Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Anjuman-e-Qawateen

قیمتی ہیروں کاہار


بہترین لباس ، خوبصورت زیور کی خواہش عورت کی فطری خواہش ہے ، اچھا کھانے پینے سے بڑھکر عورتوں میں زیور ولباس کی خواہش زیادہ ہوتی ہے ، محافل وتقاریب میں ایک بار جولباس پہنا گیا پھر دوبارہ اسی لباس کو پہننے میں عاروتوہین اور عیب سمجھتیں ہیں اگرچہ یہ عادت اور اس طرح کاخیال زندگی میں بے شمار مشکلات ودشواریاں پیدا کرتاہے اس کے باوجود عورتیں عمومًا یہی کوشش کرتی ہیں کہ لباس ایسا ہوکہ جسکو کسی نے ہمیں اس سے پہلے پہنے ہوئے نہیں دیکھا ہو یا کم ازکم تقاریب میں اس کو پہنا گیاہو، دراصل عوتوں کے یہ خیالات وتصورات اس لئے ہیں کہ زیور ولباس سے محبت ان کی فطرت میں رکھی گئی ہے ، خالق کائنات کا ارشاد ہے : أَوَمَنْ يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ۔(سورۃ الزخرف:18)

خالق کائنات نے حسین وجمیل ، سونے ، چاندی اور ہیرے ،جواہر کے زیور سے محبت ، عورت کے قلب میں ڈالی ، ساتھ ہی ساتھ اس کے اصول وضوابط بیان فرمائے اور یہ بھی فرمایا کہ دنیا اور اس کے زیور کی محبت دل میں بسالینا اور اسی کوسب کچھ سمجھ لینا ، اس کے حصول کے لئے جو چاہے کرلینا ، نہ حلال کی تمییز کرنا ، نہ حرام سے اجتناب اور نہ والدین کا ادب اورشوہر کی قدر ۔

یہ سب جہالت والے کام وہی کرتے ہیں جن کو اقدار کا پاس ولحاظ نہ ہو ، جن کامقصد بس پہننا ،اُوڑھناہو، جن کو اپنی آخرت کی فکرنہ ہو۔

بہر حال اللہ تعالی نے جو چیزیں ہمارے لئے جائز فرمایا ہے دائرۂ شریعت میں رہ کر اور حدود کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئےاُن کو ضرور استعمال کریں ۔ خواتین کے لئے زیور کا استعمال شرعاًجائز وحلال ہے مگر کسی کا حق مارکر یا امانت میں خیانت کرکے بالکل جائز نہیں۔

اور خواہشات کی تکمیل کے لئے خواہ کتنی ہی کوششیں کی جائے نفس کی بھوک وپیاس اور خواہش کا گڑھا کبھی بھرتانہیں ، یہ ایسا خانہ ہے کہ اس کو پُر نہیں کیا جاسکتا، اسی لئے ہمارے سلف صالحین کمسن بچیوں کو بھی ترک خواہشات کا باربار حکم دیتے رہے اور ان سے خواہش کے مطابق کوئی جائز عمل بھی سرزد ہوتا تو اس پر آگہی عطا فرماتے کہ خواہش کی تکمیل پر مزید خواہش بڑھتی رہتی ہیں ، چنانچہ منقول ہے ۔

مولائے کائنات سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنھا نے اپنے کمسنی کے زمانے میں بیت المال میں موجود ایک قیمتی ہیروں کا ہار بیت المال میں دیکھا اور وہاں کے ناظم ابن ابی رافع سے فرمایا کہ عیدقریب ہے آپ وہ مجھے دیں ، میں عید کی خوشیوں میں یہ ہارپہنونگی ، اس کے بعد پھر واپس کردونگی ، ناظم بیت المال نے یہ ہار انہیں دیدیا اور آپ یہ ہار پہنی ہوئی تھیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا ، یہ دیکھ کر آپ کے چہرہ پر غصہ اور ناراضگی کے آثار ظاہر ہوئے ، پھر آپ نے صاحبزادی سے پوچھا یہ ہار کہاں سے آیا اور کس نے دیا؟ حضرت زینب رضی اللہ عنھا نے عرض کیا :ناظم بیت المال ابن ابی رافع سے یہ ہار میں نے لیا ؛ تاکہ ایام عید میں پہن لوں پھر واپس کردوں۔

مولائے کائنات رضی اللہ عنہ نے ناظم کو بلاکر تنبیہ فرمائی کہ یہ قوم کی امانت ہے ،کیا آپ نے مسلمانوں سے اجازت لے رکھی ہے کہ اموال بیت المال میں جس طرح چاہو تصرف کرو؟ اور اسی وقت وہ ہاربیت المال میں لوٹادیاگیا۔

اس واقعہ سے ہم مسلمان مردوخواتین کو کئی نصیحتوں کا سرمایہ ملتا ہے :

پہلی یہ کہ بچوں کی تربیت ماں باپ کا فریضہ ہے ، ان کے اخلاق وکردار بنانا ، اسلامی اقدار کے سانچے میں انہیں ڈھالنا اصول تربیت کی اولین کڑی ہے ، بچپن ہی سے انہیں یہ معلوم رہنا چاہئے کہ ہمارے مالک اور اس کے رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد فرمائی ہیں اور ہمارے لئے کیا حلال اور کیا حرام ہے؟ یہ علم بچوں کو اسی وقت ہوگا جبکہ اُن کو احکامِ اسلام سے واقف کروایا جائے اور ان کی فطرت تعلیمات اسلامی کے مطابق اُسی وقت ہوگی جبکہ کمسنی میں انہیں عملی طورپر بتادیا جائے اور بارہا اسکی مشق کروائی جائے۔

دوسری نصیحت یہ ہے کہ کم سن بچے اگرچہ شرعی احکام کے مکلف نہیں ہوتے لیکن محرمات سے انہیں بھی بچانا ضروری ہے تاکہ بچپن سے ہی حرام کاریوں سے ان کامزاج وطبیعت متنفر ہو، والدین اس بات کا سہار الیکر چشم پوشی کریں کہ وہ مکلف نہیں ابھی بچے ہیں ، کچھ مدت کے بعد انہیں سمجھا یا جائے گا تو یاد رکھنا چاہئے کہ برائی کا یہ شرکل آگ کا شعلہ بن کر بھڑک جائے گا ، ڈرہے کہ اس چنگاری سے ہمارا گھر آگ کے حوالہ نہ ہوجائے ۔

تیسری نصیحت یہ ہے کہ جب کوئی شئ ہمارے پاس امانت ہوتو اس کا استعمال ہرگز جائز نہیں ہوتا اور اس امانت کی اتنی کڑی نگہداشت کرنی چاہئے کہ غفلت سے بھی کوئی اس کا استعمال نہ کرسکے ۔

چوتھی نصیحت :ہمارے سلف کی زندگی مثل آئنہ صاف وشفاف رہی ، ایک دھبہ بھی انکی حیات کو گدلانہ کرسکا، ہم جیسے اپنا دامن دھول ومٹی سے بچاتے ہیں ان حضرات نے دامن حیات کی اس سے زیادہ نگہداشت کی ، قوم وملت کا سرمایہ اور مال ودولت کی طرف دیکھنا بھی ان حضرات نے ایساسمجھا جیسے چنگاری اپنے ہاتھ میں رکھنا ہوتاہے ، یہ وہ تابناک ستارے ہیں جنہوں نے اپنا ذاتی مال بھی قوم کی فلاح وبہبود کے لئے بے دریغ خرچ کیا ، یہ دنیا اور اس کی دولت ان حضرات کے پاس نجاست غلیظہ سے سخت تھی ۔