Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Anjuman-e-Qawateen

اسلام میں پردہ


       پردہ ایک امر فطری اور حیاء کا تقاضہ ہے۔ نوع انسانی Ú©ÛŒ ابتداء سے آج تک ہر دور میں انسان خواہ مرد ہو یا عورت اپنے بعض اعضاء Ú©Ùˆ ڈھانکنا بہر حال ضروری سمجھتا رہا ہے اوران Ú©Ùˆ ظاہر کرنا ناپسندیدہ جانتا ہے ہے۔ زمانہ قدیم Ú©ÛŒ جنگلی اور وحشی قوموں Ù†Û’ بھی پتوں سے اپنے جسم Ú©Ùˆ چھپایا ہے۔ بالخصوص عورت Ú©Û’ لئے اس Ú©ÛŒ مختلف تخلیقی نزاکتوں اور جداگانہ ذمہ داریوں Ú©Û’ پیش نظر پردہ Ú©ÛŒ زیادہ ضرورت محسوس Ú©ÛŒ گئی ہے ان تمام نظام ہائے حیات میں جو اخلاقی اقدار پر مبنی تھے پردے Ú©Û’ تعلق سے ضروری ہدایات پائی جاتی ہیں۔ البتہ جس نظامِ زندگی میں اخلاقی قدروں Ú©Ùˆ نظر انداز کردیا گیا ہے پردہ Ú©Ùˆ بھی غیر ضروری قرار دیا گیا اور بے حیائی Ùˆ بدکاری Ú©Ùˆ فروغ دیا گیا۔

چنانچہ موجودہ مغربی تہذیب Ùˆ معاشرت میں جس Ú©ÛŒ بنیاد جنسی انار Ú©ÛŒ اور شہوانی جذبات Ú©ÛŒ تکمیل ہےٗ مرد Ùˆ عورت Ú©Û’ آزادانہ میل جول Ú©Ùˆ جائز رکھا گیا اور عورت Ú©Ùˆ اس Ú©ÛŒ فطری صلاحیتیں پیش نظر رکھے بغیر اپنے سفلی جذبات Ú©ÛŒ تکمیل Ú©Û’ لئے ملوں اور دفتروں وغیرہ میں مزدور Ùˆ کلرک بنایا گیا۔ آزادی Ú©Û’ نام سے اس Ú©Ùˆ بے پردہ کیا گیا۔ تعلیم اور دنیوی ترقی Ú©ÛŒ خاطر سب Ú©Ú†Ú¾ روا رکھا گیا۔ اور منڈی Ùˆ بازار میں برہنہ یانیم برہنہ کرکے Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیا گیا۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ پردہ عورت Ú©Û’ لئے قید ہےٗ سوشیل ربط Ùˆ ضبطٗ معاشرتی میل جول اور پر کیف زندگی Ú©Û’ لئے پردہ بڑی رکاوٹ ہے۔ آج تو دنیا Ú©ÛŒ اکثر قوموں Ù†Û’ مغربی طرزِ معاشرت Ú©Ùˆ اپنالیا اور خود مسلمانوں Ù†Û’ بھی دانستہ یا نادانستہ طورپر اس Ú©Ùˆ اختیار کرلیا ہے۔ یہی نہیں اب تو دیندار گھرانوں سے بھی پردہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فواحش Ú©ÛŒ کثرت ہوگئیٗ معیارِ اخلاق گر گیا اور عورت ایک تفریحی چیز بن کر رہ گئی کہ وہ کلب اور پارکوں میںٗ رقص Ùˆ سرور Ú©Û’ محفلوں میں اور تھیڑوں میں عریاں Ùˆ نیم عریاں ہوکر اپنے اور مرد Ú©Û’ جنسی جذبات Ú©ÛŒ تکمیل کا سامان کرتی ہے۔ ماسوا اس Ú©Û’ آج کا نوجوان اپنے اور اپنی رفیقہ حیات Ú©Û’ حسن Ùˆ جمال کا مظاہرہ چاہتا ہے۔ غرض کہ اب عصمت Ùˆ عفت ایک بے معنٰی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ چنانچہ ناجائز اولاد Ú©ÛŒ کثرت ہونے Ù„Ú¯ÛŒ ہے۔ مذہب پرستوں Ú©ÛŒ جانب سے بدنامی سے بچنے Ú©Û’ لئے ان Ú©Ùˆ ندیٗ نالوں اور کچرے Ú©ÛŒ کنڈیوں میں پھینکا جانے لگا۔ جنسی خواہش Ú©Û’ مقابلے میں انسانی جانیں بے قدر Ùˆ قیمت ہوگئی ہے اور جب حکومتوں Ù†Û’ اس بے حیائی Ú©ÛŒ سرپرستی شروع Ú©ÛŒ تو دوائیں اور انجکشن تیار کئے گئے اور اب ’’لوپ‘‘ Ú©Ùˆ رواج دیا جا رہا ہے اور یہ سب Ú©Ú†Ú¾ خاندانی منصوبہ بندی Ú©Û’ حسین عنوان سے کیا جا رہا ہے اور محض عیش کوشی اور لذتیت کا شاخباز ہے۔

