رنگ برنگی برقعے ، نئے دورکی پیداوار:
حجاب اور برقع اس لئے مقرر کیاگیاہے کہ مسلمان خواتین فتنہ وفساد کی لپیٹ میں نہ آسکیں ، وہ اپنی آبرو اور مرد اپنی نظروں کی حفاظت کرسکیں ، چنانچہ برقع جتنا سادہ اور معمولی کپڑے کا ہو اتنا زیادہ بہترہے ، کیونکہ زرق برق اور رنگینیاں مرد کی آنکھ ہی نہیں دل بھی موہ لیتی ہیں ، اسی لئے صحابیات کی پاکباز حیات میں انہوں نے کالے اور سیاہ رنگ والے برقعے پہنے ، وہاں رنگ برنگی ، خوب دلکش کشیدہ کاریوں والے برقعوں کا وجود بھی نہ تھا۔
چانچہ تفسیردرمنثور میں اسی آیت کے تحت منقول ہے : عن أم سلمة رضي الله عنها قالت : لما نزلت هذه الآية يدنين عليهن من جلابيبهن خرج نساء الأنصار كأن على رؤوسهن الغربان من أكسيه سود يلبسنها۔
ترجمہ:حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے ، فرمایا :جب یہ آیت کریمہ یدنین علیھن من جلابیبھن نازل ہوئی تو انصار صحابیات ضرورت پر اس طرح نکلتیں گویا کہ انکےسروں پر کوّے بیٹھے ہوں اور وہ کالے برقعے اوڑھی ہوتیں ۔ (الدر المنثور، الاحزاب :59)
اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا برقع سیاہ رنگ والا ہو، اسی میں صحابیات کی سنت پر عمل آوری ہوگی اور عورتیں باہر نکلیں تو بلاضرورت ادھر ادھر دیکھتی نہ رہیں بلکہ [سفر دروطن ، نظربرقدم ]کا مصداق بن کر چلیں ، بلاوجہ تفتیش کے لئے چار جانب دیکھنا حیاکے خلاف ہے ۔
چہرہ کا حجاب باندیاں نہیں کرتیں:
قدیم زمانے میں جبکہ مردو خواتین کو غلام اورباندی بنالیا جاتاتھا اور ان کا وجود بکثرت پایاجاتاتھا ، آزاد وغلام میں فرق ملحوظ رکھتے ہوئے اسلام نے ان کے حسب طاقت و استطاعت دونوں کے احکام جداگانہ بیان کئے ، چنانچہ پردہ کا حکم آیا تو آزادخواتین کو تمام جسم چھپائے رکھنے کا حکم دیا اور باندیوں کو چہرہ نہ چھپانے میں رخصت دی گئی تاکہ آزاد اور باندی پہچانی جائے ، اس کے علاوہ باندیاں چونکہ خدمت کے لئے ہوتی ہیں ، زیادہ پابندیاں انہیں اپنے مالک کی خدمت کے لئے خلل نہ بن سکے ، اس لئے بھی باندیوں کے احکام آزاد عورتوں سے کچھ مختلف ہیں ، انہیں احکام میں سے چہرہ کا حجاب ہے کہ باندی پچھلے دور میں بھی چہرہ پرپردہ نہیں ڈالتی تھی ، Nose Pieceلگانا اس کا شعار اورعلامت نہ تھی ، دور جاہلیت سے باندی کی یہ عادت رہی کہ وہ چہرہ نہیں چھپاتی ، جیسا کہ روایات میں آیا ہے :منافقین اور فاسق رات کے وقت جب اندھیرا ہوجاتا تو تنگ سڑکوں پر نکل آتے ، رات میں جب عورتیں ضرورت کے لئے جاتیں تو انہیں عورتوں کو چھیڑا کرتے جنکے چہرہ پر نقاب نہ ہوتا کہ یہ باندی کی علامت تھی اور جن عورتوں نے چہرہ پر نقاب ڈالارکھاہو یہ کہہ کر ان سے اجتناب کرتے کہ یہ آزاد عورتیں ہیں ، چنانچہ حضرت سعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :قالكان أناس من فساق أهل المدينة بالليل حين يختلط الظلام يأتون إلى طرق المدينة فيتعرضون للنساء وكانت مساكن أهل المدينة ضيقة فاذا كان الليل خرج النساء إلى الطرق فيقضين حاجتهن فكان أولئك الفساق يتبعون ذلك منهن فاذا رأوا امرأة عليها جلباب قالوا : هذه حرة فكفوا عنها واذا رأوا المرأة ليس عليها جلباب قالوا : هذه أمة فوثبوا عليها (الدرالمنثور، احزاب :59)
مذکورہ روایت کو سامنے رکھتے ہوئے غور کیا جائے کہ پچھلے زمانہ میں چہرہ نہ ڈھانکنے والیوں کا جو انجام سربازار ہوتاتھا آج بھی وہی دور جاری ہے ، چہرہ پر Nose Piece لگانے والیوں کی جو اکرام اور جو عزت ٓج کی جاتی ہے سابقہ زمانہ میں بھی یہی طریقہ جاری تھا، انہیں عزت دار سمجھ کر اوباش وشریر غنڈے بھی راہ نہیں نہیں روکتے تھے ، بتہ چلاکہ پردہ وہ دواہے جس کا اثر اشرار پر بھی ہوتاہے اور حجاب وہ پانی ہے جس کے سامنے شرم کے مارے غنڈے بھی پانی پانی ہوجاتے ہیں۔
چہرہ پر اوڑھنی باندھے کا طریقہ:
