Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Anjuman-e-Qawateen

ماڈرن حجاب ۔ چہرہ بے نقاب۔قسط اول


معاشی اور مادی ترقی نے انسان کو پرندہ جیسی اڑان سکھادی لیکن شریعت کی سرزمین پر قدم جمانا ابھی تک صحیح طور پر نہ آسکا ، احکام اسلام پر عمل آوری اور استقامت فی الدین کے میدان میں مسلمان روز بروز روبہ پستی ہورہے ہیں ، ماڈرن زمانہ اور اس کی تہذیب نے دلوں پر اپنا نقشہ جمالیا ، یہ وہ دور ہے کہ جس میں اسلامی شعار وعبادات معمولات بھی بطور فیشن اور براہ عادت ادا کئے جارہے ہیں ۔

حجاب ، پردہ ، برقع یہ سب وہ الفاظ ہیں جن کی سماعت سے ہی عوام وخواص کے دل میں عظمت وتقدس پیدا ہوتا ہے اور نگاہ ہی نہیں قلوب بھی جھکے جاتے ہیں ، اس کو بھی ازراہ ِعادت بطور مجبوری اختیار کیا جارہاہے۔ شرعی حکم کے مطابق مردوخواتین ہر ایک کے لئے حجاب لازم ہے لیکن دونوں کے حجاب میں کچھ فرق ہے ، مرد کا حجاب ناف سے گھٹنوں کے نیچے تک ہے اور محرم مرد سے خواتین کا حجاب ، چہرہ ، ہاتھ کی کلایاں اور قدم کے سوا تمام بدن ہے ، غیرمحرم اور اجنبی شخص سے عورت کا مکمل پردہ کرنا اور اپنے تمام بدن کو چھپانا فرض ہے ۔

چہرہ ، پردہ کا اہم ترین جزء ہے:

فی زمانہ پردہ بھی مختلف طریقوں سے کیا جاتاہے ، ضعیف العمر خواتین یا پچاس ، پچپن سال کی عمر تجاوز کرنے والی خواتین عموما پردہ کا التزام نہیں کرتیں ، اور دینی اسلامی ماحول میں تربیت یافتہ باعزت خواتین سراپا پردہ کرتی ہیں ، جن عورتوں اور لڑکیوں پر مغربی دنیا نے اپنی چھاپ بٹھادی ہے وہ تو حجاب کو موت سے زیادہ خطرناک سمجھتی ہیں ، ان سب اقسام کے علاوہ ہمارے معاشرہ میں کچھ ماڈرن خیالات والی ایسی دوشیزائیں ہیں جو یہ سمجھتی ہیں کہ سوء قسمت سے وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں ، وہ سمجھتی ہیں کہ انہیں والدین اور مسلمان معاشرہ نے قید کردیا، نہ وہ آزادی کے پنجرہ میں قید ہوسکتی ہیں اور نہ ہی پردہ میں رہنے کی مکمل آزادی کو پسند کرتی ہیں ، اسی لئے حسب موقع جب کوئی روک لگانے والا یا ٹوکنے والا نہیں ہوتا تو جھوٹی آزادی کی امنگ جاگ اٹھتی ہے جو درحقیقت قید خانہ سے کچھ کم نہیں اور وہ دوشیزائیں اپنے آپ کو بے حجابی کے شکنجہ میں جکڑلیتی ہیں ، اور جب باعزت ، شریف مردو خواتین کی محافل یا انکی معیت میں رہتی ہیں تو بادل ناخواستہ بدن پربرقع تو ڈال لیتی ہیں لیکن چہرہ چھپانا انہیں گوارہ نہیں ہوتا، پردہ کی اس آزادی کو وہ قیدتصور کرتی ہیں ، عقل وفہم کی ماری ، بے چاری ہماری ان بہنوں کو کون سمجھائے کہ عورت جب تک پردہ میں رہتی صرف ایک کپڑے میں قید رہتی ہے ، یہ وہ قید ہے جس نے کئی قسم کی بیڑیوں اور بے حیائی وبے عزتی کی زنجیروں سے آزاد کیا ، اور جس بے پردگی کو وہ آزادی سمجھ رہی ہیں اس نام نہاد آزادی نے کئی درندوں اور وحشی نگاہ رکھنے والوں کی نظروں میں قید کردیا، انسانی بدن میں چہرہ اشرف الاعضاء ہے ، انسان کا حسن وجمال ، ملاحت ورنگت اسی سے ظاہر ہوتی ہے ، چنانچہ خواتین کاچہرہ بھی پردہ میں میں شامل کیا گیا۔

چہرہ کاحجاب ، قرآن کریم سے ثبوت:

چہرہ کھلا رکھنے کی صورت میں فتنہ بھڑکتااور فساد بپاہوتاہے ، اور مردوں کی نظریں منتشر ہوتی ہیں ، جس کا نتیجہ بے حیائی ، فسق وفجور کی شکل میں ظاہر ہوتاہے ، مردوزن اجنبیت کے باوجود جب جنسی تعلقات رکھتے ہیں تو معاشرہ بے شمارخرابیوں کا ٹھکانہ بنتاہے ، نسب میں اختلاط ہوتاہے ، حرام وحلال رشتوں کی تمیز ختم ہوتی ہے اور نہ جانے کیا کیا فساد پیداہوتے ہیں ، چنانچہ اللہ رب العزت نے عورتوں کو اپنا جسم بشمول چہرہ چھپانے کاحکم دیا ، جیساکہ فرمان الہی ہے : يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا۔

ترجمہ:اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنی ازواج مطہرات اور صاحبزادیوں اور جملہ مسلمان عورتوں سے فرمادیجئے کہ وہ اپنی چادریں بدن پر ڈال لیں۔(الاحزاب:59)

اس آیت کی تفیسر میں مفسرین نے پردہ اور لفظ جلباب کی جو تفیسر کی اس سے ظاہر ہے کہ چہرہ بھی اس میں شامل ہے اور اس کو چھپانا عورت کے لئے لازم ہے ، جیساکہ صاحب تفسیرخازن علامہ ابوالحسن علی بن محمد رحمہ اللہ نے لکھا ہے : جمع جلباب وهو الملاءة التي تشمل بها المرأة فوق الدرع والخمار۔ ترجمہ: جلباب کی جمع جلابیب ہے ، یہ وہ چادر ہے جس سے عورت اپنی اوڑھنی اور لباس چھپاتی ہے ۔ (تفسیر الخازن ، الاحزاب : 59)

چہرہ تو ڈھانکناہے ، بلاضرورت دو آنکھ بھی کھلی نہیں رکھنی چاہئے:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا:عورتیں جب گھر سے نکلیں تو سرکے اوپر سے ایسی چادر پہن لیں کہ جس سےچہرہ بھی چھپا رہے حتی کہ وہ آتے جاتے ایک انکھ سے دیکھیں ۔ چنانچہ امام سیوطی رحمہ اللہ نے تفسیر درمنثور میں لکھا ہے :عن ابن عباس رضي الله عنهما في هذه الآية قال : أمر الله نساء المؤمنين اذا خرجن من بيوتهن في حاجة ان يغطين وجوههن من فوق رؤوسهن بالجلابيب ويبدين عينا واحدة۔(الدرالمنثور، الاحزاب :59)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس فرمان میں چند اہم باتیں یہ ہیں :(1) بلاضرورت شرعی عورت کو گھر سے نکلنا نہیں چاہئے ، سخت حاجت درپیش ہو اور کوئی مرد وہ کام انجام نہ دے سکے تو بحالت مجبوری عورت کو نکلنے کی اجازت ہے یا وہ اپنے کسی محرم کے ساتھ نکلے ؛تاکہ فتنوں کا سدباب ہو ۔ (2) عورت گھر سے نکلے تو چہرہ چھپاکر نکلے ، Nose Pieceفی زمانہ معیوب سمجھا جارہاہے ، ماڈرن خواتین وحضرات یہ تصور بٹھائے ہوئے ہیں کہ جاہل ، پرانے خیالات والی عورتیںNose Piece لگاتی ہیں، خاص طور پر ایجوکیٹیڈ لڑکیاں اس سے دور رہتی ہیں ، ہماری ماڈرن حجاب کی دلدادہ بہنیں ذرا غورکریں!کیا قرآنی تعلیم پر عمل آوری جہالت ہے ؟ یہ تصور کسی یہودن ونصرانی عورت کا ہوتا تو کوئی تعجب نہ تھا!لیکن افسوس کہ اپنا نام مسلمان رکھنے والی ، رسمی عبادات کا اہتمام کرنے والی عورتوں میں بھی یہ باطل تخیلات پیدا ہوچکے ہیں ۔ (3) اسلام نے پردہ سے متعلق انتہائی احتیاط والی تدبیر یہاں تک بتادی کہ بحالت پردہ عورت اگر ایک آنکھ کھلی رکھتے ہوئے اپنی حاجت وضرورت پوری کرسکے تو اجنبی مَردوں کے سامنے اور بازار میں دو آنکھ کھلی نہ رکھے بلکہ ایک پر پردہ ڈالے اور اور دوسری کھلی رکھے۔(جاری ہے۔۔۔)