Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Anjuman-e-Qawateen

ماں اپنے بچوں کو نمازی کیسے بنائے ؟


ہماری زندگی ، بندگی کے ساتھ ہوتو حقیقی لطف اٹھاسکتی ہے ، بلابندگی انسانی اور حیوانی حیات میں فرق وامتیاز نہیں رہتا ، اسی لئے کہتے ہیں

زندگی آمد براے بندگی

زندگی بے بندگی شرمندگی

خالق کائنات نے تخلیق انسانیت کا مقصد ہی عبادت وبندگی بنایا ہے ، ارشاد فرمایا:وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔ ترجمہ:اور میں نے جن وانس کو صرف میری عبادت کے لئے پیدا فرمایا ۔ ﴿سورة الذاریات : 56

عبادت گزاری وہ وصف ہے کہ اس میں ساری اچھی خوبیاں وصفات جمع ہوتی ہیں ، قرآن وحدیث میں جابجا عبادت گزاروں کی توصیف کی گئی ہے ، یہ جتنا عظیم احسان ہے اس کا حصول اتنا ہی مشکل ہے ، جب تک کہ زندگی کے آغاز وابتدائی مراحل میں بچوں کو عبادت گزار نہ بنایا جائے؛ مابقیعمر میں عبادت پر دوام اور کثرت بہت ہی مشکل ہوتی ہے ، ان مشکلات سے بچانے کے لئے والدین کو تربیت ِاولاد پر ابھارا گیا ، جو ماں باپ اپنی اولاد کو بچپن ہی سے نماز کا پابند ، حسن ِاخلاق کا خوگر ، اوصاف ِخیر کا حامل بناتے ہیں وہ مابقیزندگی میں اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک پاتے ہیں۔

پانچ تا سات سال کے بچے بھی نماز پڑھتے ہیں:

بچوں کی عمر جیسے پروان چڑھتی رہتی ہے عقل وشعور کو بھی زینہ بزینہ عروج ملتاہے ، اس عمر میں بچوں کی طبیعت متاثر ہوتی ہے، مؤثر نہیں ۔ وہ تقلید کا مزاج رکھتے ہیں، تحقیق کا نہیں ۔ اخذ واقتباس کی اس حالت میں وہ جودیکھتے اور سنتے ہیں اس کی پیروی کرنے لگتے ہیں، اس کیفیت میں والدین کی اہم ذمہ داری بنتی ہے کہ بچوں کو اچھے اعمال دکھائیں ، بری باتوں سے ان کے کان بہرے رکھیں ، وہ بولنا سیکھیں تو اللہ تعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سکھائیں۔

والدین اپنے آشیانہ میں چڑیوں کی چہچہاہٹ اور کانوں میں رس گھولنے والی بچوں کی آوازیں سنیں تو ان سے یہ سنیں کہ وہ حمد باری تعالی ومدحت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نغمہ سرائی کریں اور والدین جب نماز پڑھیں تو بچوں کو بھی ساتھ لیکر نماز پڑھیں جس سے ان کے ذہن میں یہ عقیدہ محفوظ ہوجائے گا کہ جیسے زندگی کے لئے کھانا ،پینا ضروری ہے ؛ایسا ہی بندگی کے لئے نماز لازم ہے۔

سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز کا حکم دینا چاہئے کہ اس کمسنی سے ہی ان کو نماز کی رغبت پیدا ہو اور نماز کی طرف ان کا قلب مائل رہے ، کھیل کود اور دیگر لغویات سے بچانے کے لئے یہ سب سے بہتر اور صحیح طریقہ ہے، اس عمر میں نماز کی ترغیب دلانا ارشادات ِنبویہ سے ثابت ہے ۔

سات سال کی عمر ،بچوں کے لئے عقل وفہم کی آنکھ کھلنے کی عمر ہے ، اس وقت ان کے پاس بلاتمییز خیروشر کے صرف تقلید واتباع کا جذبہ ہوتاہے ، یہ جذبہ صحیح راہ پر چلے تو اگلی منزل بہتر ہوگی ورنہ اس کا انجام فساد وخرابی کے سوا کیا ہوسکتاہے۔

بچوں کو عبادت الہی کے انوار وبرکات سے پُرنور وآباد رکھنا والدین کا اہم فریضہ ہے ، لہذا سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دینا مسنون ہے جیساکہ حدیث شریف میں ہے : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مروا اولادکم بالصلوٰة وھم ابناء سبع سنین واضربوھم علیھا وھم ابناء عشر سنین وفرقوا بینھم فی المضاجع ۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں وہ نماز نہ پڑھیں تو ہلکا سا مارو اور اس عمر میں انہیں علٰحدہ بستر پر سلاؤ۔ ﴿سنن ابی داؤد، باب متی یؤمر الغلام ، حدیث نمبر: 495﴾

بچوں کو نمازی بنانا ماں کے لئے آسان نہیں ہے :

