Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Anjuman-e-Qawateen

پڑوسیوں کے حقوق اور خواتین کا کردار۔قسط اول


انسان چاہے جس جنس سے تعلق رکھے خواہ مرد ہو یاعورت اس کا کمال بندگی اور عروج عبودیت ادائی حقوق میں ہے ، اس عالم فانی میں انسان فارغ اور بے کار نہیں آیا ہے ۔ حق تعالی نے فرمایا : أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ  ترجمہ : کیا تم سمجھے ہو کہ ہم نے تمہیں بے کار پیدا کیا اور کیا تم ہماری طرف لوٹ کر نہ آؤگے۔ (سورۃ المؤمنون۔115)

        بلکہ ہمارے کندھوں پر کئی ذمہ داریاں اور بہت سے حقوق عائد ہیں جن کو اداکئے گئے بغیر نہ دنیوی راحت میسر آسکتی ہے نہ اخروی کامیابی مل سکتی ہے ، جب حقوق انسانیت کاذکر آتاہے تو اس موضوع کی مختلف راہیں اور کئی گوشے سامنے آتے ہیں، حقوق العباد میں اک اہم عنوان [پڑوسیوں کے حقوق ]ہے ۔

        پڑوسیوں کے حقوق کیا اور کتنے ہیں اس کا تفصیلی ذکر احادیث شریفہ میں آیا ہے اور پڑوسی کے حقوق اداکرنے کے لئے خواتین وحضرات دونوں کو تاکیدی حکم دیا گیاہے۔

پڑوسی ، ہمارے گھرکا اک فردتونہیں؟

        ہمارے معاشرہ میں پڑوسیوں سے جتنی شکایتیں رہتی ہیں، شاید کسی اور سے اتنی شکایتیں اور گلے نہ رہتے ہوں جبکہ پڑوسی غیرمسلم بھی کیوں نہ ہو اس کا حق ادا کرنے ، اس کو اذیت نہ پہنچانے کی تلقین کی گئی ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسی کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:جبریل علیہ السلام نے پڑوسی کے متعلق اتنے حقوق بتائے کہ میں سمجھا شاید پڑوسی مال وراثت کاحق دار بھی ہوگا۔ اس سے معلوم ہواکہ پڑوسی کی حیثیت اک فرد خاندان کی ہے ، اس کے متعلق یہاں تک حکم آیا ہے کہ گھرمیں لذیذ سالن بنے تو کچھ سالن پڑوسی کو تحفہ دیاجائے ہمارے گھر کے کھانے پر بھی پڑوسی کا حق ہے ، چنانچہ حدیث شریف میں آیاہے : عَنِ ابْنِ عُمَرَ - رضى الله عنهما - قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - « مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِى بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ » .

        ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، فرمایا:سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جبریل علیہ السلام پڑوسی کے حق سے متعلق مجھے اہمیت سے بتاتے رہے میں سمجھا کہ اس کو پڑوسی کا حق وراثت دینگے۔(صحیح البخاری ، باب الوصاۃ بالجار،حدیث نمبر:6015)

        اور جامع ترمذی شریف میں یہ بھی روایت ہے : عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « خَيْرُ الأَصْحَابِ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرُهُمْ لِصَاحِبِهِ وَخَيْرُ الْجِيرَانِ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرُهُمْ لِجَارِهِ ».

        ترجمہ :حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، انہوں نے کہا :حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ کے پاس سب سے بہتردوست وہ ہے جو اپنے دوستوں کے پاس اچھا ہو، اور اللہ کے پاس سب سے بہتر پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لئے اچھا ہو۔

(سنن الترمذی، باب ماجاء فی حق الجوار،حدیث نمبر:2070)

تواچھا ہے یا برا اس پر گواہ پڑوسی ہیں:

        انسان کے حسن اخلاق وسوء اعمال سے اس کے پڑوسی اور قریب رہنے والے زیادہ واقف رہتے ہیں ، گاہے گاہے کے ملاقاتیوں سے اچھے اخلاق کا مظاہرہ تو سب ہی کرلیتے ہیں ، قرب وجوار میں رہنے والوں اور پڑوسیوں سے حسن سلوک کرنا گھڑی دوگھڑی کا معاملہ نہیں بلکہ سانسوں کی لڑی جب تک جاری ہے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا تسلسل بھی قائم رہتا ہے ، چنانچہ ایک پڑوسی دوسرے سے جتنا واقف رہتاہے دور رہنے والے نہیں رہتے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسی کی گواہی کو خیروشرکامعیار بتایا اور فرمایا پڑوسی تیرے اچھے ہونے کی گواہی دیں تو ، تو اچھا ہے اور کہیں کہ تجھ میں خیرنہیں تو سمجھ لے کہ تجھ میں خیر نہیں جیساکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : عن ابن مسعود قال قال رجل للنبي صلى الله عليه و سلم يا رسول الله كيف لي أن أعلم إذا أحسنت أو إذا أسأت فقال النبي صلى الله عليه و سلم إذا سمعت جيرانك يقولون قد أحسنت فقد أحسنت وإذا سمعتهم يقولون قد أسأت فقد اسأت۔

ترجمہ :حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایاایک صحابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ، یارسول اللہ !میں نے اچھا کام کیا یا برا کیا یہ کیسے جان لوں ؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تمہارے پڑوسیوں کو کہتے سنو کہ تم نے اچھا کیا تو آپ نے اچھا کیا ، اور جب پڑوسی کہیں کہ آپ نے برا کیا تو آپ نے برا کیا۔

(مصنف عبدالرزاق ، باب الغنا والدف، حدیث نمبر:19749)

