نام: زینب کنیت: ام الحکم ان کا تعلق قریش کے خاندان اسد بن خزیمہ سے تھا-
سلسلۂ نسب یہ ہے: زینب بنت جحش بن رتاب بن لعمیر بن صبرۃ بن مرۃ بن کثیر بن غم بن دودان بن سعد بن خزیمہ- ماں کا نام امیمہ بنت عبدالمطلب تھا جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پھوپھی تھیں، اس لحاظ سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن تھیں-
حالات زندگی اور نمایاں پہلو: حضرت زینب رضی اللہ عنہا ان خوش قسمت لوگوں میں تھیں جنہوں نے السابقون الاولون بننے کا شرف حاصل کیا- 13 سال بعد بعثت میں اپنے اہل خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئیں، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح کرادیا تھا – مگر چونکہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا خاندان عرب کی ایک بہت ہی شاندار خاتون تھیں اور حسن و جمال میں بھی یہ خاندان عرب کی بے مثال عورت تھیں، اور حضرت زید رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے متبنیٰ بنالیا تھا مگر پھر بھی چونکہ وہ پہلے غلام تھے، اس لئے حضرت زینب رضی اللہ عنہا ان سے خوش نہیں تھیں اور اکثر میاں بیوی میں ان بن رہا کرتی تھی، یہاں تک کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے ان کو طلاق دے دی-
اس واقعہ سے فطری طور پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قلب نازک پر صدمہ گزرا، چنانچہ ان کی عدت گزرنے کے بعد محض حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی دلجوئی کے لئے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس اپنے نکاح کا پیغام بھیجا- روایت ہے کہ یہ پیغام بشارت سن کر حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے دو رکعت نماز ادا کی اور سجدہ میں سر رکھ کر یہ دعا مانگی کہ خداوند! تیرے رسول نے مجھے نکاح کا پیغام دیا ہے، اگر میں تیرے نزدیک ان کی زوجیت میں داخل ہونے کے لائق عورت ہوں تو یا اللہ! تو ان کے ساتھ میرا نکاح فرمادے- ان کی یہ دعا فورا ہی قبول ہوگئی- اس نکاح کے بارے میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کسی مخلوق سے مشورہ نہیں بلکہ فرمایا :اپنے پروردگار عزوجل سے مشورہ یعنی استخارہ نہ کرلوں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں فرشتوں کی موجودگی میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح کردیا، اب زمین میں بھی اسی اعلان کی ضرورت تھی، چنانچہ جبریل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے- فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا- ترجمہ: پس جب زید (رضی اللہ عنہ) اپنی حاجت پوری کرچکے اور ان کو طلاق دے دی تو اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہم نے زینب (رضی اللہ عنہا) کا نکاح تم سے کردیا- (سورۃ الاحزاب- 37 )
اس آیت کے نزول کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کون ہے جو زینب کے پاس جائے اور ان کو یہ خوشخبری سنائے کہ اللہ تعالی نے میرا نکاح ان کے ساتھ فرمادیا ہے- یہ سنکر ایک خادمہ دوڑتی ہوئی آئی اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچی اور یہ آیت سناکر خوشخبری دی- اذا تقول للذی انعم اللہ علیہ الخ وانعمت علیہ الخ-
حضرت زیبت اس بشارت سے اس قدر خوش ہوئیں کہ اپنا زیور اتار کر اس خادمہ کو انعام دیا اور خود سجدہ میں گرپڑیں اور اس نعمت کے شکریہ میں دو ماہ لگاتار روزہ دار رہیں- روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے بعد ناگہاں حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے مکان تشریف لے گئے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)! بغیر خطبہ اور بغیر گواہ کے آپ نے میرے ساتھ نکاح فرمالیا، آپ نے آپ کا نام پوچھا کیونکہ آپ کا اصلی نام "برہ" تھا تو آپ نے بجائے "برہ" کے زینب تجویز کیا- استیعاب
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تیرے ساتھ میرا نکاح اللہ تعالی نے کردیا ہے اور حضرت جبریل اور دوسرے فرشتے اس نکاح کے گواہ ہیں- 4 یا 5 ہجری میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نکاح میں آئیں- اس وقت آپ کی عمر 35 سال تھی اور مہر 400 درہم مقرر ہوا-
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت زینب سے نکاح پر جتنی بڑی دعوت ولیمہ فرمائی اتنی بڑی دعوت ولیمہ ازواج مطہرات میں سے کسی کے نکاح کے موقع پر بھی نہیں فرمائی- آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دعوت ولیمہ میں تمام صحابہ کرام کو نان و گوشت کھلایا-
فضائل و مناقب: حضرت زینب رضی اللہ عنہا ازواج مطہرات سے بطور فخر کہا کرتی تھیں کہ تمہارا نکاح تمہارے اولیاء نے کیا، اور میرا نکاح اللہ تعالی نے سات آسمانوں میں کیا- (رواہ الترمذی)
شعبی نے ایک مرسل روایت نقل کی ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کہا کرتی تھیں کہ یا رسول اللہ میں تین وجہ سے آپ پر ناز کرتی ہوں-
حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے فضائل و مناقب میں چند احادیث بھی مروی ہیں- چنانچہ روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ میری وفات کے بعد تم ازواج مطہرات میں سے میری وہ بیوی سب سے پہلے وفات پاکر مجھ سے آکر ملے گی جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہے- یہ سن کر تمام ازواج مطہرات نے ایک لکڑی سے اپنا اپنا ہاتھ ناپا تو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا جو بلند قد کی مالک تھیں، اسی لئے آپ کا ہاتھ سب سے لمبا نکلا، لیکن حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد ازواج مطہرات میں سب سے پہلے زینب رضی اللہ عنہا نے وفات پائی، تو اس وقت پتہ چلا کہ ہاتھ لمبا ہونے سے مراد کثرت سے صدقہ دینا تھا- حضرت زینب رضی اللہ عنہا دستکاری کا کام کرتی تھیں، اس کی آمدنی فقراء و مساکین پر صدقہ کردیا کرتی تھیں- حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی وفات کی خبر سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہائے ایک قابل تعریف عورت جو سب کے لئے نفع بخش تھی اور یتیموں او ربوڑھی عورتوں کا دل خوش کرنے والی تھی، آج دنیا سے چلی گئیں- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ بھلائی اور سچائی میں اور رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کے معاملہ میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی عورت کو نہیں دیکھا- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کے متعلق فرمایا "میں نے اپنے دین کے معاملہ میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے بہتر کوئی عورت نہیں دیکھی"-
واقعۂ افک کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم علیہ وسلم کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ سے استفسار فرمایا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بڑے وثوق کے ساتھ جواب دیا: مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا کی اچھائیوں کے علاوہ کسی بات کا علم نہیں-
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہمسری کا دعوی تھا، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح کئی خصوصیات کا مظہر تھا، جس میں مختصر اور چند یہ ہیں:
حضرت زینب رضی اللہ عنہا عبادت میں بہت خشوع و خزوع کے ساتھ مشغول رہتی تھیں- ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے متعلق فرماتی ہیں: "بڑی نیک، بڑی روزہ رکھنے والی اور بڑی تہجد گزار تھیں، بڑی کمانے والی تھیں جو کماتیں کل مساکین پر صدقہ کردیتی تھیں"-
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب پہلی مرتبہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا سالانہ نفقہ جو بارہ ہزار درہم تھے، بیت المال سے آپ کے پاس آئے تو بار بار کہتی تھیں کہ اے اللہ! آئندہ یہ میرے پاس نہ آئے، چنانچہ اسی وقت تمام مال اقارب اور حاجت مندوں میں تقسیم کردیا-
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع ہوئی تو یہ فرمایا کہ کچھ ایسا نظر آتا ہے کہ اللہ کی طرف خیر اور بھلائی کا ارادہ ہے- فوراً ہزار درہم روانہ کئے اور سلام کہلا بھیجا کہ وہ بارہ ہزار تو خیرات کردئیے، یہ ایک ہزار اپنی ضرورتوں کے لئے رکھ لیں- حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے وہ ہزار بھی اسی وقت تقسیم کردئیے- جب سب مال تقسیم ہوگیا تو برزہ بنت رافع نے کہا: اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرمائے، آخر ہمارا بھی اس مال میں کچھ حق ہے- آپ نے فرمایا: اچھا جو رقم اس کپڑے کے نیچے موجود ہو وہ تم لے لو- برزہ نے کپڑا اٹھاکر دیکھا تو پچاسی درہم تھے- جو مال آپ تقسیم کررہی تھیں اس پر آپ نے کپڑا ڈال دیا تھا اور برزہ آپ کے حکم کے مطابق فلاں فلاں یتیم کو دے آؤ تو وہ دے کر آرہی تھی- سب مال ختم ہونے کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا کی کہ اے اللہ اس سال کے بعد عمر کا وظیفہ مجھ کو نہ پائے-
آپ کی وفات کا سال: سن 20 ھ یا 21 ھ میں 53 برس کی عمر پاکر مدینہ منورہ میں دنیا سے رخصت ہوئیں- ان کی وفات سے مدینہ کے فقراء و مساکین میں حشر برپا ہوگیا، کیونکہ وہ مربی و دستگیر تھیں ، وفات کے وقت سوائے ایک مکان کے ترکہ میں کچھ نہیں چھوڑا، سب راہ خدا میں لٹا چکی تھیں، وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کپڑے خوشبو لگاکر کفن کے لئے بھیجے لیکن حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے پہلے ہی سے جو کفن تیار رکھا تھا ان کی بہن حمنہ نے صدقہ کردیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بھیجے ہوئے کفن میں ان کو کفنایا گیا- نماز جنازہ فاروق اعظم نے پڑھائی اور تمام کوچہ بازار میں فاروق اعظم نے اعلان کرایا کہ "تمام اہل مدینہ اپنی مقدس ماں" کی نماز جنازہ کے لئے حاضر ہوجائیں- وفات سے کچھ دیر پہلے وصیت کی کہ مجھے تابوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اٹھایا جائے- چنانچہ وصیت پوری کی گئی، وفات کے دن شدید گرمی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قبر کی جگہ پر خیمے لگوادئیے اور محمد بن عبداللہ بن جحش، اسامہ بن زید، عبداللہ بن ابی احمد اور محمد بن طلحہ رضی اللہ عنہم نے قبر میں اتارااور جنت البقیع میں دوسری ازواج مطہرات کے ساتھ دفن ہوئیں-
حدیثیں: حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے 11 حدیثیں حضو رعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے روایت کی ہیں، جن میں سے دو حدیثیں بخاری ومسلم دونوں کتابوں میں مذکور ہیں، باقی نو دیگر کتب احادیث میں لکھی ہوئی ہیں-