نیند، بیداری کی ضد ہے ، جاگنے والا سوتا نہیں اور سونے والا جاگتانہیں ، یہ دونوں عوارض وحالات ہیں جو انسان پر خواہ مرد ہو یا عورت طاری ہوتے ہیں۔ دنیا میں اک ایسا بھی بیدار شخص ہے جو سوتا ہے لیکن اس کی آنکھ کھلی رہتی ہے ، وہ بولتا ، دیکھتا اور سنتا ہے ، یہ سب اعمال بحالتِ نیند طے پاتے ہیں، نیند کا مطلب ہمارے اس کلام میں وہ نیند نہیں جو انسان پر عمومًا رات میں طاری ہوتی اور اس سے بدن کو راحت ملتی ہے بلکہ یہاں نیند سے مراد غفلت ، سستی ، کاہلی ہے۔
جہاں تک غفلت اور کاہلی کا تعلق ہے یہ مرد کی طرح عورتوں پر بھی آتی ہے ، انسان کا کوئی زمرہ اس سے مستثنی نہیں ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ساری کائنات کے ہادی بن کر تشریف لائے چنانچہ آپ نے مردوں کے ہم دوش خواتین کو بھی بیدار رہنے کی تعلیم عطا فرمائی ، غفلت اور سستی سے اجتناب کی تلقین فرمائی ۔
پیداری اور تیاری کی اہمیت :
اس دنیا میں انسان کے بے شمار دشمن ہیں ، سب سے سخت اور برا دشمن شیطان ہے ، وہ ہرلمحہ مسلمان کو بہکانے کے راستے ڈھونڈتا ہے اور اسے بہکانے کے سب طریقےمعلوم ہیں ، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلمان کی زندگی بیداری کا نام ہے ، ایک لمحہ بھی وہ غافل ہو جائے تو شیطان اس پر مسلط ہوتا ہے ، اسی لئے بیدار رہنے اور سفر آخرت کی تیاری کرنے کا تاکیدی حکم دیا گیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو غفلت کی نیند سے بچنے اور بیدار رہنے کا حکم فرمایا اور علم وعمل ، عبادت وریاضت کے میدان میں ہر وقت سفر جاری رکھنے کو نجات اور کامیابی کا مدار قرار دیا ، رسالت کا پیام دیتے ہوئے فرمایا : اے لوگو! میں تمہارے پاس برائیوں سے ڈرانے والا بن کر آیا ہوں جس نے میری بات پر عمل کیا اور دشمن سے بچنے کی تدبیر کی اسی کے لئے نجات ہے ، جس طرح کہ حملہ آور لشکر کی خبر دینے والے کی پیروی کریں اور رخت سفر باندھ کر وطن چھوڑدیں تو دشمن سے نجات ملتی ہے اور اس ڈرانے والے کی جو تصدیق نہ کرے وہ ھلاک ہوگا، اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر آخرت کا رخت سفر باندھنے والا بھی نجات پائیگا۔
چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے : عن ابی موسی قال قال رسول اللہ صيی اللہ علیہ وسلم مثلی ومثل ما بعثنی اللہ کمثل رجل اتی قوما فقال رٲیت الجیش بعینی وانی ان النذیر العریان فالنجاء النجاء فاطاعتہ طائفة فادلجوا علی مھلھم فنجوا وکذبتہ طائفة فنصبحھم الجیش فاجتاحھم ۔﴿صحیح بخاری ، باب الانتھاء عن المعاصی ، حدیث نمبر: 6482﴾
مذکورہ حدیث شریف میں انسان کو بیدار رہنے اور نفس وشیطان سے بچنے کی تلقین کی گئی ۔
آخرت کی تیاری کے لئے شب بیداری :
حضور اکرم سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام کے ساتھ صحابیات وخواتین کی تربیت فرمائی اور ان کے قلوب رحمت الہی کے نزول کا سکینہ بنایا، جابجا وقت بوقت انہیں عبادات واذکار کی ترغیب فرماتے رہے ،رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب شب بیداری وعبادت گزاری کے لئے تیاری فرماتے تو امہات المؤمنین کو بھی بیدار فرماتے جیساکہ صحیح بخاری میں ہے : عن ام سلمة رضی اللہ عنھا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم استیقظ لیلة فقال سبحان اللہ ماذا انزل اللیلة من الفتنة ماذا انزل من الخزائن من یوقظ صواحب الحجرات یارب کاسیة فی الدنیا عاریة فی الآخرة ۔ ﴿صحیح بخاری ، باب تحریص النبی ، حدیث نمبر: 1126﴾
یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں بیدار ہوکر فرمایا : آج رات کیسے فتنے اتر رہے ہیں اور نعمت خداوندی کے کتنے ہی خزانے نازل ہورہے ہیں ازواج مطہرات کو کوئی بیدار تو کرے۔ شب بیداری صرف مردوں کا خاصہ نہیں ، عورتوں کی خاصیت اور ان کی زینت بھی ہے ، مذکورہ حدیث شریف سے رات کی اہمیت اور شب بیداری کی ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ رات بھر سونے والے فتنوں اور آزمائشوں سے نجات بھی نہیں پاتے اور اللہ کی رحمت ونعمت کے خزانوں سے محروم بھی رہتے ہیں۔