نام صفیہ ہے ، آپ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے تھیں۔
سلسلۂ نسب یہ ہے: صفیہ بنت حیی بن اخطب بن شعیۃ بن ثعلبہۃ بن عامر بن عبید بن کعب بن خزرع بن ابی حبیب بن نجام بن ینحوم ۔
ماں کا نام: برہ (ضرہ) بنت سموئل تھا حییبن اخطب بنو نضیر کا سردار تھا۔
حیی بن اخطب ، حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے ہونے کی وجہ سے اپنی قوم میں بے حد معزز و محترم تھا۔ تمام قوم اس کی وجاہت کے آگے سرجھکاتی تھی، چودہ بر س کی عمر میں حضرت صفیہ کی شادی ایک مشہور اور نامور شہسوار سلام مشکم قرظی سے ہوئی لیکن دونوں میاں بیوی میں بن نہ آئی نتیجتاً سلام بن مشکم نے انہیں طلاق دے دی۔ اس طلاق کے بعد حیی بن اخطب نے ان کا نکاح بنی قریظہ کے مقتدر سردار کنانہ بن ابی الحقیق سے کردیا وہ خیبر کے رئیس ابو رافع کا بیٹا تھا اور خیبر کے قلعہ القموس کا حاکم تھا، کنانہ معرکۂ خیبر میں مقتول ہوا، معرکہ کے بعد تمام قیدی اور مال غنیمت ایک جگہ جمع کیا گیا ، جب مال غنیمت کی تقسیم ہونے لگی تو حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے لئے پسند فرمایا، چونکہ وہ اسیران جنگ میں ذوصفت تھیں، صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! صفیہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کی رئیسہ ہیں، خاندانی وقار ان کے لباس سے عیاں ہے، وہ ہمارے سردار یعنی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے موزوں ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مشورہ قبول فرمایا اور حضرت دحیہ کلبی کو دوسری لونڈی عطا فرماکر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کردیا اور انہیں یہ اختیار دے دیا کہ چاہیں وہ اپنے گھر چلی جائیں یا پسند کریں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آجائیں۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنا پسند کیا اور ان کی رضامندی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آزادی کو ہی ان کا مہر قرار دیا ، خیبر سے چل کر مقام صہبا‘‘ میں اترے اور ’’صہبا‘‘ کے مقام میں رسم عروسی ادا کی گئی، ولیمہ عجب شان سے ہوا، چمڑے کا دسترخوان بچھادیا گیا اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اعلان کردو کہ جس کے پاس جو کچھ توشہ جمع ہے وہ لے آئے، کسی نے کھجور لایا، کسی نے پنیر، کسی نے ستو لایا، اور کسی نے گھی،جب اس طرح کچھ جمع ہوگیا تو سب نے ایک جگہ بیٹھ کر کھالیا، اس ولیمہ میں گوشت اور روٹی کچھ نہ تھا۔ (بخاری، مسلم)۔ مقام ’’صہبا‘‘ میں تین روز قیام رہا اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا پردے میں رہیں، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہوئے تو خود حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو اونٹ پر سوار کرکے عبا سے ان پر پردہ کیا کہ کوئی نہ دیکھ سکے، گویا کہ یہ اعلان تھا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا ام المومنین ہیں، ام ولد نہیں۔ (بخاری،مسلم)
مدینہ طیبہ پہنچ کر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حارث بن نعمان انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان پر اتارا، ان کے حسن و جمال کا شہرہ سن کر انصار کی عورتیں اور دوسری خواتین اور ازواج مطہرات انہیں دیکھنے آئیں، جب دیکھ کر جانے لگیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پہچان لیا اور فرمایا: عائشہ! تم نے اس کو کیسا پایا؟ جواب دیا: یہودیہ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نہ کہو، وہ مسلمان ہوگئیں اور ان کا اسلام اچھا اور بہتر ہے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے چہرے پر چند ابھرے ہوئے نشانات تھے۔ حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ یہ نشانات کیسے ہیں؟ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ میں نے ایک خواب میں دیکھا کہ آسمان سے چاند ٹوٹا میری گود میں گرا، میں نے یہ خواب اپنے شوہر سے بیان کیا تو اس نے زور سے میرے منہ پر طمانچہ مارا اور کہا تو یثرب کے بادشاہ کی تمنا کرتی ہے، اشارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نہایت حلیم الطبع، خلیق، کشادہ دل اور صابرہ تھیں۔ جب وہ ام المومنین کی حیثیت سے مدینہ تشریف لائیں اور حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا انہیں دیکھنے آئیں تو انہوں نے اپنے بیش قیمت طلائی جھمکے اپنے کانوں سے اتارکر حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کو دئیے اور ان کی ساتھی خواتین کو بھی کچھ نہ کچھ زیور عطا فرمایا۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت محبت تھی اور ہر موقع پر ان کی دلجوئی فرماتے تھے، ایک بار سفر میں ازواج مطہرات ساتھ تھیں، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہوگیا، وہ بہت غمزدہ اور پریشان ہوگئیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تشریف لاکر ان کی دلجوئی کی اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے فرمایا: صفیہ رضی اللہ عنہا کو ایک اونٹ دے دو، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس زیادہ اونٹ تھے، وہ نہایت سخی اور بامروت تھیں، لیکن ان کی زبان سے نکل گیا ‘‘یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اس یہودیہ کو اپنا اونٹ دوں’’ ۔ یہ کلمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آیا اور آپ نے دو تین ماہ تک حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے کلام تک نہ کیا، پھر حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ اپنا قصور معاف کرالیا۔ قبول اسلام کے بعد یہودیت کا طعن حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے لئے بڑی دل آزاری کا ہوتا تھا لیکن وہ نہایت صبر و تحمل سے کام لیتیں اور کسی کو سخت جواب نہ دیتی تھیں۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پست قد کے بارے میں کہا کہ اتنی ہے اتنی ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوگئے اور فرمایا: اگر اس بات کو سمندر کے پانے میں ڈال دیا جائے تو سارا سمندر مکدر ہوجائے گا۔
ایک روز حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا رورہی تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ دریافت کی؟ معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ہم تمام ازواج مطہرات میں افضل ہیں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج مطہرہ ہونے کے علاوہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابتدار ہیں، لیکن تم یہودی ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی دلجوئی کے لئے فرمایا: حضرت عائشہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہما جب یہ کہتی ہیں کہ ان کا خاندان نبوت سے تعلق ہے تو تم نے کیوں نہ کہہ دیا کہ میرے باپ ہارون علیہ السلام اور میرے چچا موسی علیہ السلام اور میرے شوہر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی بات پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے ناراض ہوگئے، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا جو اپنی باری کا دن کسی کو نہیں دیتیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے کر معاف کرالیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری وقت جب بہت علیل رہتے تھے، اکثر ازواج مطہرات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں تشریف لاتی تھیں، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بے چین دیکھا تو عرض کیا: ‘‘کاش آپ کی بیماری مجھے ہوجاتی’’۔ دوسری ازواج مطہرات نے ان کی طرف دیکھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا اظہار عقیدت بالکل سچا ہے، دل سے بالکل وہ یہی چاہتی ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے اچھا کھانا پکانے والی کوئی عورت نہیں دیکھی۔
عفو و درگزر
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی ایک لونڈی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی کہ ام المومنین میں ابھی تک یہودیت کی بو پائی جاتی ہے، وہ ہفتہ کے دن کو اچھا سمجھتی ہیں اور یہودیوں سے دلی لگاؤ رکھتی ہیں۔ تحقیق کے لئے امیر المومنین خود تشریف لے گئے اور احوال معلوم کئے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: جب سے خدا نے مجھے ہفتہ کے بدلہ جمعہ عنایت فرمایا مجھے ہفتہ کو دوست رکھنے کی ضرورت نہیں رہی، ہاں یہودیوں سے بے شک مجھے لگاؤ ہے کہ وہ میرے قرابتدار ہیں اور مجھے ان کے ساتھ صلہ رحمی کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ حضرت امیر المومنین ان کی حق گوئی سے بہت خوش ہوئے اور واپس تشریف لے گئے، اس کے بعد حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے لونڈی سے دریافت کیا کہ میری شکایت پر کس چیز نے تجھے آمادہ کیا، اس نے کہا: شیطان نے بہکایا، اس کے بعد ام المومنین نے راہ خدا میں لونڈی کو آزاد کردیا۔
علم و فضل میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا مرتبہ بلند تھا، کوفہ کی عورتیں اکثر ان کے پاس مسائل دریافت کرنے آتی تھیں، بے حد درد مند تھیں، 35ھ میں خلیفہ سوم حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان کا بلوائیوں نے محاصرہ کرلیا تو ان کو بہت رنج ہوا۔ حالات بگڑتے ہوئے دیکھ کر ان کے مکان جانے سے رہ گئیں اور حضرت امام حسین بن علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ہاتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو کھانا بھیجا۔
وصال مبارک: حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا رمضان المبارک 50ھ میں 60 سال کی عمر میں وصال کیا اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔ ذاتی مکان راہ خدا میں دے دیا تھا، ترکہ میں ایک لاکھ درہم نقد چھوڑے، وصیت کی کہ ان کے یہودی بھانجے کے لئے ہیں۔ لوگوں نے دینے میں تامل کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہلا بھیجا: اللہ سے ڈرو، چنانچہ ان کی وصیت کی تعمیل کردی گئی۔
مروی احادیث مبارکہ: حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے 76 حدیثیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں، جن میں ایک حدیث بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہے۔ اور باقی روایات دیگر کتب احادیث میں درج ہیں۔ ن کی حدیثوں کو حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ، حضرت اسحاق بن عبداللہ رضی اللہ عنہ، حضرت یزید بن معتب رضی اللہ عنہ اور حضرت مسلم بن صفوان رضی اللہ عنہ نے چند احادیث مبارکہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی زبانی بیان کی ہیں۔