حضرت پیران پیر ، غوث اعظم دستگیر رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی سید عبدالقادر ہے، آپ کے بے شمار القاب میں بازاشہب ، غوث اعظم ، محی الدین ، محبوب سبحانی وغیرہ مشہور القاب ہیں ، آپ نے جس گھرانے میں اپنی چشمان ِاقدس کھولی وہ پارسائی ونیکی کا خوگر ، علمی وروحانی اعتبار سے بے مثال ولاجواب گھرانہ ہے ، حضرت کی والدہٴمحترمہ پاکبازی اور تقوی وپرہیزگاری کا پیکر گزری ہیں ، حضرت کے والد ِماجد سید ابوصالح موسٰی جنگی دوست رحمہ اللہ نے ایک بار فاقہ کی وجہہ سے بہت لاغر ونحیف ہوچکے تھے ، دریا کے کنارے بیٹھے تھے کہ اچانک ایک سیب بہتا ہوا آیا ، شدتِ بھوک کی وجہہ سے آپ نے وہ سیب اٹھاکر کھالیا، پھر خیال آیا کہ نہیں معلوم یہ سیب کا مالک کون ہے اور اُس کا کھانا کیا میرے لئے جائز ہے؟ اس کی تلافی اور مالک سے اجازت کے لئے دریا کے کنارے کنارے کئی دن تک چلتے رہے ، آخر کار نہایت بڑا خوبصورت باغ نظر آیا جس کی ٹہنیاں نہر کے اوپر لٹک رہی تھیں، آپ نے سمجھ لیا کہ ہو نہ ہو سیب اسی باغ کا ہوگا ، جو ٹہنی سے ٹوٹ کر دریا میں بہتا رہا ۔
چنانچہ باغ کے مالک کے پاس پہنچ کر عذر پیش فرمایا اور ماجرا سناکر معافی کی درخواست کی،باغ کے مالک حضرت عبداللہ صومعی رحمة اللہ علیہ نے نورِباطن اور حالِ ظاہر سے جان لیا کہ یہ بندگان خدا میں خاص خدا رسیدہ معلوم ہوتے ہیں ، پھر فرمایا آپ کی معافی دوشرطوں پر ہوگی:ایک یہ کہ آپ بارہ سال تک ہمارے پاس رہیں اور دوسری شرط یہ ہے کہ میری صاحبزادی جو آنکھ سے نابینا ، کان سے بے شنوا اور ہاتھ سے لنجی اور پاؤں سے نہ چلنے والی ہے ، حضرت ابوصالح رحمة اللہ علیہ کو چونکہ حق معاف کروانا تھا ، آپ کے پیش نظر آخرت کا سودا تھا ، اس لئے حضرت عبداللہ صومعی رحمة اللہ علیہ کی ہر بات قبول کرلیا ، عقدِ نکاح کے بعد جب اہلیہٴمحترمہ کو دیکھا تو ہر طرح سے سلامت دیکھا، ساری رات تنہائی اور کنارہ کشی میں گزارکر صبح خسرعالی محترم سے اس بارے میں گفتگو کا تبادلہ ہوا تو آپ نے فرمایا: میری شہزادی ہر طرح کے عیب ونقص اور تمام گناہوں،نافرمانیوں اور خلاف اولیٰ باتوں سے پاک اور بری ہیں، انہوں نے آنکھ، کان، ہاتھ، پاؤں سے وہ کام نہیں کیا جو خلاف مرضیٴ الہی ہو، اسی لئے میں نے انکے یہ اوصاف بیان کئے تھے ۔
حضرت غوث الاعظم رحمة اللہ علیہ کی والدہٴ ماجدہ ام الخیر امة الجبار فاطمہ رحمھا اللہ کی حیات اور پاکدامنی، عفت ووقار سے خواتینِ اسلام کی زندگی میں نکھار پیدا کرنے کا درسِ عظیم ملتا ہے ، آج مسلم خوتین جس غفلت میں زندگی کے اوقات ضائع کررہی ہیں اُنہیں چاہئے کہ بار بار یہ واقعہ پڑھیں اور دیکھیں کہ اس میں ہمیں کتنی نصیحتیں اور اُخروی کامیابی گر ملتے ہیں، اس واقعہ سے حاصل ہونے والی چند باتیں یہ ہیں جو کردار سازی کی منہ بولتی تصویر ہیں ۔
٭رضاء الہی کے لئے بھوک پاس برداشت کرنا اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنا ضروری ہے ۔
٭کھانے پینے اور ضروریات زندگی کی اشیاء میں بحالتِ اضطرار بھی احتیاط کرنا اور پرہیزگاری کا دامن تھامے رہنا لازم ہے۔
٭جو اشیاء مشتبہ ہوں اور معلوم نہ ہو کہ اُن کا مالک کون ہے یا وہ کہاں سے آئی ہیں تو اُن کے استعمال سے بھی اجتناب کرنا چاہئے ۔
٭اگر کوئی نافرمانی اور خطا سرزد ہوتو رہتی زندگی تک اس کی بخشائش کے لئے کوشش کرلی جائے اور حقوق العباد کی معافی کے لئے جتنی سختیاں بھی برداشت کریں کم ہے۔
غوث اعظم کی پھوپی محترمہ اور بارانِ رحمت :
جس عظیم ہستی کا گھرانہ ولایت ومحبوبیت میں پرورش پایا ہواُس چمن کا ہرگل اپنی خاص رنگت اور خوشبو رکھتاہے ، حضرت غوث اعظم قدس سرہ کی پھوپی خدا رسیدہ،پاکباز خاتون گزری ہیں، آپ کا نامِ گرامی عائشہ بنت عبداللہ ہے ، آپ جو دعاکرتیں دربارِخداوندی میں قبول ہوتی،عوام وخواص اپنی حاجت براری کے لئے آپ سے دعاؤں کے ملتجی ہوتے ۔چنانچہ ایک مرتبہ اہل ِجیلان پر قحط چھاگیا، آسمان اپنی سخاوت پر بخیل بن گیا ، زمین سوکھ گئی تھی، غلہ اور دانہ کے لئے لوگ پریشان تھے، سب لوگ حضرت عائشہ رحمة اللہ علیہا کی خدمت میں دعاؤں کی گزارش لے کر آئے ، ان پر آپ کو رحم آیا ، آپ نے اپنے گھر کےصحن میں جھاڑو دی اور عرض کیا:یارب انا کنست فرش انت۔ پروردگار میں نےجھاڑو دیدی اور التجا ہے کہ زمین پر چھڑکاؤ کا حکم فرما ۔ یہ کلمات پورے نہ ہوئے تھے کہ بادل اُمڈ آئے،ہرطرف گھٹائیں چھاگئیں اور اتنی تیز بارش ہوئی کہ محسوس ہورہاتھا آسمان میں مشکیزوں کے منہ کھولدئے گئے ہیں اور لوگ پانی میں سے گزر کر گھر پہنچنے لگے۔﴿بھجة الاسرار ، ص 89، ذکر نسبہ وصفتہ﴾
غورکریں کہ اللہ تعالی کے پاس یہ مقبولیت پانے کے لئے حضرت عائشہ رحمة اللہ علیہا نے کیا کیا عبادتیں نہ کی ہوں اور رضا وتسلیم کی کٹھن منزلوں سے کیسے گزری ہوں؟ رات کی نیند دن کا چین قربان کر کے آپ نے یہ مقام پایا تھا ، آپ کی زندگی ہماری بہنوں کے لئے راہ ِہدایت کی شمع ہے۔