شب بیداری ، رات کا وقت عبادت وریاضت ، قیام وقعود میں گزارنا مردو حضرات کا ہی شیوہ اور انہیں کا شعار نہیں رہا ہے بلکہ اس میدان کارزار کے مردان شہسوار خواتین اسلام اور مسلمان عورتیں بھی گزری ہیں ، انہوں نے راتیں بیداری میں بحالت ذکروشغل مکمل کیں اور تیرگئ شب کو عبادت کی روشنی سے منور کردیا ، آنکھوں میں بیداری کی سلائی سے مراقبہ ومشاہدہ کا سرمہ لگالیاتھا ، یہ سب آثار ان کی للہیت واخلاص کا پتہ دیتے ہیں اور ان کے قلوب خوفِ الہی وخشیتِ خداوندی سے لبریز ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
موت کی کثرت سے یاد:
ایسی ہی شب بیدار خواتین میں حضرت معاذۃ عدویہ رضی اللہ عنہا کاتذکرہ اس طرح کیا گیاہے کہ آپ نے رات ، دن دونوں عبادت کیلئے وقف فرمایا تھا اور ہر لمحہ موت کا وہ خوفناک منظر آپ کے پیش نظر رہتا جسکا احادیث شریفہ میں ذکر آیا ہے ، اسی لئے جب دن کی روشنی پھیلنے لگتی تو فرماتیں آج دن کے کسی بھی وقت میری موت آئیگی اور بیدار رہتیں ، پھر جب رات آتی تو فرماتیں:آج کی رات میری موت کی رات ہے اور ساری رات عبادت میں مصروف رہتیں ، جب نیند غالب آتی تو گھر ہی میں چلنے پھرنے لگتیں اور نفس کو مخاطب کرکے فرماتیں :اے نفس تیار ہوجا !تیری موت آئے گی ، بیدار رہنا کہیں غفلت میں تیری موت نہ آجائے ۔
اس طرح آپ رات دن میں چھ سو (600)رکعتیں ادا فرماتیں ، اورحیا کا عالم یہ تھا کہ چالیس سال تک آسمان کی طرف نگاہ اٹھاکر نہ دیکھی اور جب آپ کے شوہر محترم کا وصال ہوا تو اس کے بعد سے کبھی بستر پر نہیں لیٹیں ۔ ام لمؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا زمانہ پائی اور آپ کی صحبت سے اخذ فیض کیا جیساکہ امام شعرانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے :کانت اذا جاء النھارقالت ھذا یوم الذی اموت فیہ ؛ فما تنام حتی تمسی ، واذا جاء اللیل قالت ھذہ اللیلۃ اللتی اموت فیھا ؛ فلاتنام حتی تصبح ، وکانت اذا غلبھا النوم قامت فجالت فی الدار وھی تقول یانفس النوم امامک ثم لاتزل تدور فی الدار الی الصباح تخاف الموت علی غفلۃ ونوم ، وکانت تصلی فی الیوم واللیلۃ ستمأۃ رکعۃ ولم ترفع بصرھا الی السماء اربعین عاما ولما مات زوجھا لم تتوسد فراشا حتی ماتت ، ادرکت معاذۃ رضی اللہ عنھا عائشۃ رضی اللہ عنھا وروت عنھا (طبقات الشافعیۃ الکبری ، ج1 ، ص56)
حضرت رابعہ بصری رحمھا اللہ کا زھد:
حضرت رابعہ بصری رحمھااللہ وہ خدا رسیدہ بزرگ خاتون ہیں جن کی ولایت ومقامات عالیہ پر امام حسن بصری رحمہ اللہ جیسی شخصیت ناز کرتی ہے ، آپ کی پاکباز زندگی کا مختصر ذکر کتب میں اس طرح آیا ہے کہ آپ خوف الہی میں اکثر رویا کرتی ، آپ کے پاس جب جہنم کا ذکر کیا جاتا تو حال یہ ہوتا کہ غلبۂ خوف کے سبب بے ہوش ہوجاتیں ، دنیا سے بے رغبتی کا حال یہ تھا کہ لوگ جب آپ کی خدمت میں ھدیہ پیش کرتے تو قبول نہ فرماتیں اور یہ کہتیں کہ مجھے دنیا کی حاجت نہیں ، انتہائی زہد ، کثرت آہ وزاری ، بے حد عبادت وریاضات کے باوجود یہ فرماتی تھیں کہ ہم استغفار بھی صحیح نہیں کرسکتے ، ہمارا استغفار کرنا بھی ایسا ہے کہ اِس پر استغفار کی ضرورت ہے ، شب بیداری اس شان کی تھی کہ زیادہ رونے کی وجہ سے وہ مقام جہاں آپ سجدے کیا کرتیں تھیں آپ کے آنسو سے تر ہوجاتا گویاکہ وہاں پانی بہادیاگیا ہو۔