        مشہور مقولہ ہے [زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو]۔مخلوق میں اچھے لوگ جب کسی کی تعریف کریں اور کسی کی سخاوت ، مہربانی ، عبادت وریاضت ، حسن اخلاق وغیرہ کی گواہی دیں تو لوگوں کی یہ گواہی اس امر پر دلیل ہے کہ وہ شخص واقعۃً اچھی خوبیوں کا حامل ہے ، اور لوگ برائی بیان کریں تو ان کا کہنا ہی کسی کا براہونے کے لئے کافی ہے ۔

ہمسایہ کو اذیت دینا قیامت کی علامت ہے :

        قیامت قائم ہونے کی علامات اور اس کے قریب ہونے کی نشانیاں احادیث شریفہ میں بکثرت بیان کی گئی ہیں ، ان میں یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہمسایوں کو اذیت دی جائیگی اور ان کے حقوق پامال کردئے جائیں گے ، کتنی افسوس ناک بات ہے کہ آج مسلمان ایسے اعمال کاارتکاب کررہے ہیں جوعلاماتِ قیامت میں شمار کئے گئے ہیں ، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سیدنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:من اشراط الساعۃ سوء الجار وقطعیۃ الرحم۔ ترجمہ :قیامت کی نشانیوں میں پڑوسی کو اذیت دینا اور رشتہ داری کاٹناہے ۔ (حق الجار للذھبی۔ص2)

مسلمان عورت اور پڑوسی کی عزت :

        خصوصاً خواتین کو پڑوسی کی عزت وتعظیم کرنے اور اس کے حقوق اداکرنے کی تلقین کی گئی ہے ، ہمسایہ چاہے مالدار ہو یاغریب مسلم ہو یا کافر ، اس کو حقیر وکمتر سمجھنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ، دین اسلام نے بحیثیت انسان سب کی قدر کرنے کا حکم دیا، چنانچہ حدیث شریف میں ہے : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ يَقُولُ « يَا نِسَاءَ الْمُسْلِمَاتِ لاَ تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا وَلَوْ فِرْسِنَ شَاةٍ ».

ترجمہ:حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان خواتین سے فرمایاکرتے :تم میں کوئی پڑوسن اپنی ہمسایہ کوذلیل وحقیر ہرگز نہ سمجھے اگرچہ وہ بکری کے کھر جیسی ہو۔(مسند امام احمد ، مسند ابی ھریرۃ،حدیث نمبر:7803)

ہمسایہ کو اذیت دینے سے دوزخ مقدر بنتی ہے:

        پنجوقتہ نماز،روزہ،زکوٰۃ،حج وغیرہ سے مسلمان یقیناًحق تعالی کی رضاوخوشنودی پاسکتاہے لیکن جب تک کہ ہمسایہ کے حقوق ادانہ کرے وہ نہ جنت کا مستحق ہوسکتاہے اور نہ ہی دوزخ سے نجات پاسکتاہے۔

        ایک وہ عورت جو صدقہ وخیرات کرتی ہے ، شب بیدار بھی ہے ، روزہ دار بھی ، لیکن ہمسایوں کو تکلیف دیتی ہے ، محض یہی سبب ہے کہ اس کو دوزخی کہا گیا ، چنانچہ حدیث شریف میں ہے : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فُلاَنَةَ تُذْكَرُ مِنْ كَثْرَةِ صَلاَتِهَا وَصِيَامِهَا وَصَدَقَتِهَا غَيْرَ أَنَّهَا تُؤْذِى جِيرَانَهاَ بِلِسَانِهَا قَالَ « هِىَ فِى النَّارِ ». قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنَّ فُلاَنَةَ تُذْكَرُ مِنْ قِلَّةِ صِيَامِهَا وَصَدَقَتِهَا وَصَلاَتِهَا وَأَنَّهَا تَصَدَّقُ باِلأَثْوَارِ مِنَ الأَقِطِ وَلاَ تُؤْذِى جِيرَانَهَا بِلِسَانِهَا قَالَ « هِىَ فِى الْجَنَّةِ ».

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرمایا:ایک صحابی نے عرض کیا ، یارسول اللہ !ایک عورت کے بارے میں کہا جاتاہے وہ بڑی نمازی ، بہت روزے رکھنے والی اور صدقہ دینے والی ہے لیکن اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے ، سرکار نے فرمایا:وہ دوزخ میں ہے ، انہوں نے پھر عرض کیا ، یارسول اللہ ایک عورت کے بارے اس کے روزے اور صدقہ اور نماز کی قلت کے ساتھ ذکر کیا جاتاہے اور یہ بھی کہا جاتاہے وہ پنیر کے ٹکڑے تقسیم کرتی ہے اور اپنی زبان سے پڑوسیوں کو اذیت نہیں دیتی ، سرکار نے فرمایا:وہ جنت میں ہے ۔ (مسندامام احمد،مسند ابی ھریرۃ،حدیث نمبر:9926)

        اس حدیث شریف میں زبان سے اذیت دینے کا انجام اور سزا بتائی گئی ہے ، زبان سے چونکہ تکلیف زیادہ ہوتی ہے اور زبان ہی ایسا عضو ہےجو جسمانی اعضاء میں زیادہ چلتاہے ، اسی لئے خصوصاً اس کی اذیت کا ذکرکیاگیا، اور انسان بے صبری کے ساتھ جلدی جس شئی سے تکلیف پہنچاتاہے تو وہ زبان ہے ، اس میں خصوصاًخواتین کے لئے درس عبرت ہے وہ صبروتحمل کا دامن چھوڑکر فورا کچھ نہ کچھ کہہ بیٹھتی ہیں ، اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ عبادات کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پڑوسیوں کو اذیت دینے سے پرہیز کریں اور پڑوسی تکلیف دیں تو اس پر صبرکرنا چاہئے اسی میں نجات اخروی وفلاح دنیاہے۔

(جاری ہے )