مسلمان مرد وخواتین دور حاضر میں مغربی دنیا اور اس کی تہذیب سے زیادہ متأثر ہورہے ہیں ، اخلاق وعادات پر غیروں کی چھاپ نظر آتی ہے ، لباس یہود ونصاری کے مشابہ ہوتاہے ، کھانے پینے کے اطوار مستشرقین کے مرہون منت ہیں ، مسلمانوں نے غیروں کی اتباع میں نہ صرف عادات واطوار اور معمولات کو خیرباد کہہ دیا بلکہ احکام اسلام اور سنن وواجبات بھی پس پشت ڈالدئے ہیں ، جب تک کہ مغربی تہذیب سے مسلمان خواتین محفوظ تھیں ہمارا معاشرہ مسلم معاشرہ نظر آتا تھا ، جب سے کہ تہذیب اسلام کی پاسبانی کرنے والی شہزادیوں نے دشمنان اسلام کی تہذیب کا پٹہ اپنے گلے میں ڈالدیا معاشرہ یکلخت بے راہ روی کی طرف بڑھنے لگا ؛ حتی کہ عورتوں نے یہودیت ونصرانیت کی اتباع اور صورت وسیرت میں ان کی پیروی کو فریضۂ زندگی سمجھ لیا اور اتباع فیشن میں بیوی نے شوہر کی خدمت اور اس کے گھریلو کام انجام دینا بھی عیب سمجھ رکھا ہے ، مزید یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ شوہر کو بیوی پر کوئی فضیلت نہیں اور اس کے لئے کھانا بنانا ، کپڑے وغیرہ دھونا ، اس کا گھر صاف رکھنا وغیرہ یہ سب کام بیوی کے ذمہ نہیں ہے ۔ اس فکر باطل وتصور خام کی حامل خواتین کیا یہ نہیں سمجھتیں کہ جب شوہر کی خدمت اور اس کے گھر کی حفاظت بیوی کے ذمہ داریوں میں نہیں ہے تو کیا بیوی کی خواہش کے مطابق مرغن وبہترین کھانے کھلانا اور زمانہ جس معیار کے کپڑے پہنتا ہے ویسے ہی خوبصورت لباس دینا شوہر پر لازم ہے یا اس کی ذمہ داری ہے ؟ بیوی کا شوہر کے حق میں کوئی ذمہ نہیں تو شوہر پر ذمہ داری کیوں ہوگی ؟
مغرب پرستی سے منہ موڑ کر مسلم خواتین اگر صحابیات وتابعیات کی پاکباز زندگی کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارے سلف کا اس میدان میں کیا عمل تھا ، شوہر کی خدمت اور گھریلو کاموں کے متعلق ان مقدس خواتین کے افکار وتخیلات کیا تھے ، اگر یہ جان لیں تو اتباع فیشن کا جنون اتر جائے گا اور حق پرستی کا سودا سرمیں سماجائے گا۔
بطورِمثال یہاں چند احادیث نقل کی جاتی ہیں:
سیدتنا اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنھما کے متعلق صحیح بخاری شریف میں آیا ہے کہ آپ اپنے شوہر نامدار سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کےگھوڑے کو چارہ ڈالتیں اور اس کو پانی پلاتیں ، گٹھلیا سرپر رکھ کر لاتیں اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی روٹی کے لئے آٹا پیستیں ، جیساکہ بخاری شریف میں حدیث پاک ہے : عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِى بَكْرٍ رضى الله عنهما قَالَتْ تَزَوَّجَنِى الزُّبَيْرُ ، وَمَا لَهُ فِى الأَرْضِ مِنْ مَالٍ ، وَلاَ مَمْلُوكٍ ، وَلاَ شَىْءٍ غَيْرَ نَاضِحٍ ، وَغَيْرَ فَرَسِهِ ، فَكُنْتُ أَعْلِفُ فَرَسَهُ ، وَأَسْتَقِى الْمَاءَ ، وَأَخْرِزُ غَرْبَهُ وَأَعْجِنُ ، وَلَمْ أَكُنْ أُحْسِنُ أَخْبِزُ ، وَكَانَ يَخْبِزُ جَارَاتٌ لِى مِنَ الأَنْصَارِ وَكُنَّ نِسْوَةَ صِدْقٍ ، وَكُنْتُ أَنْقُلُ النَّوَى مِنْ أَرْضِ الزُّبَيْرِ الَّتِى أَقْطَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى رَأْسِى ، وَهْىَ مِنِّى عَلَى ثُلُثَىْ فَرْسَخٍ .
