خلیفۂ راشد ، مولائے کائنات سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اولاد امجاد کتنی ہے ؟ اس بارے میں متعدد اقوال آئے ہیں ، مشہور قول کے مطابق آپ کے سولہ (16) شہزادیاں تھیں ، جملہ 32 اولاد نے اس دنیا کو رونق بخشی ، مولائے کائنات سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادیوں میں زیادہ مشہور سیدتنا زینب رضی اللہ عنھا ہیں ، آپ کی ولادت ماہ شعبان 5ہجری میں ہوئی ، آپ کی پرورش اور تربیت چمنستان اہل بیت اطہار میں ہوئی اور سایۂ نبوت میں آپ کے لیل ونہار گزرتے رہے ۔
سیدتنا زینب رضی اللہ عنھا کی ولادت کے وقت حضور سیدکائنات صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے ، جب تک کہ سرکار تشریف نہ لائے حضرت علی وحضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے آپ کا نام نہ رکھا ، لوگوں کے نام پوچھنے پر جواب ارشاد فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تک کہ تشریف نہ لائیں ہم نام نہیں رکھینگے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا نام زینب رکھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بھتیجے حضرت عبید اللہ بن جعفر رضی اللہ عنھما سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح کیا ، حضرت عبداللہ بن جعفر سے آپ کو شہزادے اور ایک شہزادی ہوئی ، جنکے اسماء گرامی یہ ہیں : حضرت علی ، حضرت عون اکبر ، حضرت محمد ، حضرت عباس اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھم۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہ اپنے بھائی امام حسین رضی اللہ عنہ سے بے حد الف ومحبت رکھتی ہیں ، چنانچہ تادم آخر امام علی مقام کی معیت میں رہیں ، میدانِ کربلا میں بھائی اور اہل خاندان پر جومصائب اور مظالم ڈھائے گئے ؛ بڑی ہمت کےساتھ ان کا مقابلہ کیں ، پھر یزید ملعون کے پاس جب اہل بیت کا قافلہ لے جایا گیا تو آپ نے یزید کی بدبختانہ کلام کا دنداں شکن جواب دیا۔
جیساکہ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا:زینب بنت علی بن ابی طالب بن عبد المطلب الھاشمیۃ سبطۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امھا فاطمۃ الزھراء ، قال ابن الاثیر انھا ولدت ولدت فی حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وکانت عاقلۃ لبیبۃ جزلۃ زوجھا ابوھا ابن اخیہ عبداللہ بن جعفر فولدت لہ اولادا وکانت مع اخیھا لما قتل فحملت الی دمشق وحضرت عند یزید بن معاویۃ وکلامھا لیزید بن معاویۃ حین طلب الشامی اختھا فاطمۃ مشھور یدل علی عقل وقوۃ جنان۔ (الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ ، حرف الزاء المنقوطۃ ، القسم الثالث ، ج3،ص500)
میدانِ کربلا کا منظر ، حضرت زینب کا آہ وفغاں :
امام عالیمقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے جاں نثار میدان کربلا میں یکے بعد دیگرے باری ، باری سے راہ حق میں قربان کرتے رہے ، آخر کار امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے شب عاشوراء تمام اہل خانہ خواتین وحضرات ، احبہ واقرباء کو جمع کرکے فرمایا:میں نے سروردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے ، فرمارہے ہیں کہ حسین آپ ہماری طرف آنے والے ہیں ، یہ سُن کر سب زار زار رونے لگے ، خصوصاً امام عالی مقام کی محبت میں سرشار بہن سیدتنا زینب رضی اللہ عنھا نے بڑی آہ وزاری کی اور فرمایا:بچپن میں میری ماں سیدۂ کائنات رضی اللہ عنھا رخصت ہوئیں ، پھر والدِگرامی مولائے کائنات کا سایہ سر سے اُٹھ گیا ، اب ایک میرا سہارا میرے بھائی ہے ، وہ بھی ساتھ چھوڑ رہے ہیں ، یہ سن کر امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے دلاسا دیا اور نصیحت فرمائی ، اے پیاری بہن اپنا حلم وبردباری باقی رکھئے ، صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہوجائے ، اے بہن روئے زمین کی تمام مخلوق اور آسمان کی مخلوق سب فنا ہونے والے ہیں ، میرے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اور آپ کا اسوۂ مبارک ہے ، میں اس پر عمل کروں گا، میرے بعد آپ آہ وفغاں نہ کیجئے بلکہ صبر کا دامن تھامے رہئے ، جیساکہ المنتظم ، ج 2 ، ص198 میں ہے۔