محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نےجاہلیت کےتمام رسم ورواج اوراس کےفرسودہ نظام کومنسوخ کردیااورناقابل اعتبارقراردیا،جوظلم وستم،جبرواستبداد،بربریت ودہشت گردی جیسےمختلف انسانیت سوزامورپرمبنی تھا۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےانسانیت کودورجاہلیت اوراس کےغیر منصفانہ نظام سےنجات عطافرمائی اورانسانیت کورہتی دنیاتک کےلئےایک عالمی وبین الاقوامی اسلامی نظام عطافرمایا،جس کی اساس وبنیادعدل وانصاف اورامن وسلامتی ہے، جس کامقصدمظلوموں کوانصاف دلانا،غریبوں اورناداروں کی فریادرسی کرنا،اہل حقوق کو ان کےحقوق پہنچاناہے۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےاس ابدی منشورمیں انسانیت کواس کےوہ بنیادی واساسی حقوق عطافرمائےجوانسانوں کوحاصل ہوناتودرکنار آج تک دنیائے انسانیت اُس سے واقف بھی نہ تھی حجۃ الوداع کا عظیم خطبہ ’’قانون انسانی حقوق‘‘ کا نقطۂ آغاز تھا، آپ نے نہ صرف انسانی حقوق کے قانون کو بیان فرمایا بلکہ اُسکے نفاذ کا اعلان فرمایا، مدینہ طیبہ اور تمام مسلم علاقوں میں یہ قانون نافذالعمل ہوا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام افراد انسانی کو برابر ویکساں قراردیا ، لہٰذا کوئی شخص بحیثیت انسان دوسرے انسان سے فوقیت نہیں رکھتا، رنگ ونسل ، قومیت و وطنیت،سیاست وحکومت، دولت وثروت کاکوئی فرق روانہیں رکھاگیا،اس بین الاقوامی اسلامی نظام کے تحت تمام افرادکو مقامی وبین الاقوامی سطح پر حق زندگی ، حق تعلیم ، حق رائے دہی ،حق تجارت ، حق ملکیت ، حق نکاح ونیز اظہار رائے کا حق، انصاف چاہنے کاحق ، حقوق کے مطالبہ کا حق ، دیگر تمام انفرادی واجتماعی ، اقتصادی ومعاشرتی حقوق حاصل ہوں گے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پیام نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ ساری انسانیت کے لئے ایک آفاقی پیغام ہے،آپ نے بنی نوع انسان کے تمام اصناف سے متعلق حقوق و فرائض بیان فرمائے، ان کی فکری واعتقادی اور عملی واخلاقی زندگی کے لئے رہنمایانہ ارشادات صادر فرمائے اور ساری انسانیت کو ایک ناقابل تبدیل الٰہی قانون عنایت فرماکر عظیم احسان فرمایا۔
آپ نے معاشی واقتصادی مسائل کا حل بتلایا ہے اور عائلی ومعاشرتی احکام کی تفصیل بیان فرمائي اور انسان کی سماجی ومعاشرتی زندگی کے لئے سنہری اصول بیان فرمائے ہیں،آپ کے بیان کردہ اصول وقوانین ،احکام و ارشادات ایسی شان والے ہیں جو قانون داں و قانون ساز افراد کے لیے قانون مدون کرنے اور دستور وضع کرنے کے سلسلہ میں بیک وقت مشعل راہ اور منزل مقصود کی حیثیت رکھتے ہیں۔
کامیابی وفلاح کے حصول کے لئے تعلیمات اسلام پر عمل ناگزیر ہے، اسلام نےہر انسان کو زندگی گزارنے کا حق عطا کیا ہے اور کسی شخص کو یہ اختیار نہیں کہ وہ دوسرے کی جان کے درپے ہو اور اسے قتل کروائے ،اور کسی شخص کے لئے یہ روانہیں کہ وہ دوسرے کے مال کو اس کی مرضی کے بغیر حاصل کرے۔
جس معاشرہ کے افراد اونچ نیچ ،ذات پات ، امیر وغریب ، رنگ ونسل کے اعتبارسے بٹے ہوئے ہوں، وہاں آپسی تلخیاں اور عداوتیں عموما بہت جلدپیداہوجاتی ہیں اور ایسامعاشرہ بہت کم عرصہ میں زوال پذیر ہوجاتاہے ، بہترین سوسائٹی وہی ہے جہاں انسانی افراد میں اونچ نیچ،رنگ ونسل کا تصور نہ ہو،ہر ایک کے حقوق برابر ویکساں ہوں، تمام افراد کے حقوق میں مساوات ویکسانیت پائی جاتی ہو-
حدیث شریف میں آيا ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر فضیلت وفوقیت حاصل نہیں بجز تقوی کے ‘‘
دور جاہلیت میں خواتین سے جانبدارانہ‘ ظالمانہ اور غیرانسانی سلوک کیا جاتاتھا، لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ، لڑکی کو بوجھ سمجھا جاتا ، مال متروکہ میں صرف لڑکوں کا حصہ ہوتا او ر لڑکیاں اس سے بالکل محروم رہتیں ، معاشی معاشرتی ، عائلی اور دیگرتما م گوشوں میں عورت مظلوم تھی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کیلئے ان تمام حقوق کا اعلان فرمایا، جس کی وہ مستحق وحقدار تھیں اور عورت کو وہ بلند مقام اور اعلیٰ مرتبہ مرحمت فرمایاکہ کسی دین ومذہب میں اس کاتصور تک نہیں تھا ،آپ نے ارشاد فرمایا :خواتین کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور اُن کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکیدی وصیت قبول کرو۔
از:مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم
شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر