نام: عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، کنیت: ام عبداللہ (بھانجے کے نام پر) ، لقب: صدیقہ اور حمیرا
نسب مبارک یہ ہے: عائشہ بنت ابوبکر صدیق بن قحافہ بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن یتیم بن مرہ بن کعب بن لوی-
والدہ کا نام ام رومان بنت عامر تھا جو جلیل القدر صحابیہ ہیں-
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بعثت نبوی علی صاحبہ والصلوۃ والسلام کے چار سال بعد ماہ شوال میں پیدا ہوئیں ، آپ حضر ت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نور نظر اور دختر نیک اختر ہیں، بچپن ہی سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زیر سایہ پرورش پائیں - حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بچپن ہی سے بیحد ذہین اور ہوشمند تھیں، بچپن کی باتیں انہیں یاد تھیں- امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ جب آیۃ بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ وَ السَّاعَۃُ اَدْہٰی وَ اَمَرُّ-(سورۃ القمر: 46 ) مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کھیل کود میں مشغول تھیں- یعنی ابھی آپ لڑکپن کا دور گزار رہی تھیں-
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اعلان نبوت کے دسویں سال اور ہجرت کے تین سال قبل ماہ شوال میں ہوا- ایک دفعہ ماہ شوال کے مہینے میں عرب میں طاعون کی خوفناک وباء پھیلی جس نے ہزاروں گھرانوں کو ویران کردیا ، اس وقت سے شوال کا مہینہ اہل عرب میں منہوس سمجھا جاتا تھا، وہ اس مہینے میں خوشی کی تقریب کرنے سے احتراز کرتے تھے، چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح شوال میں ہوا اور خطبۂ نکاح حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے پڑھا اور رخصتی بھی چند سال بعد شوال ہی میں ہوئی، اس مبارک نکاح کی برکت سے شوال کی نحوست کا وہم لوگوں کے دلوں سے دور ہوا- آپ کا مہر 500 درہم مقرر ہوا- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ آپ پیدائشی مسلمان تھیں- ان ہی سے روایت ہے کہ "جب میں نے اپنے والدین کو پہچانا انہیں مسلمان پایا"- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر روز ازل سے کفر و شرک کا سایہ تک نہ پڑا-
چند مخصوص فضائل میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تمام صحابہ اور صحابیات میں امتیازی حیثیت رکھتی ہیں- بہ روایت قاسم بن محمد رحمۃ اللہ علیہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ دس اوصاف مجھ میں ایسے ہیں جن میں دوسری ازواج مطہرات سے کوئی میری شریک نہیں-
علمی شان:
زہری فرماتے ہیں کہ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علم کا تمام امہات المومنین اور تمام خواتین کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم سب سے بڑھا رہے گا- آپ کی فصاحت و بلاغت کا یہ عالم تھا کہ حضرت معاویہ فرماتے ہیں کہ میں نے کسی خطیب کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ فصیح و بلیغ نہیں دیکھا- (طبرانی)
اکابر صحابہ کو جب بھی کوئی اشکال پیش آتا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف رجوع کرتے، عہد صحابہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم ، تفقہ اور تاریخ دانی مسلم تھی- یہاں تک کہا گیا کہ احکام شرعیہ کا چوتھائی حصہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے- صحابہ کو آپ کے یہاں مشکل مسئلہ کا حل مل جاتا تھا- (ترمذی)
حضرت عروۃ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ میں نے قرآن، حدیث، فقہ، تاریخ اور علم الانسان میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو اشعار عرب کا جاننے والا نہیں پایا- وہ دوران گفتگو برموقع کوئی نہ کوئی شعر پڑھ دیا کرتی تھیں جو بہت ہی برمحل اور مناسب و موزوں ہوا کرتا تھا-
علم طب اور مریضوں کے علاج معالجہ میں بھی انہیں کافی مہارت تھی- حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جو آپ کے بھانجے ہیں فرماتے ہیں کہ ایک دن حیران ہوکر بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ اے اماں جان! مجھے آپ کے علم حدیث و فقہ پر کوئی تعجب نہیں ہے کیونکہ آپ نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زوجیت و محبت کا شرف پایا ہے، اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سب سے زیادہ محبوب ترین زوجۂ مقدسہ ہیں- سنن ابو داؤد میں روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرمایا کرتے تھے: اے باری تعالی : یوں تو میں سب ازواج سے برابر کا سلوک کرتا ہوں، مگر دل میرے بس میں نہیں کہ وہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) کو زیادہ محبوب رکھتا ہے- یا اللہ اسے معاف فرما، چنانچہ مجھے اس پر بھی کوئی تعجب نہیں ہے-
