آج کے پرفتن دور میں خواتین کو مساوات اور آزادیٔ نسواں کے نام سے یہ باور کرایا جارہا ہے کہ دین اسلام نے خواتین کو گھر کی چار دیواری کے اندرقید وبندکی آہنی زنجیروں میں جکڑکر رکھ دیا ہے ، سڑکوں ، بازاروں اور پارکوں میں مَردوں کے شانہ بشانہ چلنے کے خلاف ہے ، اس حریت وآزادی کے دور میں عورتوں کو قید سے باہر آکر مَردوں کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے زندگی کے ہر شعبہ میں شریک وحصہ دار بننا چاہئے۔
لیکن دین اسلام نے عورت کے متعلق ایسی تعلیمات عطا فرمائی جو دوسرے ایان ومذاہب میں نہیں ملتی ، اس نے عورت کو ایسا قیمتی جو ہر قرار دیا کہ شرافت وکرامت ،رفعت وعظمت جیسی گراں قدر بیش بہادولت سے بہر ہ مند فرمایااور اسکی عزت وآبروکی حفاظت وصیانت کے لئے حجاب اختیارکرنے اور پردہ میں رہنے کا حکم دیا تاکہ غیروں کی بدنگاہی وبدخیالی سے یہ صاف وشفاف موتی مکدر نہ ہو ۔
اس سلسلہ میں عورت کے حجاب سے متعلق تین درجات ذکر کئے جاتے ہیں ۔
اسلام نے عورت کے اصولی طور پر گھر میں رہنے اور بوقت ضرورت باہر نکلنے ہردو صورتوں میں پردے کے معتدل ومتوازن حدود وقیود مقرر کئے ہیں ۔
حجاب کا پہلا درجہ
حجاب کے سلسلے میں پہلا درجہ حجاب اشخاص کا ہے کہ عورتوں کا شخصی وجود اور انکی نقل وحرکت بھی اجنبی مردوں کی نظروں سے مستور ہووہ عمومی حالات میں اپنے گھروں میںہی سکونت پذیر رہیں اور انکے لباس وپوشاک پر بھی اجنبی مردوں کی نظرنہ پڑے یہ اعلیٰ درجہ کا پردہ ہے چنانچہ اس سلسلے میں باری تعالی کا ارشاد ہے:’’وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاہلیۃ الاولی ‘‘اور تم اپنے گھروں میں ٹہری رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کی طرح اپنی نمائش کرتے ہوئے مت پھرو ۔ سورۃ الاحزاب:33
اور ارشاد خداوندی ہے: وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوْہُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَاب ترجمہ:اور جب ان مستورات سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ سورۃ الاحزاب:53
جامع ترمذی ،سنن ابوداؤد اور مسند امام احمد میں حدیث پاک ہے:عَنْ نَبْہَانَ مَوْلَی أُمِّ سَلَمَۃَ أَنَّہُ حَدَّثَہُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَۃَ حَدَّثَتْہُ أَنَّہَا کَانَتْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَیْمُونَۃَ قَالَتْ فَبَیْنَا نَحْنُ عِنْدَہُ أَقْبَلَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ فَدَخَلَ عَلَیْہِ وَذَلِکَ بَعْدَ مَا أُمِرْنَا بِالْحِجَابِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ احْتَجِبَا مِنْہُ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَلَیْسَ ہُوَ أَعْمَی لَا یُبْصِرُنَا وَلَا یَعْرِفُنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَفَعَمْیَاوَانِ أَنْتُمَا أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِہِ-
ترجمہ:ام المؤمنین حضرت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ اور ام المؤمنین حضرت سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہما حضرت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھیں اتنے میں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا : احْتَجِبَا مِنْہُ ان سے پردہ کرو! ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تونابینا ہیں ہم کو تو وہ دیکھ نہیں سکتے آپ نے جواب میں ارشادفرمایا: کیا تم بھی نابینا ہو؟ اور کیاتم ان کو نہیں دیکھ سکتیں؟ ۔جامع ترمذی ، کتاب الأدب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال،حدیث نمبر:2702-سنن ابوداؤد، کتاب اللباس، باب فی قولہ عز وجل وقل للمؤمنات یغضضن من أبصارہن ، حدیث نمبر:3585- مسند امام احمد ، مسند الأنصار رضی اللہ عنہم، حدیث أم سلمۃ زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث نمبر: 2702
دنیاو عقبی میں عورتوں کیلئے خیر وبھلائی ، عزت وآبروکی حفاظت اسی میں ہے کہ وہ نہ اجنبی مردوں کو دیکھیں او رنہ اجنبی مردوں کے سامنے بے حجاب آئیں جیسا کہ سید ئہ کائنات حضرت سیدتنافاطمہ الزہراررضی اللہ عنہا سے منقول ہے ۔
مجمع الزوائد اور کنز العمال میں حدیث مبارک ہے : عن علی أنہ کان عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال:"أی شیٔ خیر للمرأۃ؟" فسکتوا فلما رجعت قلت لفاطمۃ: أی شیء خیر للنساء ؟ قالت: لا یرین الرجال ولایرونہن. فذکرت ذلک للنبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال: "إنہا فاطمۃ بضعۃ منی".
ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھا آپ نے صحابہ کرام سے سوال فرمایا:عورت کے لئے کیا چیز بہتر ہے ؟صحابہ کرام نے سکوت اختیار کیا کوئی جواب نہیں دیا پھر جب میں اپنے گھر گیا تو فاطمہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:عورتوں کے لئے بہتریہ ہے وہ مردوں کو نہ دیکھیں اور مرد انکو نہ دیکھے میں نے انکے یہ جواب کاذکرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : انہوں نے سچ کہا ہے بے شک وہ میرا پارۂ جگر ہے ۔ (مجمع الزوائد : باب أی شیٔ خیر للنساء ،ج4، ص255- ،حدیث نمبر:7328۔کنز العمال، باب فی ترغیبات النساء وترہیباتہن، حدیث نمبر:46012
حجاب کا دوسرا درجہ
ضرورت کے وقت عورت کو جب باہر نکلناپڑے تو حکم دیا گیا کہ وہ کسی برقع یا لمبی چادر کو سرسے پیر تک اوڑھ کر نکلے ، اس طرح کہ بجزہتھیلیوں اور ٹخنوں سے نیچے قدموں کے بدن کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہواور وہ خوشبولگائے ہوئے نہ ہو، بجنے والا کوئی زیور نہ پہنے راستہ کے کنارے پر چلے ، مردوں کے ہجوم میں داخل نہ ہو ، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیبِہِنَّ ذَلِکَ أَدْنَی أَنْ یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَوَکَانَ اللّٰہ غَفُوْرًارَّحِیْمًا۔
ترجمہ : اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات و بنات طیبات اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادیجئے کہ اپنے اوپر ایک بڑی چادر اوڑھ لیں اس سے بآسانی ان کا شریف زادی ہونا معلوم ہوجائے گا انہیں ستایا نہیں جائے گا‘اوراللہ خوب بخشنے والا‘نہایت مہربانی کرنے والاہے۔ سورۃ الاحزاب: 59
حجاب کا تیسرا درجہ
گھر کے اندر رشتہ دار، عزیزواقارب کے آنے جانے اور انفرادی واجتماعی طورپرایک ساتھ کھانے پینے سے مطلقا منع نہیں کیا گیا بلکہ اس سلسلے میں اصولی ہدایات دی گئیں ۔
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ أَوْ آَبَائِہِنَّ أَوْ آَبَاءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِی إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِی أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِینَ غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِینَ لَمْ یَظْہَرُوا عَلَی عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِینَ مِنْ زِینَتِہِنَّ وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیعًا أَیُّہَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ ۔
ترجمہ: اور آپ حکم فرمادیجئے ایماندار عورتوں کو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور حفاظت کیا کریں اپنی عصمتوں کی اور نہ ظاہر کیا کریں اپنی آرائش کو مگر جتنا اس سے خود بخود نمایاں ہو اور ڈالے رہیں اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر نہ ظاہر ہونے دیں اپنی آرائش کو مگر اپنے شوہروں کے لئے یا اپنے باپ کے لئے یا شوہر کے باپ کے لئے یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوند کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں کے لئے اپنے بھانجوں کیلئے یااپنی ہم مذہب عورتوں پر یا اپنی باندیوں پر یا اپنے ایسے نوکروں پر جو عورت کے خواہشمند نہ ہو ں یا ان بچوں پر جو عورتوں کی پوشیدہ چیزوں سے واقف نہ ہوں اور نہ زور سے ماریں اپنے پاؤں زمین پر کہ معلوم ہوجائے وہ بناؤسنگار جس کو وہ چھپائے ہوئے ہیں اور رجوع کرو اللہ کی طرف تم سب اے ایمان والو تاکہ تم بامراد ہوجاؤ۔ سورۃ النور:31
پردہ سے متعلق محارم وغیرمحارم کے مابین فرق کی حکمت
جہاں تک مرداور عورت کے تعلق کا مسئلہ ہے تو اس میں بعض ایسے رشتے آتے ہیں جو فطرۃً عورت کی عصمت وعفت کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں یہ وہ رشتے ہیں جن سے ہمیشہ کے لئے نکاح کرنا حرام ہے ان کو محارم کہتے ہیں جیسے باپ ،دادا ، نانا، بھائی ،چچا، ماموں ، بھتیجہ، بھانجہ ، پوتا ، نواسہ، خسر، وغیرہ اور بہت سے وہ رشتے ہیں جن سے نکاح کرنا جائز ودرست ہے انکو غیر محارم کہا جاتاہے جیسے چچازاد بھائی ، ماموں زاد بھائی ، خالہ زاد بھائی ، پھوپھی زاد بھائی، دیور، جیٹھ وغیرہ او ریہ ایک فطری بات ہے کہ تمام رشتے آپس میں برابر نہیں ہوسکتے، بعض تو وہ باتقدس رشتے ہیں کہ جن کی طرف غلط تصور وخیال سے نظریں اٹھتی ہی نہیں اور وہ خود آپس میں ایک دوسرے کی عفت وعصمت کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں ، اور بعض وہ ہیں جن کی طرف نظریں اٹھ سکتی ہیں اس لئے اسلام نے پردہ کے احکام میں بھی فرق ملحوظ رکھاہے اس لحاظ سے اس کی دوقسمیں بنتی ہیں۔ (۱)محارم (۲)غیرمحارم