مسلمانوں میں بے پردگی پھیلنے کے منجملہ اسباب کے ایک سبب ہمارے دیندار طبقہ کا مقتضیاتِ زمانہ سے بے خبری اور مذہبی تنگ نظری بھی ہے۔مثلاً عورت کو تعلیم سے دور رکھا گیا۔ ملکی حالات سے اس کو بے خبر کردیا گیا۔ گھر سے باہر نکلنا اس کے لئے ممنوع سمجھا گیا۔ اپنے شوہر کا نام بتانا یا لینا اس کے لئے معیوب سمجھا گیا۔ کل جس تفریط سے کام لیا گیا آج اس کا ردِ عمل افراط کی شکل میں ظاہر ہورہا ہے۔ موجودہ بے پردگی قرآن حکیم کے خلاف ہے تو مروجہ پردے کی موجودہ شکل بھی محل نظر قرار پاتی ہے۔

اسلام نے بتایا ہے کہ سارے انسان مرد و عورت در حقیقت اللہ کے بندے ہیں وہ ایک ہی آدم و حوا کی اولاد ہیں۔ آپس میں وہ کسی کے غلام نہیں۔سماج میں دونوں مساوی ہیں البتہ ان میں تخلیقی قوتوں کا فرق ضرور ہے اسی بناء پر دونوں کا دائرہ عمل جداگانہ ہے۔ سماجی نظام کی تشکیل میں دونوں برابر کے شریک ہیں مرد تدبیر مملکت کے لئے ہے تو عورت تدبیر منزل کے لئے ہے۔

قرآن نے یہ بتایا ہے کہ کسی بھی عورت کا اصلی مقام اس کا گھر ہے :وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی۔اپنے گھروں میں رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے کو دکھاتی نہ پھرو۔ اس سے ظاہر ہے کہ نمائش کے لئے بن سنور کر نکلنا اور ایک شریف زادی کے لئے جاہلیت کی روش اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ کسی کام کی تکمیل کے لئے جسم کے مختلف اعضاء ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور ان کا دائرہ عمل جداگانہ ہوتاہے۔ لیکن سارے اعضاء ایک جگہ جمع ہوجائیں یا ایک قسم کا کام کرنے لگیں تو اس کا نتیجہ فساد عمل کی شکل میں ظاہر ہوگاٗ اسی طرح مرد و عورت اپنے اپنے مقام پر اپنا اپنا کام انجام دیں تب ہی بہتر سماج اور صالح معاشرہ کی تشکیل ہوسکے گی البتہ کسی ضرورت کے لئے پردہ میں عورت کا گھر سے باہر نکلنا ناجائز نہیں ہے لیکن وہ اپنی نظریں نیچی رکھے عصمت و عفت کی حفاظت کرے اور اپنی زینت کے مقامات کو ظاہر نہ کرے۔

عصمت و عفت عورت کا جوہر ہےٗ جس عورت کا یہ جوہر داغدار ہوجائے وہ اخلاق کی بلندی سے گرجاتی ہے۔ اسی لئے پردے کا حکم دیا گیا کیونکہ حسن و جمال کی نمائش نگاہوں کے تصادم اور نفسانی خواہشات کو ابھارنے کا سبب ہے۔ چنانچہ اسلام نے عورت کے لئے اصولی طورپر گھر میں رہنے اور ضرورت پر باہر نکلنے کی دونوں صورتوں میں پردے کے منصفانہ حدود مقرر کردئیے ہیں۔ عورت کو جب باہر نکلنا پڑے یا اجنبیوں سے سابقہ پڑنے کا اندیشہ ہوتو حکم دیا گیا کہ :یا ایھا النبی قل لازواجک و بناتک ونساء المومنین یدنین علیھن من جلابیبھن ذالک ادنی ان یعرفن فلا یؤذین۔ (الاحزاب) اے پیغمبر اپنی بیویوںٗ بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر ایک بڑی چادر اوڑھ لیں اس سے توقع ہے کہ ان کا شریف زادی ہونا واضح ہوجائے پس وہ ستائی نہ جائیں گی۔

