیں تھی-
وصال مبارک: آپ کا وصال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ماہ ذوالحجہ 23 ھ میں ہوا، آپ کی نماز جنازہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور مدینہ منورہ جنت البقیع میں آپ کی تدفین عمل میں آئی-
آپ سے 5 احادیث شریفہ مروی ہیں، ایک صحیح بخاری میں اور 4 سنن اربعہ میں ہیں-