Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Anjuman-e-Qawateen

پڑوسیوں کے حقوق اور خواتین کا کردار۔قسط دوم


پڑوسی کی تکلیف پر صبر کا بدلہ

        عموماً یہ کہا جاتاہے کہ ایک پڑوسی تو تکلیف نہیں دیتا لیکن دوسرا اس کو اذیت دیتاہے اس کے بدلہ میں کوئی اقدام کیا جاتاہے ، جب ایک پڑوسی تکلیف دے تو دوسرا اس کا جواب دیتاہے ، چپ رہنے اور خاموشی اختیار کرنے سے اذیت دینے والے کی ہمت بڑھ جاتی ہے اور وہ مزیداذیت کی راہ لیتاہے ، اس نظریہ کا علاج حدیث شریف میں اس طرح آیاہے : "إن الله تعالى يحب الرجل له الجار السوء يؤذيه فيصبر على أذاه ويحتسبه حتى يكفيه الله بحياة أو موت" .

ترجمہ:اللہ تعالی اس شخص کو محبوب رکھتاہے جس کا پڑوسی اسے تکلیف دیتاہو اور یہ شخص اس کی اذیت پر صبرکرتاہو اور اس پر ثواب پانے کی نیت بھی رکھتاہو، آخرکار اللہ اس کوزندگی یاموت میں کافی ہوجاتاہے۔(کنزالعمال ،فی حق الجار ، حدیث نمبر:24893)

چاہے کچھ بھی ہو ہمسایہ کو اذیت نہ ہو:

        احادیث شریفہ میں مسلمان کے اوصاف وعادات مختلف کلمات میں بیان کئے گئے ہیں ، مسلمان اپنے ہاتھ ، پاؤں اور زبان وغیرہ سے کسی دوسرے کو اذیت نہ دے ، یہ مسلمانی کی علامت اور ایمان کی نشانی ہے اور مسلمان خود کے لئے جو پسند کرتاہے دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کرتاہے، جیساکہ حدیث شریف میں ہے : عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ » .

ترجمہ:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہو۔ (صحیح البخاری ،باب من الإيمان أن يحب لأخيه ما يحب لنفسه، حدیث 13)

        ایک ہمسایہ کا دینی تصور بھی یہی ہوتاہے کہ اس سے کسی دوسرے ہمسایہ کو اذیت وتکلیف نہ ہو ، اس کی اک بہترین تصویر ہمیں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب احیاء العلوم میں ملتی ہے ، عربی زبان وادب کے بہترین ومشہور ادیب عبداللہ ابن مقفع کے گھرمیں چوہے بہت تھے ، ملاقاتیوں نے بطور مشورہ کہا کہ آپ گھر میں بلی کیوں نہ رکھ لیتے ؟ تاکہ وہ چوہوں کا صفایا کردے ، آپ نے جواب میں کہا :مجھے یہ پسند نہیں ؛کیونکہ بلی کی آواز سن کر چوہے پڑوسیوں کے گھرجائینگے ، جو بات مجھے پسند نہیں میں دوسروں کو اس سے تکلیف دینا نہیں چاہتا۔ وشكا بعضهم كثرة الفأر في داره فقيل له: لو اقتنيت هراً؟ فقال: أخشى أن يسمع الفأر صوت الهر فيهرب إلى دور الجيران فأكون قد أحببت لهم ما لا أحب لنفسي۔(احیاء العلوم ، ج2)

        اس واقعہ نے پڑوسی کی آنکھیں کھولدیا، واہ کیا عجیب احتیاط ہے ، ایک طرف آج کا یہ  دور ہے کہ جس میں ہمارے مکان کا کچرا پڑوسی کے مکان کے سامنے رہتاہے اور گھر کی صفائی ہوتو پانی سے سارا کوچہ تربہ تر نظر آتاہے ، مکان میں کوئی تقریب ہوتو گلی کے راستے مسدود کرکے ہمسایوں کو بے جا اذیت دی جاتی ہے ، ایک مکان کا پرنالہ ہمسایہ کے صحن میں اترتاہے اور دوسری جانب احتیاط کا یہ عالم ہے کہ اپنے گھر میں بھی بلی اس لئے نہیں رکھی جاتی کہ کہیں چوہے پڑوسیوں کے گھر میں نہ چلے جائیں۔

پڑوسی قرض دار ہوتو اس کی مالی مدد کی جائے :

