نام: ہند، کنیت: ام سلمہ، قریش کے خاندان مخزوم سے تھیں-
نسب مبارک یہ ہے: ہند بنت ابی مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم- والدہ کا نام عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ تھا ، خاندان قریش سے تھیں، آپ کے والد کا نام بعض مورخین کےنزدیک "سہیل" ہے-
آپ کے والد ایک دولتمند اور بے حد فیاض آدمی تھے، ان کی سخاوت اور دریادلی کی شہرت چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی، بیسیوں لوگ ان کے دسترخوان پر پلتے، کبھی سفر کرتے تو اپنے تمام ہمراہیوں کی خوراک اور دوسری ضروریات کی کفالت ان ہی کے ذمہ ہوتی، ان فیاضیوں کی بدولت لوگوں نے انہیں "زاد الراکب" کا لقب دے رکھا تھا، اور وہ تمام قبائلِ قریش میں نہایت عزت و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے-
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے باپ کی مانند بے حد سخی تھیں، دوسروں کو بھی سخاوت کی ترغیب دیتی تھیں، ناممکن تھا کہ کوئی سائل ان کے گھر سے خالی ہاتھ چلا جائے، زیادہ نہ ہوتا تو تھوڑا یا جو کچھ بھی ہوتا، سائل کو عطا کردیتیں- حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح آپ کے چچازاد بھائی ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی رضی اللہ عنہ سے ہوا- ان ہی کے ساتھ وہ مشرف بہ اسلام ہوئیں اور ان ہی کے ساتھ پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کیں اور پھر وہاں سے مکہ واپس آکر مدینہ کی طرف ہجرت کیں- آپ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپ سب سے زیادہ ہجرت کرنے والی خاتون تھیں- حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ غزوۂ احد میں شہید ہوئے-
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے راہ حق میں جو مصیبتیں اٹھائی تھیں، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس کا بے حد احساس تھا، چنانچہ عدت گزارنے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی معرفت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو نکاح کا پیغام بھیجا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے قبول کرلیا-
ماہ شوال 4ھ میں وہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نکاح میں آگئیں، نکاح کے وقت ان کی عمر 26 سال تھی، ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو مہر میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کھجور کی چھال سے بھرا ہوا ایک چرمی تکیہ، دو مشکیزے اور دو چکیاں عطا فرمائیں، جو کسی ازواج مطہرات کو عطا نہیں فرمائی تھیں- نکاح کے بعد وہ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے گھر لائی گئیں- ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کے توبہ کرنے کی خوشخبری حجرہ کے دروازے پر کھڑی ہوکر آپ نے ہی دی تھی- ایک دن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کے گھر تھے، آیت تطہیر اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللہُ لِیُذْہِبَ عَنۡكُمُ الرِّجْسَ اَہۡلَ الْبَیۡتِ (سورۃ الاحزاب- 33 ) کا نزول ہوا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بعد ازواج مطہرات میں حسن و جمال کے ساتھ عقل و فہم کے کمال کا بھی ایک بے مثال نمونہ تھیں-
امام الحرمین کا بیان ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوا کسی عورت کو غیر معمولی دانشمند نہیں جانتا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنی اپنی قربانیاں کرکے سب لوگ احرام کھول دیں اور بغیر عمرہ ادا کئے سب لوگ مدینہ منورہ واپس لوٹ جائیں، کیونکہ اس شرط پر صلح حدیبیہ ہوئی ہے، لوگ اس رنج و غم میں تھے، ایک شخص بھی قربانی کیلئے تیار نہیں تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کے اس طرز عمل سے روحانی کوفت ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس معاملہ کا ذکر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کیا تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: آپ خود قربانی ذبح فرمائیں، احرام کھول دیں اور سرمنڈوالیں- چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایسا ہی کیا، صحابہ کرام نے یقین کرلیا کہ اب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم صلح حدیبیہ کے معاہدہ سے ہرگز ہرگز نہ بدلیں گے، صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اپنی اپنی قربانیاں دیں اور احرام اتار کر سر منڈوالیا- حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی دانشمندی اور عقل و ذہانت کی وجہ سے یہ مسئلہ حل ہوگیا- یہ آپ کی دانشمندی کی سب سے بہتر مثال ہے- (صحیح بخاری)
اللہ تعالی نے انہیں خوبروئی، علم و ذہانت اور اصابت رائے کی نعمتوں سے کافی حصہ دیا تھا- قرآن کریم کی قرات نہایت عمدہ طریقے سے کرتی تھیں اور آپ کی قراءت حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قرات سے مشابہت رکھتی تھی-
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو حدیث سننے کا بہت شوق تھا، ایک دن بال گندھوارہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور خطبہ دینا شروع کیا، ابھی زبان مبارک سے "یا ایھا الناس" نکلا تھا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اٹھ کھڑی ہوئیں اور اپنے بال خود باندھ لیں، اور بڑے انہماک سے پورا خطبہ سنا، سرور عالم سے نہایت عقیدت تھی، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے موئے مبارک تبرکاً چاندی کی ڈبیہ میں محفوظ رکھے تھے-
صحیح بخاری میں ہے کہ صحابہ میں سے کسی کو تکلیف پہنچتی تو وہ ایک پیالہ پانی سے بھر کر ان کے پاس لاتے ، وہ موئے مبارک نکال کر اس پانی میں حرکت دے دیتیں، اس کی برکت سے تکلیف دور ہوجاتی-
مسند احمد میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمارا قرآن میں ذکر نہیں- حضو رصلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کی بات سنکر منبر پر تشریف لے گئے اور یہ آیت پڑھی: ان المسلمین والمسلمات والمومنین والمومنات ام سلمہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خبرگیری کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں جاتی تھیں، ایک دن حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو علیل پاکر ان کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے منع فرمایا- حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی نہایت زاہدانہ تھی، عبادت الٰہی سے بڑا شغف تھا، ہر مہینہ میں تین روزے نفل رکھا کرتیں، اوامر و نواہی کی بے حد پابند تھیں-
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صلب مبارک سے آپ کو کوئی اولاد نہیں ہوئی- حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک شیشی میں آپ کو مٹی عطا فرمائی تھی اور فرمایا جب اس کا رنگ سرخ ہوجائے تو سمجھ لینا کہ امام حسین شہید ہوئے- چنانچہ 61 ھ میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ میدان کربلا میں شہید ہوگئے، ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے ،سر اور ریش مبارک گرد آلود ہے، ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا : یا رسول اللہ! کیا حال ہے، آپ نے فرمایا: حسین کے مقتل سے آرہا ہوں، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی آنکھ کھلی اور اس مٹی کو دیکھا جو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو دی تھی، وہ سر خ ہوچکی تھی اور بے اختیار رونے لگیں-
وفات: حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے 63 ھ میں 84 سال کی عمر میں وفات پائی- تمام ازواج مطہرات میں آپ ہی سب سے اخیر میں انتقال فرمائی اور جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواج مطہرات کے پہلو میں دفن ہوئیں-
حدیثیں: علامہ ابن قتیم کا بیان ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے فتاوی سے ایک چھوٹا سا رسالہ تیار ہوسکتا ہے، آپ کے فتاوی بالعموم متفق علیہ ہے- حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے 378 حدیثیں مروی ہیں-