آپ ہمیشہ اپنا کفن ساتھ رکھا کرتی تھیں ، جو سجدہ کی جگہ رکھا ہوا ہوتا ، چنانچہ منقول ہے :کانت رضی اللہ عنھا کثیرۃ البکاء والحزن وکانت اذا سمعت ذکر النار غشی علیھا زمانا وکانت تقول استغفارنا یحتاج الی استغفار وکانت ترد ما اعطاہ الناس لھا وتقول مالی حاجۃ بالدنیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وکان کفنھا لم یزل موضوعاامامھا وکان بموضع سجودھا کھیئۃ الماء المستنقع من دموعھا۔(طبقات 1لشافعیۃ الکبری ، ج1 ، ص56)
تقوی وورع کی بہترین مثال :
اہل اسلام کو ہرگز یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی کا مال بلااجازت حاصل کرلے یا کوئی اس کی استعمال کرے ، بلااجازت سرِعام یا پوشیدہ طور پر کوئٰ چیز لینا اسلام میں حرام وناجائز ہے ، اس عمل کو اگرچہ ہرسمجھدار انسان برا عمل جانتا ہے ، اس کے باوجود عموماً گھر میں بھائی ، بہن وغیرہ ایکدوسرے کی اشیاء بلااجازت استعمال کیا کرتے ہیں ، اسی طرح دوست آپس میں ایکدوسرے کے سامان ضرورت بلاجھجک لیتے ہیں ، کبھی اس بات پر غور نہیں کیا جاتاہے کہ میرے استعمال سے کہیں میرا بھائی یا دوست کہیں ناراض تو نہیں ؟ اگر واقعۃً وہ ناراض ہوتو پھر استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا ۔ ویسے عموماً ایک مکان میں رہنے والے اور دوست واحباب مالک کی بلااجازت کسی شئ کے استعمال کرنے کو برا اور معیوب نہیں سمجھتے لیکن بہر صورت [احتیاط علاج سے بہتر ہے ]کے پیش نظر بلااجازت کسی شئ کا استعمال نہ کرنا ہی بہتر واولی ہے ، کیونکہ اس کا منفی وبر ااثر نہ صرف نامۂ اعمال پر پڑتاہے بلکہ عبادات واذکار میں قلبی سکون اور توجہ غائب ہوتی ہے اور مشاہدہ ومراقبہ کے منازل میں لطف ولذت حقیقی الوداع کہدیتی ہے اور یہ احساس خدارسیدہ بزرگ حضرات کو ہی ہوتاہے ، بعض نیک بخت حضرات سے خلاف اولی کام جب صادر ہوا تو حق تعالی نے انہیں اس پر اطلاع بخشی اور فورا ان حضرات نے اللہ تعالی کی طرف رجوع کیا ، چنانچہ سیدتنا رابعہ بصری رحمھا اللہ کے متعلق آپ کی سیرت میں ہمارے قلوب کی حالت بدلنے والا اک واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ بادشاہ وقت کی سواری جارہی تھی ، اس کے ساتھ شمع دان لے کر گزرنے والے گزررہے تھے ، اس کی روشنی میں آپ نے اپنی قمیص کے پھٹے ہوئےحصہ کی سلائی کی اور وہ قمیص زیب تن فرمائیں ، اس کا اثر یہ ہواکہ کئی دنوں تک آپ کا قلب جزباتِ الٰہیہ ونَفَس رحمانیہ کی نعمتوں سے دور رہا ، پھر آپ کو یاد آیا تو آپ نے وہ قمیص پھاڑہی ڈالی جیساکہ رسالۂ قشیریہ میں ہے : خاطت رابعة العدوية شقاً في قميصها في ضوء مشعلة سلطان، ففقدت قلبها زماناً، حتى تذكرت، فشقت قميصها، فوجدت قلبها.(الرسالۃ القشیریۃ، ج1، ص54،باب الورع)
روشنی کوئی جسم رکھنے والا مادہ نہیں ہے ، محض ایک عرض ہے جو کبھی رہتی ہے اور کبھی غائب ہوتی ہے ، اور اپنا کوئی اثر بھی نہیں چھوڑتی اور نہ ہی اس کو قبضہ میں لے کر گھٹایا ، یا بڑھایا جاسکتاہے اور نہ اس کو استعمال کرنے سے اس میں کوئی کمی وبیشی ہوتی ہے ، مختصر سے وقت میں جب اس کا بلااجازت استعمال کرنا یہ اثر رکھتاہے تو غور کرناچاہئے بلااجازت اور مالک کی مرضی کے خلاف اس کی مملوکہ اشیاء کااستعمال کرنا کتنا خطر ناک اور ہلاکت خیز ہوگا۔ اللہ تعالی سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائے ، آمین!