امام عالی مقام ، سیدالشہداء ، امام حسین رضی اللہ عنہ کو حق تعالی نے چھ(6) شہزادے اور تین شہزادیاں عطا فرمائے ، ان مقدس خدا رسیدہ شہزادیوں میں ایک باہمت ، شب بیدار شہزادی حضرت سُکینہ رحمھا اللہ ہیں ، آپ کی والدۂ محترمہ کا اسم گرامی سیدتنا رباب بنت امرء القیس بن عدی بن اوس الکلبی ہے ، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں امرء القیس بن عدی داخل اسلام ہوئے ، اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے امام عالی مقام کے لئے حضرت رباب رضی اللہ عنھا کا رشتہ طلب فرمایا، چنانچہ حضرت رباب ، امام عالی مقام کی زوجیت میں آئیں اور آپ سے ایک صاحبزادہ حضرت عبداللہ اور صاحبزادی حضرت سُکینہ رحمھما اللہ تولد ہوئیں ، اللہ تعالی نے آپ کو ظاہری وباطنی حسن وجمال کا پیکر بنایا، حسن اخلاق اور بہترین کردار آپ کا شعار ہے ، آپ حسن وجمال میں یکتائے زمانہ تھیں ، کوئی آپ کا ثانی ومثل نہ تھا ۔ (البدایۃ والنھایۃ ، فصل فی شئی من اشعارہ ، ج 8، ص229)
عقد زواج :
حضرت سُکینہ رحمھا اللہ سے امام حسن کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنھما نے نکاح کیا ، تھوڑے ہی وقت میں آپ کی شہادت ہوئی ، پھر آپ دوبارہ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما کے نکاح میں آئیں ، حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے حضرت سُکینہ رحمھا اللہ کا مہر ایک لاکھ درہم دیا ، رخصتی کے وقت حضرت سُکینہ رحمھا اللہ کے ساتھ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے تو حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے آپ کو چالیس دینار ہدیہ دیا ، جیساکہ منقول ہے : کانت سکینۃ رضی اللہ عنھا من الجمال والادب والفصاحۃ بمنزلۃ عظیمۃ وکان منزلھا مالف الادباء والشعراء وتزوجت عبداللہ بن الحسن السبط ابن علی کرم اللہ وجھہ فقتل عنھا بالطف قبل ان یدخل بھا ثم تزوجھا مصعب بن الزبیر رضی اللہ عنھما وامھرھا الف الف درھم وحملھا الیہ علی بن الحسین رضی اللہ عنھما فاعطاہ اربعین الف دینار وولدت لہ الرباب وکانت تلبسھا اللؤلؤ وتقول ما البستھا ایاہ الا لتفضحہ ۔ (نور الابصار فی فضائل اللنبی المختار۔ ص193)
حضرت سُکینہ رحمھا اللہ حسن وجمال اور فضاحت لسانی وبلاغت کلام میں اعلی مقام رکھتی ہیں ، آپ کی ذات بڑے ادیب وشعراء کے لئے ان کی ادبی وشعری صلاحیت نکھارنے کا مرکز تھی، امام حسن رضی اللہ عنہ کے شہزادہ حضرت عبداللہ نے پہلے آپ سے نکاح کیا اور فورًابعد آپ کی شہادت واقع ہوئی ، اس کے بعد حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اپنے نکاح میں لیا اور ایک لاکھ درہم مہر ادا کیا ، حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اپنی ہمشیرہ کو رخصت کرنے کے لئے بہنوئی کے گھر تشریف لائے تو حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے آپ کو چالیس ہزار دینار بطور ہدیہ دیا ، حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کو حضرت سکینہ رحمۃ اللہ علیھا سے جو اولاد ہوئی ان میں ایک صاحبزادہ کا نام عبداللہ اور ایک صاحبزادی کا نام رباب رکھا گیا جو نانی کے نام سے موسوم ہوئیں ۔ حضرت رباب بنت مصعب بچپن سے ہی اتنی خوبصورت حسین وجمیل تھیں کہ آپ کی والدہ انہیں موتیوں کا ہار پہناتیں اور فرماتیں کہ میری بچی کا حسن ایسا ہے کہ موتی بھی ان کے حسن کے سامنے ماند نظر آتے ہیں ۔
حضرت سُکینہ کی علمی ، ادبی وشعری صلاحیت :
ہمارے دین کی مقدس خواتین ہرزمانہ میں علم وادب اور شعر وبلاغت میں اپنی مثال آپ رہی ہیں ، فصاحت وبلاغت اور شعروعروض پر حضرت سُکینہ رحمۃ اللہ علیھا کو مہارت تامہ وکامل دسترس تھی ، مشہور زمانہ وبے مثال شعراء جیسے فرزدق ، کثیر ، نصیب ، جمیل بھی اپنے اشعار کی اصلاح کے لئے آپ کے پاس آتے تھے اور آپ ان کے اشعار میں پائے جانے والے سُقم کو دور فرماتیں ، کلام قابل قدر ہوتا تو انہیں انعام واکرام سے نوازتیں ۔ آپ کی ظاہری صلاحتیں اور باطنی کمالات یہ سب کچھ حقیقۃً موروثی تھا اسی لئے آپ حسن ِاخلاق ، بہترین کردار ، شب بیداری وعبادت گزاری ، علمی وروحانی منازل میں یکتا ئے روزگار تھیں ، آپ کی اِن خداداد صلاحیتوں وکمالات کی وجہہ سے حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حق تعالی سے دعا کی تھی کہ مولٰی میرا عقد ازدواج حضرت سُکینہ رحمھا اللہ سے کرادے ، رب العزت نے آپ کی دعا کو شرف قبولت بخشا جیساکہ البدایۃ والنھایۃ اور المنتظم میں ہے : فقالوا قم یامصعب فقام فاخذ بالرکن الیمانی فقال اللھم انک رب کل شیء والیک یصیر کل شیء اسألک بقدرتک علی کل شیء الا تمیتنی من الدنیا حتی تولینی العراق وتزوجنی سکینۃ بن الحسین ۔ (المنتظم لابن الجوزی ، ج2 ، ص252۔393)
والدِ محترم سے محبت اور ان کی خدمت :
حضرت سُکینہ رحمۃ اللہ علیھاواقعہ کربلا کے وقت کوئی بڑی عمر کی نہیں تھیں ، واقعہ کربلا سے پیشتر امام عالی مقام حضرت سیدناحسین رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کے لئے متعدد سفر کئے ، آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امام زین العابدین نے بھی حج کا ارادہ کیا تو حصول برکت اور بھائی کی خدمت کے نیک ارادہ سے حضرت سُکینہ رحمۃ اللہ علیھانے ہزاروں دینار خرچ کرکے آپ کے لئے دعوت کا اہتمام کیا اور راستہ کا توشہ تیار کیا ۔
آپ کے اس اہتمام سے امام زین العابدین نے مسرت کا اظہار فرمایا اور راہِ سفر میں سارا توشہ مسکینوں میں تقسیم فرمایا، حضرت سکینہ نے اپنی محبت کا اظہار اہتمامِ دعوت سے کیا اور امام عالی مقام نے سب خیرات کرکے ایثار کا درس دیا ، حضرت سکینہ کے اِس عمل سے موجودہ دَور کی مسلم خواتین کے لئے درس اور مقام نصیحت ہے کہ جب اعزاء واقارب کہیں کا رخت سفر باندھیں تو ہماری اخلاقی ورشتہ داری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کے لئے آرام وسہولت کاانتظام کریں ، خواہ کچھ ہدیہ بطور ِرقم دیں یا سامان ِسفر پیش کریں ، یہاں حضرت سکینہ رحمۃ اللہ علیہا کی بھائی سے اُلفت ومحبت اور قلبی وابستگی کا بھی پتہ چلتا ہے ، آپ نے عملی طور پر بتادیا کہ والدین کی خدمت اور اقارب کے حسن سلوک کی خاطر مال ومتاع بے دریغ خرچ کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے ، چنانچہ اس کا ذکر صفوۃ الصفوۃ میں اس طرح ہے : وعن سفیان قال اراد علی بن الحسین فی حج او عمرۃ فاتخذت لہ سکینہ بنت الحسین سفرۃ انفقت علیھا الف درھم او نحوذلک وارسلت بھا الیہ فلما کان بظھر الحرۃ امر بھا فقسمت علی المساکین۔ (صفوۃ الصفوۃ، علی بن الحسین ، ج1، ص195)
دینی علوم کی نشرواشاعت میں حضرت سُکینہ کی یادگار:
حضرت سکینہ رضی اللہ عنھا خاندانِ نبوت کا چشم وچراغ ہیں ، سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شعاعیں عالم اسلام میں پہنچانے کے لئے آپ نے بھی بے حد کوششیں کیں ، حدیث شریف کی اشاعت میں بھی آپ نے حصہ لیا اور جو علوم آپ کو خاندان نبوت سے ملے انہیں طالبان علوم تک پہنچایا چنانچہ آپ کی مرویات متون ِحدیث وکتب ِتخریج میں پائی جاتی ہیں ، بطورِمثال یہاں ایک حدیث ذکر کی جارہی ہے : حَدَّثَنِي فَايِدٌ مَوْلَى عُبَيْدِ اللَّهِ بن أَبِي رَافِعٍ ، حَدَّثَتْنِي سُكَيْنَةُ بنتُ الْحُسَيْنِ بن عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهَا ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " حَمَلَةُ الْقُرْآنِ عُرَفَاءُ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
ترجمہ:حضرت سکینہ نے امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، حضرت سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قرآن کا علم رکھنے والے ، بروزِمحشر وہ لوگ ہوں گے جو معرفت الہی رکھتے ہوں گے۔(المعجم الکبیر للطبرانی ، ج3 ، ص216، حدیث نمبر:2813)
وصال :
آپ ایک زمانہ تک عوام وخواص کو اپنے علم وروحانیت سے فیض فرماتی رہیں ، اصلاحِ قلب وتزکیۂ نفوس میں بے مثال کارنامے انجام دیتی رہیں، تادم زیست خدمت دین کے لئے وقف رہیں اور آخرکار 5ربیع الاول 126ھ بروز جمعرات اِس دارِ فانی سے عالم بقا کا سفر طے فرمایا، اکثر تاریخ نگار حضرات نے لکھا ہے کہ آپ کا وصال مدینہ طیبہ میں ہوا اور بقیع شریف میں آپ مدفون ہوئیں۔