گھر Ú©Û’ اندر رشتہ داروںٗ عزیزوںٗ ملازمین Ùˆ احباب Ú©Û’ آنے جانے اور انفرادی Ùˆ اجتماعی طورپر کھانے پینے سے منع نہیں کیا گیا۔ البتہ اخلاقی نقطہ نگاہ اس بات Ú©ÛŒ متقاضی ہے کہ بے راہ روی Ú©Ùˆ راہ نہ دینے Ú©Û’ لئے چند پابندیاں لگائی جائیں تاکہ اعتدال قائم رہے۔ چنانچہ سورۂ نور میں Ø­Ú©Ù… دیا گیا ہے کہ: ’’اے ایمان والو! جو گھر تمہارے نہ ہوں ان میں داخل نہ ہونا یہاں تک تم اجازت لو اور ان Ú©Ùˆ سلام کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے امید کہ تم یاد رکھو Ú¯Û’Û” اگر تم اس میں کسی Ú©Ùˆ نہ پاؤ تو اجازت ملنے تک اس میں نہ جاؤ۔اور اگر تم سے پلٹنے کہا جائے تو واپس ہوجاؤٗ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور تم جو Ú©Ú†Ú¾ کرتے ہو اللہ اس سے واقف ہے۔ تم پر کوئی حرج نہیں ان گھروں میں جانے سے جس میں (عورتیں) نہ رہتی ہوں اور اس میں تمہارا سامان ہو اللہ واقف ہے اس سے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو۔ مسلمان مردوں سے کہہ دو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرمگاہوں Ú©ÛŒ حفاظت کریں یہ پاکیزہ طریقہ ہے ان Ú©Û’ لئے اور جو Ú©Ú†Ú¾ وہ کرتے ہیں اللہ باخبر ہے Û” اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرمگاہوں Ú©ÛŒ حفاظت کریں اور اپنی زینت Ú©ÛŒ کوئی جگہ بجر تاگذیر صورت Ú©Û’ ظاہر نہ کریں اور ان Ú©Ùˆ چاہئے کہ اپنے گریبانوں پراوڑھنیاں ڈالیں اور اپنی زینت Ú©Ùˆ ظاہر نہ کریں بجز اپنے شوہرٗ اپنے باپٗ اپنے شوہر Ú©Û’ باپ یا اپنے بیٹے یا اپنے شوہر Ú©Û’ بیٹے یا اپنے بھائی یا بھائی Ú©Û’ بیٹے یا اپنی بہن Ú©Û’ بیٹے یا دینی عورتیں یا اپنے ملازم مرد جن Ú©Ùˆ عورت Ú©ÛŒ حاجت نہ ہو یا وہ بچے جو عورتوں Ú©ÛŒ پوشیدہ چیزوں سے واقف نہ ہو۔ اور وہ (عورتیں) اپنے پیروں Ú©Ùˆ نہ پپٹخیں کہ ان Ú©ÛŒ پوشیدہ زینت ظاہر ہوجائے۔ اے مسلمانوں سب Ú©Û’ سب اللہ Ú©ÛŒ جناب میں توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ ‘‘Û”

’’لیس علی الاعمیٰ حرج وعلی الاعراج حرج ولا علی المریض حرج ولا علی انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم۔الخ‘‘اندھے اور لنگڑے اور نہ مریض پر کوئی حرج اور نہ تم پر کہ تم کھاؤ اپنے گھروں میں یا اپنے ماں باپ یا بھائی اور بہنوں Ú©Û’ گھروں میں یا اپنے چچا یا پھوپھیوں Ú©Û’ گھروں میں یا ان Ú©Û’ گھروں میں جن Ú©ÛŒ کنجیوں Ú©Û’ تم مالک ہو یا اپنے دوست Ú©Û’ گھر میں۔ مل کر کھاؤ یا علیحدہ کھاؤ کوئی حرج نہیں۔ اور جب تم گھروں میں داخل ہو تو سلام کرو اپنے نفسوں پر اللہ Ú©ÛŒ طرف سے برکت والی اور پاکیزہ دعا Ú©Û’ طورپر۔ اللہ اس طرح اپنے احکام بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھو!‘‘

