Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Anjuman-e-Qawateen

حضرت اسماء بنت ابو بکررضی اللہ عنھما ، صبر وتحمل اور اخلاق ِ کریمانہ کا پیکر


صحابہ کرام وصحابیات کی پاک زندگی جملہ کائنات کے لئے اسوہ ونمونہ ہے ، ان حضرات کی حیات خوفِ خدا ، تقوی وپرہیزگاری سے تعبیر رہی ، ان کے لیل ونہار طاعت وعبادت میں مشغول ، حقوق اللہ وحقوق العباد کی ادائیگی میں مصروف رہے ۔ ان کی پاکباز زندگی اِن حضرات کے متبعین وپیروکاروں کے لئے مشعل راہ ہدایت ہے، چنانچہ حضور اکرم ، سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی حیات امت مسلمہ کے لئے ہدایت وراستی کا مینار قرار دیا ، فرمایا:اصحابي کالنجوم بايهم اقتديتم اهتديتم ۔ ترجمہ :میرے صحابہ ستاروں کی مثل ہیں ، جو تم ان کی پیروی کروگے ہدایت پاؤگے ۔  (مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب المناقب ، باب مناقب قریش وذکر القبائل ، حدیث نمبر:6009)

        جس طرح صحابہ کرام کی حیات مرد حضرات کے لئے خصوصاً مشعل راہ ہے ؛ اسی طرح صحابیات کی زندگی خاص طور پر خواتین وملت کی شہزادیوں کے لئے راہ ہدایت کا شمع فروزاں ہے ۔

        ہدایت کے ان ستاروں میں حضرت سیدتنا اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما بھی ہیں ، جن کی پرورش افضل البشر بعد از انبیاء کی گودی میں ہوئی ، زوجیت ان صحابی کی ملی جو ابتداء اسلام کے زمانہ میں مشرف بہ اسلام ہوکر عشرۂ مبشرہ کے زمرہ میں شامل ہوئے ۔

        حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا لقب ذات النطاقین ہے ، ہجرت سے 27سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں ، مولف سیرت ابن اسحاق کے مطابق ایمان لانے والوں میں آپ کا شمار اٹھارہ نمبر پر ہے ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی طرح آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنھما بھی اولین ایمان والوں میں شامل ہوئیں۔

جذبۂ اسلام اور حکمت عملی

        ہجرت مدینہ کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر میں موجود سارا مال وروپیہ لیکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں سفراختیار فرمایا اور گھروالوں کے لئے کچھ نہ چھوڑا ، آپ کے والد حضرت ابوقحافہ نے (جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے )کہا :ابوبکر  نے ہمیں جسمانی اور ذہنی اذیت دی ، سارا مال لیکر چلے گئے ، یہ سن کر حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما نے سکوں کے موافق چند پتھروں پر کپڑا ڈال کر اس جگہ رکھا جہاں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنا مال رکھا کرتے تھے ، پھر حضرت ابوقحافہ کو وہاں لے جاکر بتایا کہ یہاں پیسے موجود ہیں چونکہ وہ نابینا تھے ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھا اور اطمنان کرلیا کہ گھر میں مال موجود ہے ۔

        جیساکہ سیر اعلام النبلاء میں ہے : عن أسماء، قالت: لما توجه النبي صلى الله عليه وسلم من مكة حمل أبو بكر معه جميع ماله خمسة آلاف، أو ستة آلاف فأتاني جدي أبو قحافة وقد عمي، فقال: إن هذا قد فجعكم بماله ونفسه.فقلت: كلا، قد ترك لنا خيرا كثيرا.فعمدت إلى أحجار، فجعلتهن في كوة البيت، وغطيت عليها بثوب، ثم أخذت بيده، ووضعتها على الثوب، فقلت: هذا تركه لنا.

فقال: أما إذ ترك لكم هذا، فنعم.

        ترجمہ : حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، فرمایا :جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھ پانچ یا چھ ہزار دراہم لے گئے ، میرے دادا نے مجھ سے کہا :انہوں نے اپنی جان ومال سے دور رکھ کر تمہیں تکلیف دی ، میں نے کہا :نہیں ، والد نے بہت سارا مال رکھ چھوڑا ہے پس میں نے چند پتھر لئے اور گھر کی روشندانی میں رکھ کر اُن پر کپڑا ڈالدیاپھر حضرت ابوقحافہ کا ہاتھ پکڑ کر کپڑے پر رکھا اور ان سے کہا:یہ مال والد گرامی نے ہمارے لئے چھوڑا ہے تو انہوں نے کہا :جب انہوں نے تمہارے لئے یہ چھوڑا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔(سیراعلام النبلاء ، اسماء بنت ابی بکر، ج 1، ص290)

        مشرکین مکہ کو جب ہجرت کی خبر ملی تو وہ تلاش میں نکل گئے اور ہر طرح کی کوششیں جاری رکھا ، ایسے گرماگرم ماحول میں حضرت ابوقحافہ کی آوازیں اور شکایتیں دوسروں تک پہنچتیں تو مشرکین کی تگ ودو اور بڑھ جاتی اور ان کی نظریں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ وافرادخاندان پر جمی رہتیں ، جس کے نتیجہ میں وہ پروگرام معطل ہوجاتا جو طے ہوا تھا کہ سفر ہجرت کے درمیان حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام بکریاں چراے کے بہانے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوکر دودھ پیش کیا کریں گے ، آئندہ کے منصوبوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے یہ حکمت عملی اختیار فرمائی ۔

        حکمت ودانائی کے اس واقعہ نے مسلمان خواتین کو دین سے محبت رکھنے اور اس کی خاطر ضرورت پڑنے پر حکمت اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی محبت حقیقی اس سے آشکار ہوتی ہے ، محبوب سے دور بھی کیوں نہ رہیں ، ہر وقت ہماری کوشش یہ رہنی چاہئے کہ ہر اس شئی کا ازالہ کریں جس سے محبوب کی اذیت کا امکان بھی ہو یہی درس حضرت اسماء رضی اللہ عنھا نے مسلم خواتین کو دیا ۔ آپ کے اس واقعہ سے ایک اور درس وموعظت ہمیں ملتی ہے کہ اگر کسی کو کسی کے متعلق غلط فہمی ہوجائے تو ایک مسلمان مرد وعورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ غلط فہمی کو دور کرے ، بات خلاف واقعہ ہوتو بھی بدگمانی سے بچانے کے لئے اور آپسی اختلاف سے بچانے کے لئے کسی طرح کا حیلہ کیا جاسکتا ہے ۔