بنیادی طور پر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ہر اچھے عمل کے لئے مشکلات ومصائب درپیش ہوتے ہیں ، بچوں کو نماز اور دیگر عبادت کو سب سے اچھا عمل بتانے میں جتنے مشکلات درپیش ہوتے ہیں شاید کسی اور ترغیبی عمل میں نہ ہوتے ہوں ؛کیونکہ بچپن سے بچوں کو نماز کا شوق اور عبادت کی لذت مل جائے تو انہیں بے کار محفلوں،بے جا گفتگو،تضییع ِاوقات جیسی مہلک عادات سے نفرت ہوگی اور انہیں پروردگار کی محفل سے اچھی کوئی محفل نہ لگے گی،لیکن انہیں نماز کا شوق دلانا اس لئے مشکل ہے کہ شیطان یہاں بھی بے شمار رکاوٹیں ڈالتاہے، اس کے شرور ووساوس سے بچنے کے لئے چند اصول پر عمل کرنا چاہئے،جن میں سے چند یہ ہیں:

بچوں کو تعوذ یاد دلاکر صبح وشام اس کا ورد جاری رکھنے کی تلقین کی جائے اور ان کے ذہن وفکر میں یہ بٹھایا جائے کہ اعوذ باللہ پڑھنے سے ہم اللہ کی حفاظت میں آجاتے ہیں ، پھر دنیا کی کوئی مخلوق ہمیں نقصان نہ دے گی۔

نماز کے وقت سے پہلے ان کی ذہن سازی کی جائے اور نماز کے لئے تیار بٹھایا جاے جیسے چاکلٹ اور آئسکریم آنے سے پہلے وہ بے صبری سے انتظار کرتے ہیں ۔

بچے کبھی اکتاجاتے ہیں ایسے موقع پر وہ نماز کے لئے تیار نہ ہوں تو ان سے وعدہ کیا جائے کہ نماز پڑھنے کے بعد ان کی من پسند ومرغوب جو چیز ہو وہ دیں گے۔

جیساکہ حضرت فرید الدین مسعود گنج شکر رحمہ اللہ کے بچپن میں آپ کی والدہٴ محترمہ مصلی کے نیچے شکر کی تھیلی رکھ دیتی اور آپ سے فرماتیں کہ بیٹا نماز پڑھوگے تو اللہ تعالی آپ کو شکر عطا فرمائے گا، نماز پڑھ کر مصلی کے نیچے دیکھ لو تھیلی مل جائے گی ، دراصل آپ کو شکر بہت پسند تھی اس لئے والدہٴ محترمہ ایسا کیا کرتیں۔

نماز کے فوائد وبرکات اور اس پر پابندی کے اخروی ودنیوی ثمرات کیا ملتے ہیں ؟ یہ بار بار بتلاتے رہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام وبزرگان دین کیسی نماز پڑھتے تھے اس سے بھی ان کے کان آشنا رہیں ، نماز کے وقت سے پہلے ان باکباز ہستیوں کا کوئی واقعہ نماز سے ہی متعلق بیان کرنے سے نماز کی محبت بچوں کے قلب میں بیٹھ جاتی ہے۔

موسم کے لحاظ سے وضو کے لئے پانی دیا جائے ، موسم سرما میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرواینگے تو نماز کے وقت سے خوف کی کیفیت ان کے دل میں پیدا ہوسکتی ہے ، چنانچہ عادت ہونے تک گرم پانی وضو کے لئے مہیا کیا جائے ۔

ساتھ ہی ساتھ وضو کے فضائل اور اس کے فوائد بتاتیں رہیں۔

نماز کے آغاز سے قبل ان کی توجہ اور تصور ایک طرف کرلی جائے اور یہ بتایا جائے کہ نمازی پر اللہ کی رحمت اترتی ہے ، فرشتے اس کے اطراف وجوانب میں رہتے ہیں  اور جب تک نمازی نماز میں رہتا ہے اللہ تعالی کے حضور میں رہتا ہے ۔

بچے نماز سے کترائیں تو مار ، پیٹ کے ساتھ پیش آنے کے بجائے ماں مصلے پر کھڑی رہے اور بچے کو آواز دے : جلدی آؤ میں انتظار کررہی ہوں ۔ اس طرح کسی بھی طریقہ سے بچوں کو ساتھ لے کر نماز پڑھنا چاہئے تاکہ انہیں یہ یقین ہوجائے کہ نماز کے بغیر کوئی راہ نہیں۔

سات سال کی عمر کے بعد باپ کی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ جب نماز کے لئے مسجد کی راہ لے تو بچوں کو ساتھ لے جائے ، بچوں کو ان کی مرضی پر تنہا نہ چھوڑے اس سے جھوٹ بولنے کی عادت ہوسکتی ہے اور بچہ وقت ضائع کرکے آخری وقت مسجد کے باہر باپ کو نظر آکر یہ کہے گا کہ میں نماز پڑھ کر پہلے ہی مسجد سے نکل گیا۔

یہ چند تدابیر بتائی گئی ہیں جن کے پیش نظر بچوں کی تربیت کی جاسکتی ہے اور نماز میں کسل مندی سے انہیں بچایا جاسکتا ہے۔