ان آیات سے ظاہر ہے کہ اسلام معاشرتی زندگی کی باہمی دلچسپیوں اور تقاضوں کو ختم کرنا نہیں چاہتا۔ البتہ یہ ہے کہ بغیر اجازت گھر میں نہ جائے۔ مرد اور عورتیں نگاہیں نیچی رکھیں اور شرمگاہ کے بارے میں پوری پوری احتیاط رکھیں اور عورتیں ہر وقت اوڑھنیوں سے سینے کو چھپائے رکھیں۔ چلنے پھرنے میں زور سے پیر نہ پٹخیں کہ پازیب وغیرہ کی جھنکار سنائی دے۔

بوڑھی عورتوں کے تعلق سے جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں گھر میں تھوڑے کپڑوں میں رہیں تو بھی حرج نہیں بشرطیکہ بناؤ سنگھار نہ ہو۔ اور اگرپورا پردہ کریں تویہ بہترہے۔

نابالغ بچے یا غلاموں Ú©Û’ بارے میں کہا گیا ہے کہ : ’’اے ایمان والو تم سے اجازت لیں وہ جو تمہارے غلام ہیں اور وہ جو بلوغ Ú©Ùˆ نہیں پہنچے تین اوقات میں۔نمازِ فجر سے پہلے اور دوپہر میں جب کہ تم Ú©Ù¾Ú‘Û’ اتارتے ہو اور عشاء Ú©Û’ بعد یہ تین اوقات تمہارے پردہ Ú©Û’ ہیں۔ اور ان اوقات Ú©Û’ بعد تم پر اور ان پر کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ تم میں آنے جانے والے ہیں۔ اللہ اپنے احکام تمہارے لئے اسی طرح بیان کرتا ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ اور بچے جب بالغ ہوجائیں تو ان Ú©Ùˆ اجازت لینا چاہئے جس طریقے پر کہ ان سے پہلے والوں Ù†Û’ اجازت Ù„ÛŒ ہے۔ اللہ اپنے احکام ایسا ہی تمہارے لئے بیان کرتا ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے‘‘Û”

سورۂ نور Ú©ÛŒ مذکورہ آیات گھر Ú©Û’ اندر پردے Ú©Û’ بارے میں ہیں اور سورۂ احزاب Ú©ÛŒ آیتیں باہر نکلنے سے متعلق ہیں۔ احادیث نبویہ سے مزید یہ معلوم ہوتاہے کہ بعض خاص صورتوں میں رعایتیں دی گئی ہیں مثلاً نکاح Ú©ÛŒ غرض مردٗ عورت ایک نظر آپس میں دیکھ سکتے ہیں۔ جج مطلوبہ شناخت Ú©Û’ لئے اور طبیب تشخیص امراض Ú©Û’ لئے نیز حالت جنگ اور حالت سفر وغیرہ میں بھی رعایت رکھی گئی ہے جن Ú©ÛŒ تفسیر کتب فقہ میں موجود ہے اور فقہ کا مسئلہ ہے۔’’الضرورات تبیح المحذورات‘‘بوقت ضرورت ممنوعات بحد ضرورت مباح ہوجاتے ہیں۔

برادران اسلام! صالح معاشرہ کے قیام اور عورت کی آزادی و عصمت کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ افراط و تفریط کو چھوڑ دیں اور اسلام نے مرد و عورت کے ربط و ضبط کے لئے جو حدود مقرر کئے ہیں اس کی پوری پوری پابندی کی جائے۔ اگر ہم حدودِ اعتدال سے ہٹ جائیں تو مغربی تہذیب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنا ہمارے لئے مشکل ہوجائے گا۔

از: استاذ الاساتذہ حضرت علامہ حافظ سید محبوب حسین نقشبندی

سابق نائب شیخ التفسیر جامعہ نظامیہ حیدرآباد