آیت کریمہ میں جلباب اوڑھنے کا حکم دیا گیاہے اس کا طریقہ کیا ہے ؟ یہ جاننے کے لئے جب ہم کوشش کرتے ہیں تو ہمارے سلف کی یہ تعلیم سامنے آتی ہے ، حضرت علامہ ابن سیرین رحمہ اللہ نے حضرت عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ سے بیان کیا کہ جلباب کیسے باندھتے ہیں ؟ آپ نے یہ عملی طور پر بتایا، پہلے تو آپ نے اپنا رومال سرپر رکھ کر اس کو تمام سرپر لپیٹ لیا ؛ اسطرح کہ سارے بال چھپ گئے ، اور وہ رومال آنکھوں کی بھنووں تک لپیٹا ، پھر رومال کے دوسرا حصہ سے منہ ڈھانک لیا ، پھر بائیں آنکھ پر سے تھوڑا سارومال ہٹادیا ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا عورت سرپر سے جواوڑھنی اوڑھے اس سے اپنا چہرہ اور سینہ بھی چھپائے ۔ (تفسیر روح المعانی ، الاحزاب :59)
صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ عنھم اجمعین کے بتائے ہوئے طریقہ سے ظاہر ہے کہ وہ اوڑھنی جو سرپر ڈالی جاتی ہے وہ زیادہ کشادہ اور بڑی ہونی چاہئے ؛تاکہ اس سے سرکے تمام بال کپڑے کے ماتحت آجائیں اور چہرہ بھی ڈھکا رہے اور سینہ بھی چھپارہے ۔ اوڑھنی اتنی چھوٹی اورتنگ نہ ہو کہ سر کے چھوٹے ہوئے بالوں کو بھی وہ گھیرنہ سکے ، اور چہرہ کا کچھ حصہ بھی کھلا رہے ، اس بے حیائی کے زمانہ میں چھوٹی ، تنگ دامن اوڑھنیوں کا چلن اپنے عروج پر ہے جو سراسر اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔
کچھ مانگنابھی ہے تو پردے کے پیچھے سے :
سورۂ احزاب کی آیت نمبر:53میں مؤمنین کو یہ حکم ملاکہ امہات المؤمنین سے تمہیں کچھ لینا ہے یا شرعی مسائل جاننا بھی ہے تو حجاب کے پیچھے سے پوچھو، حصول علم بھی مقصد ہوتو صحابہ کرام کو امہات المؤمنین سے پردے کے پیچھے رہ کر بات کرنے کی اجازت دی گئی جبکہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات تمام مؤمنین کی مائیں ہیں ، یہاں کسی فتنہ کا وہم وگمان بھی نہیں ہوسکتا، جب حفظ وامان کے قلعوں اورپاکدامنی وعفت کے پیکر امہات المؤمنین وصحابہ کرام کویہ حکم ملا ، تو سراپا فتنوں کے اس زمانہ میں پردہ کی کتنی سخت ضرورت ہے ، آج پردہ کی جتنی اشد ضرورت ہے اس سے زیادہ بے پردگی عام کی جارہی ہے ، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: وإذا سألتموهن متاعا فاسألوهن من وراء حجاب۔ترجمہ:یعنی جب تم امہات المؤمنین سے کچھ پوچھو تو پردے کے پیچھے سے پوچھو۔(الاحزاب:53)
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں امام ابواللیث سمرقندی رحمہ اللہ اپنی تفسیر بحرالعلوم میں فرماتے ہیں :ولا تدخلوا علیھن واسالوا ھن خلف الستر ویقال خارج الباب۔ترجمہ:ان کےپاس اندر نہ جاؤ، پردے کے پیچھے سےاور دروازہ کے باہر سے جوپوچھنا ہو پوچھ لو۔(بحرالعلوم، الاحزاب:53)
لفظِ من وراء حجاب نے واضح کردیا کہ عورت کا چہرہ بھی پردہ ہے ، جس طرح سارے بدن کا پردہ عورت پر ضروری ہے ، چہرہ کاحجاب بھی اسی قبیل سے ہے ، ازروئے فیشن چہرہ کھلارکھنا فتنہ وفساد کو دعوت دینے اور بے حیائی عام کرنے میں مددگار بنتاہے ۔
صحابہ کرام کا بھی یہی منشا اور مسلک رہاہے کہ خصوصا امہات المؤمنین اور عموما تمام مسلم خواتین سے کوئی اجنبی وغیرمحرم مرد بے حجاب نہ ملے ، چنانچہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اکثر یہ بات ناگوار گزرتی تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درِدولت میں مسلمان امہات المؤمنین کی موجودگی میں بھی آیاجایا کرتے تھے ، یہ دیکھ کر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا !یارسول اللہ یدخل علیک البر والفاجر فلو امرت امھات المؤمنین بالحجاب فانزل اللہ ایۃ الحجاب۔ ترجمہ:یارسول اللہ آپ کی خدمت میں اچھے اور برے آتے رہتے ہیں ، میری گزارش ہے کہ امہات المؤمنین کوآپ پردہ اختیار کرنے کا حکم فرمائیں۔(صحیح البخاری ، حدیث نمبر:4483)
لفظ حجاب اپنے عموم کے لحاظ سے تمام بدن پرشامل ہے اور اس میں چہرہ بھی داخل ہے ، اسی لئے اللہ تعالی نے من وراء حجاب (پردہ کے پیچھے سے)کا حکم فرمایا۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ عورت کا چہرہ ستر میں داخل ہے ، دیگر اعضاء بدن کی طرح چہرہ کا پردہ بھی ضروری ہے ، چہرہ کھلا رہنے کی وجہہ سے کئی مفاسد پیدا ہوتے ہیں ، ہرمسلمان مردوعورت پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا وخوشنودی کے لئے زندگی گزارا کریں ۔ اللہ تعالی ہم سب کو توفیق عطافرمائے، آمین۔