ترجمہ: حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا :حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے میرا نکاح ہوا نہ ، ان کی کوئی جائیداد تھی نہ مملوکہ شئی ، بس ایک پانی کھینچنے والی اونٹنی اور ایک گھوڑا تھا ، میں آپ کے گھوڑے کو چراتی اور پانی پلاتی اور ڈول کی مرمت کرتی اور آٹا گوندتی تھیں لیکن مجھے روٹی بنانا اچھا نہیں آتا تھا، میرے پڑوسی انصاری عورتیں جو بہت نیک تھیں ؛ روٹیاں بناکر دیتی تھیں اور میں حضرت زبیر کی اس زمین سے گٹھلیاں سر پر اٹھا لاتی تھی ، جو قریب ایک فرسخ کی مسافت پرتھی ، یہ زمین آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بخشی تھی ۔
(صحیح البخاری ، کتاب النکاح، باب الغیرۃ، حدیث نمبر:5224)
مذکورہ حدیث شریف سے واضح ہے کہ صحابیات رضوان اللہ علیھن اجمعین عبادات وریاضات کے ساتھ شوہر کی خدمت اور ان کا کھانا بنانا، گھریلوکام انجام دینا ، آٹا گوندنا ؛ یہ سب کام کیا کرتیں ، نہ صرف کرتیں بلکہ اس کا اظہار بھی فرماتیں ؛ تاکہ آنے والی نسل کے لئے نمونہ واسوہ باقی رہے ، نبوی تعلیمات کا ذخیرہ امت مسلمہ کو مل جائے اور غیروں کی پیروی سے بچے رہیں ۔
صحابیات اپنے شوہر کے کام اتنے کرتیں کہ ہاتھوں پر کٹھے آتے :
شوہر کا گھر بیوی کا اپنا گھر ہے ، اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر کی اور مال وزر کی حفاظت کرنا بیوی کی اہم ترین ذمہ داریوں میں ہے ، شوہر کے گھر میں کام کرنا نقص وعیب کی بات سمجھنا قصور فہم کی بات ہے ، میاں بیوی جب نکاح کے بندھن میں باندھے جاتے ہیں تو ان کا مکان ، ان کا کھانا پینا ایک ہوجاتاہے جب تک کہ یہ دونوں ایک دوسرے کو غیر سمجھتے رہیں ان کے درمیان نباہ ممکن نہیں ۔
صحابیات جیسی جلیل القدر خواتین نے شوہر کی خدمت اور گھر کے کاموں کو شان وشوکت جانتیں ، اللہ تعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب خواتین کے پاس جب خدمت گزاری عیب نہیں تو آج چودہ صدیوں بعد اس عمل کو عیب کیوں سمجھا جارہا ہے ۔ کیا یہ دین سے دوری اور بے راہ روی نہیں ؟
وہ ذات بابرکت جن کا لقب ،، سیدۂ کائنات ،، شہزادیٔ کونین ہے ، شاہ ِدوجہاں کی شہزادی سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنھا اپنے شوہر سیدنا علی رضی اللہ علیہ کی خدمت گزاری بصدق ودل کیا کرتیں اور گھر کا کام ایسا کرتیں کہ ہاتھوں پر گھٹے آجاتے ، جیساکہ بخاری شریف میں حدیث پاک ہے : عَنِ ابْنِ أَبِى لَيْلَى حَدَّثَنَا عَلِىٌّ أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ أَتَتِ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم تَشْكُو إِلَيْهِ مَا تَلْقَى فِى يَدِهَا مِنَ الرَّحَى ، وَبَلَغَهَا أَنَّهُ جَاءَهُ رَقِيقٌ فَلَمْ تُصَادِفْهُ ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ ، فَلَمَّا جَاءَ أَخْبَرَتْهُ عَائِشَةُ - قَالَ - فَجَاءَنَا وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا ، فَذَهَبْنَا نَقُومُ فَقَالَ « عَلَى مَكَانِكُمَا » . فَجَاءَ فَقَعَدَ بَيْنِى وَبَيْنَهَا حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَيْهِ عَلَى بَطْنِى فَقَالَ « أَلاَ أَدُلُّكُمَا عَلَى خَيْرٍ مِمَّا سَأَلْتُمَا ، إِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا - أَوْ أَوَيْتُمَا إِلَى فِرَاشِكُمَا - فَسَبِّحَا ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ ، وَاحْمَدَا ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ ، وَكَبِّرَا أَرْبَعًا وَثَلاَثِينَ ، فَهْوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ » .
ترجمہ:حضرت ابن ابی لیلی سے روایت ہے ، سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں یہ عرض کرنے کی خاطر گئیں کہ چکّی پیسنے کی وجہ سے آپ کے ہاتھوں میں گٹھے آگئے ؛ کیونکہ آپ کو یہ معلوم ہوا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چند غلام آئے ہیں ، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل نہ سکیں ، اسی لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا ذکر کیا ، جب آپ تشریف لائے تو ہم بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ، ہم اٹھنے لگے تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :لیٹے رہو ، تشریف لا کر میرے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے درمیان بیٹھ گئے ، اس طرح تشریف رکھے کہ میں نے قدمین مبارک کی ٹھنڈک اپنے پیٹ میں محسوس کی ، فرمایا : آپ نےجو پوچھا کیا میں اس سے بہتر عمل کی رہنمائی نہ کروں ؟ جب آپ اپنے بستر پر آؤ تو 33بار سبحان اللہ ، 33بار الحمد للہ ، 34بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو!یہ ذکر آپ دونوں کے لئے خادم سے بہتر ہے ۔ (صحیح البخاری ، کتاب النفقات ، باب عمل المرأۃ فی بیتھا ، حدیث نمبر:5361)
ٹکنالوجی کے اس دور میں خواتین کے لئے گھر کے کام نہایت آسان ہوچکے ہیں ، اکثر وبیشتر پیسنے اور پکانے کی اشیاء مشینوں کے حوالے کی جاتی ہیں ، نہ ہاتھ کالے ہوتے ہیں نہ دھویں سے اذیت ہوتی ہے ۔
مقامِ غور ہے کہ صحابیات وخواتین اسلام پچھلے ادوار میں ان سب مشقتوں کے باوجود خدمت خاوند اور گھریلو کاموں سے نہیں کتراتی تھیں ، اور آج تمام تر سہولتوں کے باوجود شکایتوں کا بول باد ہے ، ان خواتین کی زندگی اس زمانہ کی عورتوں کے لئے مشعل راہ ہدایت ہے ۔