Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Anjuman-e-Qawateen

موت سے کسی کو نجات نہیں


انسان ہو یا جنات،حیوان ہو یا جمادات، کائنات میں کوئی مخلوق موت سے چھٹکارا نہیں پاسکتی ، ہر شئی کے وجود وعدم میں، ہونے اور نہ ہونے میں اختلاف ہوا ہے اور ہوتا رہے گا ،لیکن موت واقع ہونے اور آنے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ، ا سکو مانیں یا نہ مانیں وہ تو آکر ہی رہیگی ، جب اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے بارے میں سونچنے اور فکر کرنے کا انداز بدل کر ارشاد فرمایا :من احب لقاء اللہ احب اللہ لقاءہٗ.

ترجمہ :جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنا محبوب رکھے، اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت میں رکھنا پسند فرماتا ہے ۔(بخاری ،حدیث نمبر: 6507)

پچھلے اَدوار میں موت کو اک خطرناک درندہ اور ہیبت ناک حالت تصور کیا جاتا تھا ، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنین اور اطاعت گزاروں کو لقاء ِخداوندی کی تشویق دلائی ، حقیقت ِموت سے واقفیت عطا فرمائی کہ موت اک راستہ ہے جس سے گزر کر بندہ اپنے مولیٰ محبوب ِحقیقی سے ملتا ہے ،فرمانبرداری واطاعت گزاری کے ذریعہ یہ راہ آسان بنائی جائے ۔

دشمنان ِخُدا ودین کے لئے موت نہایت مشکل امر ہے ، موت کا مرحلہ مومن اور اطاعت گزار کے لئے آسان ہوتا ہے کہ حالت نزع میں محبوب بندہ کو رضاءِخداوندی کی جب بشارت ملتی ہے  اور اس کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں تو زندگی سے زیادہ اُسے موت محبوب ہوتی ہے ،کیونکہ رب العزۃ اس پر فضل وکرم ، انعام واحسان کی بارش نازل فرماتا ہے ۔

اس کے برخلاف نافرمانوں کو موت کے وقت اُنکا برُا انجام دکھائی دیتا ہے ،اسی لئے وہ موت سے کتراتے اور اُسے ناپسند کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ بھی انہیں اپنی رحمت سے دور رکھتا اور عذاب میں مبتلا فرماتا ہے ۔اسی لئے حدیث شریف میں آیا ہے :ومن کرہ لقاء اللہ کرہ اللہ لقاء ہٗ ۔ترجمہ:اللہ سے ملنے کو جو پسند نہ کرے اُسے اللہ تعالیٰ رحمت سے دور رکھتا ہے۔( بخاری ،حدیث نمبر:6507)

اسی سے معلوم ہوا کہ موت محبوبوں کے لئے راحت وآسانی والا راستہ ہے جسکو پارکرکے وہ رحمتِ خدا وندی پاتے ہیں اور گنہگاروں کے لئے مشکلات ومصائب کی راہ ہے جس کے ذریعہ وہ غضب ِالہی کا شکار ہوتے ہیں۔

موت کا مزہ کیسا ہوتا ہے ؟

قرآن شریف نے موت طاری ہونے کو لفظ ذائقہ سے بیان فرمایا ،فرمان الہی ہے :کل نفس ذائقۃ الموت۔ترجمہ:ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے ۔(اٰل عمران :185)

 موت کا ذائقہ نیکوں کے لئے اچھا اور بُروں کے لئے بدمزہ وکڑوا ہوتا ہے ،بدکاروں پر اس کی شدت اور کڑواہٹ کا اندازہ اس حدیث شریف سے ہوتا ہے :حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :بنی اسرائیل قوم میں کچھ عجیب واقعات پیش آئے ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ چند لوگوں کا گزر قبرستان سے ہوا ،انہوں نے آپس میں مشورہ سے یہ طے کیا کہ موت کیسی ہوتی ہے اور اس کی شدت کیا ہے ، یہ ہم مردہ سے پوچھیں گے، پہلے ہم نماز پڑھیں گے پھر اللہ تعالیٰ سے دعاکریں گے کہ ان مردوں میں سے کسی کو زندہ فرما؛ تاکہ ہم اس سے موت کا مزہ کتنا سخت ہے یہ دریافت کریں !

منصوبہ اور مشورہ کے مطابق نماز پڑھکر وہ ابھی دعاکر ہی رہے تھے کہ ایک مردہ کالی قبر سے اپنا سرنکالا، اس کی پیشانی پر سجدہ کا نشان بھی تھا ،اس نے کہا :اے لوگو !تم جو چاہتے ہو میں وہ بتادیتا ہوں ، میری موت واقع کے 90سال ہوچکے ہیں لیکن آج بھی میں موت کی کڑواہٹ محسوس کرتا ہوں ۔(تبنیہ الغافلین ،ص8)

وہ مسلمان خواتین جن کے صبح وشام ،فیشن پرستی ، ظاہری زیب وزینت ، فلم بینی ، قیمتی اوقات ضائع کرنے میں گزرتے ہیں وہ اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں اور نصیحت پائیں کہ ایک عبادت گزار عام مومن پر بھی موت اتنی شدت پکڑتی ہے تو دنیادار، غافل انسانوں کا حال کیا ہوگا ،موت کا آنا یقینی ہے اس میں ذرہ برابر شک نہیں ، اسی لئے نیک اعمال سے اُس کی تیاری اور بُرے اعمال سے اجتناب کرنا لازم ہے ، دنیا کے مصائب ومشکلات اسی لئے آتے ہیں تاکہ بندوں کو موت کی سختیوں سے واقف کروایا جائے بلکہ دنیا میں آنے والے مصائب عذاب ِموت کے مقابل بالکل ہیچ ہیں ، عام مومن بھی موت کی سختی سے چھٹکارا نہیں پاسکتا جیسا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا :عن الحسن عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:قدر شدۃ الموت وکربہ علی المومن کقدر ثلاثمأۃ ضربۃ بالسیف۔

سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن پر موت کی سختی اور مشکل اتنی ہوگی کہ گویا اس پر تلوار سے تین سو ضرب لگا ئے گئے ۔(تنبیہ الغافلین ،ص8)