اور اس پر بھی کوئی تعجب و حیرانی نہیں ہے کہ آپ کو عرب کے اس قدر زیادہ اشعار کیوں اور کس طرح یاد ہوگئے؟ اس لئے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ حضر ت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نور نظر ہیں اور وہ اشعار عرب کے بہت بڑے حافظ و ماہر ہیں، مگر میں اس بات پر بہت ہی حیران ہوں کہ آخر یہ طبی معلومات اور علاج و معالجہ کی مہارت آپ کو کہاں سے اور کیسے حاصل ہوگئی؟ یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی آخری عمر شریف میں اکثر علیل ہوجایا کرتے تھے اور عرب و عجم کے اطباء آپ کے لئے دوائیں تجویز کرتے تھے، اور میں ان دواؤں سے آپ کا علاج کرتی تھی- اس لئے مجھے طبی معلومات بھی حاصل ہوگئیں-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زہد و تقوی کی پیکر ہیں اور آپ کو عبادت الٰہی سے بے انتہا شغف رہا- فرض نمازوں کے علاوہ سنتیں اور نوافل بھی کثرت سے پڑھتی تھیں- تہجد کی نماز اور چاشت کی نماز کا ساری عمر میں کبھی ناغہ نہیں کیا- حج کی شدت سے پابند تھیں- رمضان المبارک کے علاوہ نفلی روزے بھی بڑی کثرت سے رکھتی تھیں-
دل میں حد درجہ کا خوف خدا تھا- عبرت کی کوئی بات یاد آجاتی تو بے اختیار رونے لگتیں، ایک مرتبہ فرمایا کہ میں کبھی سیر ہوکر نہیں کھاتی کہ مجھے رونا آتا ہے، ان کے ایک شاگرد نے پوچھا: یہ کیوں؟ فرمایا: مجھے وہ حالت یاد آتی ہے جس میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دنیا کو چھوڑا، خدا کی قسم !آپ نے کبھی دن میں دو بار سیر ہوکر روٹی اور گوشت نہیں کھایا-
اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر جان چھڑکتی تھیں، ایک دفعہ آپ رات کے وقت اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے، جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آنکھ کھلی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو موجود نہ پایا تو سخت پریشان ہوئیں، دیوانہ وار اٹھیں اور ادھر ادھر اندھیرے میں ٹٹولنے لگیں- اخیر ایک جگہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا قدم مبارک پایا، دیکھا تو آپ سربسجود یاد الٰہی میں مشغول ہیں، اس وقت انہیں اطمینان ہوا-
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کی محبوب زوجہ مطہرہ ہیں، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم طہارت میں بہت اہتمام فرماتے تھے اور اپنی مسواک بار بار دھلوایا کرتے تھے، اس خدمت کا شرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حاصل تھا، شدت مرض میں کمزوری کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی مسواک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیتے ، وہ اپنے دانتوں میں چباکر نرم کرتیں اور پھر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم استعمال فرماتے- جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم احرام باندھتے یا احرام کھولتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جسم مبارک میں خوشبو لگاتی تھیں-
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حیات مبارکہ کے چار واقعات بے حد اہم ہیں:
( 1 ) افک ( 2 ) ایلا (3) تحریم (4) تخییر
جنگ احد میں زخمیوں کو پانی پلایا، ام المومنین فطری طور پر نہایت دلیر اور نڈر تھیں، راتوں کو اٹھ کر قبرستان جاتی تھیں- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لئے جبریل امین علیہ السلام کا سلام آتا-
الغرض فی الحقیقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا پایۂ علم و فضل اتنا بلند تھا کہ اس کو بیان کرنے کے لئے سینکڑوں صفحات درکار ہیں- یہاں ہم اسی قدر لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں-
اخلاق عالیہ