شوہر سے پردے کا تو کوئی مسئلہ نہیں وہ اپنی بیوی کے سرسے لیکر قدم تک کے ہر حصۂ بدن کو دیکھ سکتا ہے تاہم آداب میں یہ بات داخل ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے مقام ستر کو نہ دیکھیں جیسا کہ الموسوعۃ الفقھیہ میں ہے : لَکِنَّ الشَّافِعِیَّۃَ وَالْحَنَابِلَۃَ قَالُوا : یُکْرَہُ نَظَرُ کُلٍّ مِنْہُمَا إِلَی فَرْجِ الآْخَرِ، وَنَصَّ الشَّافِعِیَّۃُ عَلَی أَنَّ النَّظَرَ إِلَی بَاطِنِ الْفَرْجِ أَشَدُّ کَرَاہَۃً وَقَال الْحَنَفِیَّۃُ : مِنَ الأَْدَبِ أَنْ یَغُضَّ کُلٌّ مِنَ الزَّوْجَیْنِ النَّظَرَ عَنْ فَرْجِ صَاحِبِہِ ، وَاسْتَدَلُّوا بِمَا رُوِیَ عَنْہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَال إِذَا أَتَی أَحَدُکُمْ أَہْلَہُ فَلْیَسْتَتِرْ ، وَلاَ یَتَجَرَّدْ تَجَرُّدَ الْعَیْرَیْنِِ (الموسوعۃ الفقھیہ ،حرف العین،عورۃمن کل الزوجین بالنسبۃ للاٰخر
البتہ باپ ،دادا اور دیگر محارم سے پردے کے سلسلہ میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ حضرات بھی عورت کے سینے کے ابھاراورناف سے لیکر گھٹنے تک پیٹ ،پیٹھ اور ران کو نہیں دیکھ سکتے ،اس قدر پردہ ان کے حق میں بھی لازم وضروری ہے ۔محارم میں سے کسی کو بھی ان اعضاء کے دیکھنے کی شرعاً اجازت نہیں ،ان کے علاوہ دیگر اعضاء جیسے چہرہ ، سراور بازووغیرہ دیکھنے میں شرعاًکوئی قباحت نہیں بشرطیکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔
جیسا کہ ہدایہ کتاب الکراہیۃ،ج 4ص 461 میں ہے:وینظر الرجل من ذوات محارمہ الی الوجہ والراس والصدروالساقین والعضدین ولاینظر الی ظھر ہاوبطنہا وفخذہا ، والاصل فیہ قولہ تعالی ولا یبدین زینتہن الالبعولتہن الایۃ ۔ والمراد اللہ اعلم مواضع الزینۃ وہی ماذکرنا فی کتابنا ویدخل فی ذلک الساعد والاذن والعنق والقدم لان کل ذلک موضع الزینۃ بخلاف الظہر والبطن والفخذ لانہا لیست مواضع الزینۃ
محارم کو دیکھنے کی دلیل اللہ تعالی کا رشاد ہے: وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ أَوْ آَبَائِہِنَّ أَوْ آَبَاءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِی إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِی أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِینَ غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِینَ لَمْ یَظْہَرُوا عَلَی عَوْرَاتِ النِّسَاء۔
ترجمہ: اور ظاہر نہ کریںاپنی ز ینت کوسوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ کے یا شوہر کے باپ کے یا اپنے بیٹوں کے یا اپنے خاوند کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں کے اپنے بھانجوں کے یااپنی ہم مذہب عورتوں کے یا اپنی باندیوں کے یا اپنے ایسے غلاموں کے جو عورت کے خواہشمند نہ ہو ں یا ان بچوں کے جو عورتوں کی پوشیدہ چیزوں سے واقف نہ ہوں ۔ سورۃ النور:31
اس آیت میں ذکر کئے گئے محارم کے سامنے زینت ظاہر کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور زینت سے مرادمقامات زینت ہے اس میں کلائی، کان ، گردن اور قدم داخل ہیں کیونکہ یہ سب مقامات زینت کہلاتے ہیں ۔
غیر محارم سے پردہ کا جہاں تک معاملہ ہے اگر فتنہ کا اندیشہ ہے تو پورے بدن کو مستور رکھنا چاہئے حتی کہ چہرہ پر بھی نقاب ڈالنا چاہئے اور اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہوتو چہرہ اور ہتھیلی کے کھلارکھنے میں کوئی حرج نہیں تاہم اس پُرفتن وپُرآشوب دورمیں بہر صورت چہرہ کھلانہ رکھنے میں ہی سلامتی ہے، ارشاد باری تعالی ہے:وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا او روہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اسی قدر جو اس میں خود بہ خود نمایاں ہو ۔
از؛ حضرت ضیاء ملت دامت برکاتہم العالیہ