14فبروری کا دن اس دنیا میں یومِ محبت کے نام سے جانا جاتاہے اور اس دن میں خصوصًا نوجوان اور ماڈرن طرز کے لوگ اظہار محبت میں بڑی گرم جوشی سے کام لیتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں پر پھول نچھاور کرتے ہیں ، محبت نامہ اور عشقیہ پیام بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ یومِ محبت ہے ، ہر سمجھدار اور اپنے سینہ میں دل رکھنے والا انسان یہ دن مناتا ہے ، نہ منانے والوں کا محبت سے کوئی تعلق نہیں وہ اپنے سینہ میں دل نہیں پتھر رکھتے ہیں اور دنیا میں محبت پھیلانے سے روکتے ہیں۔
یہ وہ جذبات اور بے قابو زبان کی بولی ہے جسے ویلنٹائن ڈے کی حقیقت او ر اس کے نقصانات کا پتہ نہیں اور اس دن کو عام کرنے میں کیا مخفی راز ہیں اس امر سے ناواقف لوگ ہی نقصان میں ڈالنے والی ایسی مدبرانہ باتیں کرتے ہیں ۔
اس دن کے فوائد ونقصانات جاننے کے لئے ہمارے سامنے دو رُخ ہیں ؛ ﴿1﴾دنیوی ﴿2﴾دینی
﴿1﴾ دنیوی زندگی میں شب وروز گزارنے کے اعتبار سے ویلنٹائن ڈے کو ایک تقریب یا یادگار دن مانا جائے تو دیکھنا یہ ہے کہ اس تقریب اور یادگار سے ہماری معاشی اور معاشرتی زندگی کے لئے کتنے فوائد حاصل ہوتے ہیں ؟ اور اس دن کی یادگار منانے میں وہ کیا اسباب ہیں جن سے انسانی معاشرہ کے دامن میں مالی ، طبی ، جسمانی اور علمی منافع آتے ہیں؟ اس سوال کا جواب صرف یہی ہے کہ جس دن کو یومِ محبت سے موسوم کیا جارہاہے وہ ایک مخرب اخلاق اور بدکردار بنانے والی رسم اور ضرر رساں یادگار ہے ۔
ویلنٹائن ڈے وہ دن ہے جس میں روزمرہ کام اور مصروفیات تعطل کا شکار بن جاتی ہیں ۔
یہ وہ رسم ہے جو انسانی اخلاق وکردار کی شبیہ بگاڑ کر رکھدیتی ہے۔
یہ وہ یادگار ہے جس نے معاشرہ کو ضرر ونقصان کے سوا کچھ نہ دیا ۔
اس دن وہ محفلیں گرم کی جاتی ہیں جن میں لڑکے ، لڑکیوں کی شرمناک ملاقاتیں ہوتی ہیں، جس ملاقات کو نہ کوئی باپ پسند کرسکتاہے نہ کوئی بھائی ۔
اس اظہار محبت کا نام ویلنٹائن ڈے ہے تو افسوس ہے ان تعلیم یافتہ لوگوں پر جو اس بے حیائی اور فتنہ انگیزی پر محبت کا لیبل لگاکر بھولے بھالے انسانوں کو بے حیائی اور فتنہ پروری کے دلدل میں پھانستے ہیں ۔
آخر میں سوال یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے اگر یومِ محبت ہے تو یوم محبت منانے والے اس محفل میں اظہار محبت کے لئے باپ ، بہن اور دوست واحباب کو شامل کیوں نہیں کرلیتے ، یومِ محبت کا نام لیکر پیام محبت ہی عام کرنا ہے تو کیا اس محبت کے حقدار والدین ، بھائی ، بہن اور دوست واحباب نہیں ہیں۔
ویلنٹائن ڈےسے مشہور یہ تقریب محض اس وجہہ سے مذموم اور ناقابل قبول نہیں ہے کہ اس میں رومیوں کی تہذیب ، عیسائی اور یہودیوں کا کلچر اپنا رنگ جماکر ہمیں اپنے دین یا وطن کی تہذیب سے دور کردیتی ہے بلکہ یہ تقریب متعدد خرابیوں کی جڑ اور فتنہ وفساد کا ذریعہ ہے کہ جس تہذیب کی کشتی اس بھنور میں پھنستی ہے وہ کبھی کنارے نہیں لگتی ۔
اب جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مذہبی اور قومی اقدار قائم رکھیں ، مشرقی اقدار اور وطنی روایات مٹنے نہ دیں ، معاشرہ کی تہذیب وتمدن ہاتھ سے جانے نہ دیں ، انہیں چاہئے کہ ویلنٹائن ڈے کی سختی سے مخالفت کریں اور اسے بڑھاوا نہ دیں ۔
﴿2﴾ ویلنٹائن ڈے منانے کا جواز اور اس سے معاشرہ میں خیر کی لہر دوڑتی ہے یا شر کے کانٹے بکھرتے ہیں ، یہ جاننے کے لئے اصول دین اور قوانین اسلام کی رو سے اس تقریب کو دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے ، یوں تو مسلمان ہرنیا کام بدعت سمجھ کر ترک نہیں کرتا، بلکہ ایسا عمل جو اصول دین کے خلاف ہو ااور اس میں حرام کام کئے جائیں تو وہ نیا کام بدعت اور گمراہی کہلاتاہے ، ویلنٹائن ڈے میں بھی محرمات کا ارتکاب کیا جاتاہے اور فحش وبے حیائی کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں ، اجنبی لڑکے اور لڑکیوں کا اختلاط ، آپس میں میل جول ، ایکدوسرے سے مصافحہ، یہ سب حرام وناجائز کام ہیں ، اس لئے یہ دن منانا اور ایسی محفلوں وپارٹیوں میں شریک ہونا سراسر اسلام کے خلاف ہے ، اس کے علاوہ اس دن کی یادگار منانا دراصل رومی عیسائیوں کی ایجاد اور انکا مذہبی تہوار ہے اور کسی بھی مذہب کے تہوار میں شرکت از روئے شرع جائز نہیں ہے۔