فضائل اخلاق کے لحاظ سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا رتبہ بہت بلند تھا، وہ بے حد فیاض، مہمان نواز اور غریب پرور تھیں، ایک بار حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کو ایک لاکھ درہم بھیجے- انہوں نے اسی وقت مکمل رقم فقراء و مساکین میں تقسیم کردی، اس دن روزے سے تھیں، خادمہ نے عرض کیا:"ام المومنین! افطار کے لئے گوشت خرید لیا ہوتا" فرمایا :"تم نے یاد دلایا ہوتا"-
موطا امام مالک میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک دن روزے سے تھیں اور گھر میں ایک روٹی کے سوا کچھ نہ تھا، اتنے میں ایک سائلہ نے آواز دی، انہوں نے باندی کو حکم فرمایا کہ روٹی سائلہ کو دے دے ، باندی نے کہا: شام کو افطار کس چیز سے کریں گی؟ ام المومنین نے فرمایا: تم یہ اسے دے دو، شام ہوئی تو کسی نے بکری کا گوشت ہدیہ بھیج دیا- باندی سے فرمایا: دیکھو! اللہ نے روٹی سے بہتر چیز بھیج دی ہے-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے رہنے کا مکان امیر معاویہ کے ہاتھ فروخت کردیا تھا، انہیں جو قیمت ملی وہ سب راہ خدا میں دے ڈالی-
ام المومنین کو غیبت اور بدگوئی سے سخت اجتناب تھا، آپ سے مروی کسی حدیث میں کسی شخص کی توہین یا بدگوئی کا ایک لفظ بھی نہیں ہے- وسعت قلب کا یہ عالم تھا کہ اپنی سوکنوں کی خوبیاں اور مناقب خوشدلی سے بیان کرتی تھیں-
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں تمام ازواج مطہرات کے دس دس ہزار درہم سالانہ مقرر تھے، البتہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارہ ہزار دینار تھے- سب کچھ رہنے کے باوجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہمیشہ موٹے اور کم قیمتی کپڑے پہنتی تھیں- البتہ ان کپڑوں کو ارغوانی یا زعفرانی رنگ میں رنگ لیتی تھیں- ہاتھوں کی انگلیوں میں سونے اور چاندی کی انگوٹھی بھی پہن لیتی تھیں، باریک کپڑوں سے ان کو سخت نفرت تھی- پردے کا اہتمام کرتیں، مدینہ منورہ میں ایک نابینا جن کا نام اسحق تھا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں مسائل دریافت کرنے کے لئے آیا کرتے تھے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان سے پردہ فرماتی تھیں، اسحق نابینا نے ایک دن کہا"میں تو اندھا ہوں، آپ مجھ سے پردہ کیوں کرتی ہیں؟" جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا "میں تو اندھی نہیں ہوں"- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فضیلتیں بہت ہیں- آپ رضی اللہ عنہا کے بارے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا " جس طرح تمام کھانوں میں بہتر ثرید ہے، اسی طرح تمام عورتوں میں بہتر عائشہ ہے"-
آپ کی ذات گرامی خوبیوں کا مجموعہ تھی، آپ کی ایک بڑی خوبی زہد و قناعت تھی، ساری زندگی فقر و تنگدستی میں گزاری مگر ایک حرفِ شکایت زبان پر نہیں لایا-
کہا جاتا ہے کہ آپ کے پاس کپڑوں کا صرف ایک جوڑا تھا، اسی کو دھو دھو کر پہنتی تھیں- کردار کا سب سے روشن پہلو ،ان کی سخاوت تھی- نہایت دریادل اور فیاض واقع ہوئیں- حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بہت قریب سے دیکھا تھا ، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے میں آپ کی ہر بات بڑا وزن رکھتی ہے- آپ کی روایات کی بڑی اہمیت ہے-
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ عدیم المثال ایثار تھا کہ آج فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ،شاہ لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوئے اقدس میں استراحت فرما ہیں-
وصال اقدس: 17 رمضان شب سہ شنبہ 57ھ یا 58 ھ میں مدینہ منورہ کے اندر آپ کا وصال ہوا- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کی وصیت کے مطابق رات میں لوگوں نے آپ کو جنت البقیع میں دوسری ازواج مطہرات کی قبروں کے پہلو میں دفن کیا- (زرقانی، اکمال حاشیہ الکمال)
عالم اسلام کے لئے رشد و ہدایت، علم و فضل اور خیر و برکت کا ایک عظیم مرکز بنی رہیں- آپ سے 2210 (دو ہزار دو سو دس) احادیث شریفہ مروی ہیں- بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ احکام شرعیہ کا ایک چوتھائی حصہ آپ سے منقول ہے-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے شاگردوں کی تعداد دو سو کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے- جس میں قاسم بن محمد،مسروق تابعی ، عائشہ بنت طلحہ ، ابو سلمہ ، عروہ بن زبیر اور ابو موسی اشعری وغیرہ رضی اللہ عنہم بہت مشہور ہیں-