Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Anjuman-e-Qawateen

زوجین کے درمیان خوشگوارتعلقات کے سنہری اصول


اسلام نے شوہر کو ہدایت دی کہ بیوی کے حقوق لباس و رہائش، نان نفقہ مکمل طور پر ادا کرے اور خوش اخلاقی و حسن معاشرت کے ساتھ رہے، ارشاد الہی ہے اور تم ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔(سورۃ النساء۔19) نیز ارشاد نبوی ہے: شوہر اپنی بیوی پر جو خرچ کرتا ہے وہ باعث اجروثواب ہے یہاں تک کہ بیوی کے منہ میں ایک لقمہ ڈالتاہے وہ بھی نیکی ہے ۔
 
میاں بیوی کے تعلق کے بارے میں قرآن نے فرمایا:وہ تمہارالباس ہیں اورتم ان کا لباس ہو۔ (البقرۃ۔187)
لباس جسم کی زینت ،سردی وگرمی سے حفاظت اورسترپوشی کا ذریعہ ہے اسی طرح میاں بیوی کا رشتہ ایک دوسرے کی زینت‘ حفاظت اورسترپوشی کاذریعہ ہے ،لباس بدن کے عیوب کو دیکھتاہے لیکن دوسرے پرظاہرہونے نہیں دیتااسی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کے عیوب کوظاہرنہ کریں توزندگی خوشگواررہتی ہے ،رشتہ نکاح ایک پائیداررشتہ ہے ،شریعت اس بات کو پسند نہیں کرتی کہ اُسے ختم کیا جائے بلکہ باہم محبت والفت، صبروتحمل سے کام لینے کا حکم دیتی ہے۔

 
دین اسلام میں زوجین کے باہمی معاملات سے متعلق جو احکام بتلائے گئے ہیں اور جو ہدایات دی گئی ہیں اس کی غرض یہی ہے کہ تعلقِ زوجیت مستحکم و پائیدار رہے، اس رشتۂ محبت میں مزید پختگی آئے اور ناموافق حالات پیدا نہ ہوں۔ 

مرد وعورت کے درمیان ہونے والے اختلافات کی وجہ اور اسکے تدارک کا طریقہ 

مرد وعورت ہرایک اپنی اپنی ذمہ داری بحسن وخوبی ادا کرلیں تو ہر ایک کو حقوق برابر حاصل ہوں گے‘ نتیجتاًحالات راحت بخش اورسازگار رہیں گے‘ اگر حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوتی رہے اور ایک دوسرے کے حقوق پامال کئے جائیں تو آپسی تلخیاں پیدا ہوتی ہیں اور فاصلے بڑھنے لگتے ہیں اس وجہ سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرایک کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: تم میں سے ہر ایک اپنے ماتحت کا نگہبان او ر ذمہ دار ہے اس سے اپنے ماتحت کے بارے میں سوال کیاجائیگا؛مردنگہبان ہے اپنے گھر والوں کا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگہبان ہے تو تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےمردوعورت کے حقوق بتلاتے ہوئے فرمایا:بیوی کا حق شوہر پر یہ ہے کہ جب تم کھاتے ہو اسے کھلاؤ،جب تم پہنتے ہواُسے پہناؤ ،اُس کے چہرہ پر مت مارو،اس کے چہرہ کے بارے میں بُری بات نہ کہو اور اُن سے گھرہی میں علٰحدگی اختیارکرو۔مزید فرمایاکہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ بہترہو ۔اسی طرح بیوی کو حکم دیا ہے کہ خاوند کی اطاعت کرے، اس کی خوشی کو اپنی خوشی اور اس کے غم کو اپنا غم سمجھے، چنانچہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عورت جب فرض نمازیں  اداکرے ‘ ماہ رمضان  کے روزے رکھے‘ عزت وآبرو کی حفاظت کرے اور شوہر کی اطاعت کرے تو اُسے اختیار ہے جنت کے جس دروازہ سے چاہے داخل ہوجائے ۔
اسلام نے ناموافق حالات میں افہام و تفہیم اور باہمی مفاہمت و مصالحت سے کام لینے کی ہدایت دی اور اس کے طریقے بتلائے کہ اگر بیوی‘ شوہر کی نافرمانی کرتی ہے تو شوہر طلاق کا اقدام نہ کرے بلکہ بیوی کووعظ و نصیحت کرے ‘افہام وتفہیم سے کام لے، اگر وہ نافرمانی سے باز نہ آئے اورسمجھوتہ کارگرثابت نہ ہوتو بستر علیحدہ کرے یہ طریقہ بھی سودمند نہ ہوتو پھر ہلکی سی تنبیہ کرے ،اگروہ اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہوئے اپنی غلطی پر نادم وشرمندہ ہوجائیں تو اُس پر کوئی اور راہ تلاش  نہ کرے ۔ اُس کی غلطیوں کو نہ دہرائے کہ تم نے اس طرح کہاتھا‘اس طرح نافرمانی کی تھی ۔اس کے باوجود دونوں کے درمیان کوئی مصالحت نہ ہو اور جھگڑے وفساد کا اندیشہ ہوتو مرد کے خاندان سے ایک نمائندہ آئے جومنصف مزاج ہو اور عورت کے خاندان سے ایک نمائندہ آئےجو معاملہ کو سدھارنے والاہو بناؤ؛جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے: اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو‘ انہیں پہلے نرمی سے سمجھاؤ پھر خواب گاہوں سے علیحدہ کردو اور پھر بھی باز نہ آئیں تو انہیں تنبیہ کرو پھر اگر وہ اطاعت کرنے لگیں تو ان پر ظلم کرنے کیلئے راہ مت تلاش کرو۔ نیز فرمایاکہ اگر تمہیں دونوں کے درمیان جھگڑے کااندیشہ ہو تو مرد کے خاندان سے ایک نمائندہ اور عورت کے خاندان سے ایک نمائندہ بھیجو اگر یہ دونوں اصلاح چاہیں تو اللہ تعالی دونوں کے درمیان موافقت پیدا کردیگا۔ (النساء۔ 34‘35﴾
اور  یہ کہ عورت کو طلاق کااختیار اسلئے نہیں دیا گیا کہ عورت جذبات سے مغلوب ہوجاتی ہے،کہیں جذبات کے عالم میں غلط فیصلہ نہ کربیٹھے ،دوسری وجہ یہ ہیکہ نکاح کی صورت میں تمام معاشی وانتظامی ذمہ داریاں،نان نفقہ ،لباس وپوشاک وغیرہ مرد ہی کےسپرد ہوتےہیں ، اسی لئے طلاق کاحق بھی اسی کو دیاگیا،یہ بات عقل کے مناسب اور فہم کے قریب بھی ہے کہ جس کو ذمہ داری دی جائے اختیار بھی اسی کو دیا جانا چاہئے۔