ازدواجی زندگی میں خوشیوں کے پھول اس وقت تک کھل نہیں سکتے جب تک کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق نہ جانیں اور ان کی ادائی کا عزم صمیم نہ کرلیں ، نفرتیں مٹانے کے لئے دل میں خلوص ومحبت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، یہ محبت بھی اللہ تعالی کے لئے ہو جسے اسلام نے الحب فی اللہ کا نام دیا، شوہر پر بیوی کے حقوق ویسے بہت ہیں ، چند اہم اور بڑے حقوق اور شوہر کی ذمہ داریاں یہاں ذکر کئے جارہے ہیں :
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شوہر پر بیوی کے حقوق سے متعلق عرض کیا گیا تو کیا ارشاد فرمایا ؟ اس سے متعلق حدیث شریف میں آیا ہے : قَالَ أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ أَوِ اكْتَسَبْتَ وَلاَ تَضْرِبِ الْوَجْهَ وَلاَ تُقَبِّحْ وَلاَ تَهْجُرْ إِلاَّ فِى الْبَيْتِ.
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تو کھائے تو بیوی کو کھلا ، جب تو پہنے تو اسے بھی پہنا ، بیوی کے چہرہ پر نہ مار ، اور گھر کے سوا کہیں اور اسے تنہا نہ چھوڑ۔ ﴿سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر: 2144﴾
اس حدیث شریف میں شوہر کو دو ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی اور تین برائیوں سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ، فرمایاکہ بیوی کے کھانا پینا اور لباس کی ذمہ داری شوہر کے ذمہ ہے ، وہ جیسا کھاتا پیتا اور پہنتا ہے اسی معیار کا کھانا اور ویساہی عمدہ لباس بیوی کو دینا شوہر کا اہم فریضہ ہے ۔
پھر جن تین برائیوں سے شوہر کو منع فرمایا ان میں ایک یہ ہے کہ بیوی کے چہرہ پر نہ مارے ، ویسے بلاوجہ مار پیٹ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں البتہ بیوی نافرمان اور سرکش ہوجائے تو ہلکی سی مار مارنا جائز ہے مگر چہرہ پر نہیں مارنا چاہئے کیونکہ یہ تمام بدنی اعضاء میں سب سے اشرف واعلی ہے ۔
جس دوسری بُرائی سے شوہر کو منع کیا گیا وہ بیوی کو تنہا نہ چھوڑنا ہے ، اس نصیحت قیمہ کے مختلف معانی ہیں ، لاتھجر کا ایک مفہوم یہ ہے کہ شوہر بیوی کو بلاضرورت تنہا کہیں آنے جانے کی اجازت نہ دے ، آج کل ہمارے معاشرہ میں یہ وبا بہت ہی عام ہوتی جارہی ہے ، گھر میں رہنے والی خواتین کو کھلے عام اجازت اور چھوٹ دی جارہی ہے ، وہ جہاں چاہے آئیں اور جائیں ، شاپنگ ، خریداری وغیرہ کے لئے تنہا نکلنا خواتین کے لئے کوئی عیب کی بات نہ رہی ۔
اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شوہر بیوی سے زیادہ ناراض نہ رہے ، اس کی غلطی پر تنبیہ بھی کرے ، پھر اسے درگزربھی کردے ۔
اس کا تیسرا مفہوم یہ ہے کہ سرعام یا دیگر اعزہ واقارب کی موجودگی میں بیوی پر غصہ نہ ہو اور اس کو مورد ملامت نہ بنائے ۔ تیسرا ممنوع عمل بیوی کے ظاہری یاباطنی عیوب اور اخلاقی خرابیوں کی بنا پر اس کو عار دلاتے رہنا اور اس کو قبیح وبدصورت کہنا اور بددعا دینا یہ سب شوہر کی بداخلاقی میں شمار ہوتے ہیں ۔
بیوی میں کسی بھی قسم کا عیب اس کو مکمل داغدار نہیں بناتا ، حقیقت تو یہ ہے کہ انسان ہونے کی حیثیت سے بیوی اور شوہر دونوں میں بھی عیوب پائے جاتے ہیں ، شوہر اپنی زندگی خوشگوار بنانا چاہتاہے تو بیوی کے عیوب پر نہیں اس کی خوبیوں پر نظر رکھے ۔
اسی لئے حدیث پاک میں آیا ہے:عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لاَ يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِىَ مِنْهَا آخَرَ.
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا:حضرت سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی مسلمان کسی مومن بیوی سے نفرت نہ کرے ، اگر اس کی ایک عادت پسند نہ آئے تو دوسری صفت اسے پسند آئیگی ۔ ﴿صحیح مسلم ، باب الوصیة بالنساء ، حدیث نمبر:3721﴾
حدیث مذکور سے بیوی کا یہ حق معلوم ہوتا ہے کہ تھوڑی سی بات پر شوہر نفرتوں کی دیوار نہ بنائے ، اس میں کوئی غلطی دیکھے تو حسن اخلاق اور پیار ومحبت کے دائرہ میں سمجھائے ، محض نفرتوں کے ساتھ بیوی کا سامنا کیا جائے تو زندگی دوبھر ہوجائے گی ، اور چونکہ عورتوں کی جبلت وعادت میں کچھ فرق وامتیاز ہوتا ہے جو مردوں کی طبیعت سے میل نہیں کھاتا ، اس کو بالکل سیدھا کرنے سے ٹوٹنے کا قوی اندیشہ ہوتاہے ، اسی لئے لطف ومہربانی ، ملاطفت وحسن سلوک اور صبروتحمل کے ساتھ ان سے نباہنے کی کوشش جاری رکھی جائے ، جیساکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِنَّ الْمَرْأَةَ كَالضِّلَعِ إِذَا ذَهَبْتَ تُقِيمُهَا كَسَرْتَهَا وَإِنْ تَرَكْتَهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَفِيهَا عِوَجٌ. ﴿صحیح مسلم ، کتاب الرضاع ، باب الوصیة بالنساء ، حدیث نمبر:3717﴾
یعنی عورت ٹیڑھی پسلی کی طرح ہے ، اگر تو اسے سیدھا کرنے چلے تو ٹوٹ جائے گی اور اسی حالت میں اسے چھوڑدے تو فائدہ اٹھائے گا۔
ظاہر ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کرنے میں ہی کامیابی ہے ، عورتوں کو بالکل سیدھا کرنے کی تمنا چھوڑکر ان کو انکی حالت پر برقرار رکھنے سے ہی مرد کا فائدہ ہے ۔ جیساکہ کمان کو سیدھا کرنے سے وہ تیر اندازی کے قابل نہیں رہتی اور اس کی خوبی اس کے ٹیڑھے رہنے میں ہے ۔