        ایک مسلمان پر دینی ذمہ داری یہ بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ بحیثیت ہمسایہ اپنے پڑوسیوں کے احوال اور ان کی ضروریات سے واقف رہے تاکہ بروقت ان کی معاونت میں حصہ لے سکے ، چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل فرمایا کہ عبداللہ بن مقفع کے پڑوس میں ایک شخص رہتا تھا ، جس کی دیوار کے سایہ میں وہ روزانہ بیٹھاکرتے تھے ، ایک بار انہیں معلوم ہوا کہ ان کا ہمسایہ اپنا مکان فروخت کرنا چاہتاہے تاکہ اس پرجوقرض کا بوجھ ہے وہ ہٹادے ، تو انہوں نے ہمسایہ کواتنی رقم بطورتحفہ بھیجاکہ وہ قرض اداکردے اور گھر فروخت نہ کرے۔وبلغ ابن المقفع أن جاراً له يبيع داره في دين ركبه وكان يجلس في ظل داره، فقال: ما قمت إذاً بحرمة ظل داره إن باعها معدماً فدفع إليه ثمن الدار وقال: لا تبعها۔ (احیاء العلوم ج 2ص)

ہمسایہ بزرگ خواتین سے استفادہ :

        ایک پڑوسی پردوسرے پڑوسی کے حقوق میں جہاں یہ آیا ہے کہ وہ مصیبت میں اس کے کام آئے ، ضرورت کے وقت اس کی مدد کرے ، وہیں اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پڑوس میں رہنے والوں کو دینی نظرسے بھی دیکھے کہ ان میں کون صاحبِ ولایت اور خدا رسیدہ ہے ، اگرکسی بندہ کو اللہ کا ولی پائے تو ان کی خدمت کرے اور ان سے استفادہ کرے ، بعض ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات وآثار ہوتے ہیں یا ان کو اپنے اجداد وآباء سے نعمتوں کا حصہ ملتاہے ، پڑوسی کا یہ حق ہے کہ ان حضرات سے خوب برکات حاصل کرے اور ان کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے ۔ چنانچہ بعض صحابیات سے متعلق احادیث شریفہ میں ہے : حَدَّثَتْنِي شَيْبَةُ بنتُ الأَسْوَدِ بنتِ عَمَّةِ أُمِّي، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي رَوْضَةُ، قَالَتْ:كُنْتُ وَصِيفَةٌ لامْرَأَةٍ بِالْمَدِينَةِ، فَلَمَّا هَاجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ، قَالَتْ لِي مَوْلاتِي رَوْضَةُ: قُومِي عَلَى بَابِ الدَّارِ، فَإِذَا مَرَّ هَذَا الرَّجُلُ فَأعْلِمِيني، فَقُمْتُ، فَأَتَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَأَخَذْتُ بِطَرَفِ رِدَائِهِ، فَتَبَسَّمَ فِي وَجْهِي، قَالَتْ شَيْبَةُ: وَأَظُنُّهُ مَسَحَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِي، فَقُلْتُ لِمَوْلاتِي: يَا هَذِهِ، هُوَ ذا قَدْ جَاءَ الرَّجُلُ، فَخَرَجَتْ مَوْلاتِي، وَمَنْ كَانَ مَعَهَا فِي الدَّارِ فَعَرَضَ عَلَيْهِمُ الإِسْلامَ فَأَسْلَمُوا، قَالَ: وَحَدَّثَتْنِي شَيْبَةُ، قَالَتْ: كَانَتْ رَوْضَةُ مَعِي فِي الدَّارِ فِي بني سُلَيْمٍ، إِذَا اشْتَرَى الْجِيرَانُ مَمْلُوكًا أَوْ خَادِمًا أَوْ ثَوْبًا أَوْ طَعَامًا، قَالُوا لَهَا: يَا رَوْضَةُ ضَعِي يَدَكِ عَلَيْهِ، فَكَانَتْ كُلُّ شَيْءٍ تَمَسُّهُ فِيهِ الْبَرَكَةُ. (المعجم الکبیرللطبرانی ، حدیث نمبر:20169)

        اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ روضہ نامی ایک صحابیہ کو ان کے بچپن میں ان کے مالک نے گھر کے باہر اس لئے ٹہرایا تھا کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے تشریف لے جائیں تو مجھے آواز دیں ، جب آپ وہاں سے تشریف لے جارہے تھے تو حضرت روضہ رضی اللہ عنہانے انہیں بتایا اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام لیا ، سرکار نے انہیں دیکھ کر مسکرایا اور دست مبارک ان کے سرپر رکھا ، شیبۃ تابعیہ نے فرمایا:حضرت روضہ رضی اللہ عنہا میرے گھر میں رہتی تھیں اور ان کی برکتیں اتنی عام اور مشہور تھیں کہ ہمسایوں میں جوبھی کچھ خریدلیتا جیسے غلام ، خادم ، کپڑے ، غذا، غلہ وغیرہ تو آپ کی خدمت میں لے کر آتے اور عرض کرتے کہ آپ ان پر ہاتھ رکھدیجئے! پھر جس پر بھی آپ اپنا دست مبارک رکھدیتیں اس میں برکتیں آجاتیں۔ اس سے خصوصاً خواتین کے لئے درس ملتاہے کہ ہمیں کسی بزرگ کا پڑوس ملے تو اس کی قدر کریں اور ان سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