Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Anjuman-e-Qawateen

نیک عورت کی علامت۔قسط دوم


حکایت :

حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں ، آپ اطاعت گزاروفرمانبردار بیوی تھیں ، جن کی وجہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بھی ہمیشہ ان کی دلجوئی کیا کرتے تھے ۔

ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ کہیں باہر تشریف لے گئے تھے کہ ان کے اکلوتے فرزند کا انتقال ہوگیا، بیوی نے اُس پر چادر اڑھادی ، جب آپ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور دریافت کیا کہ لڑکا کہاں ہے ؟ تو بیوی نے کہا سورہاہے۔ اس کے بعد بیوی نے کھانا لاکر سامنے رکھا ، آپ نے سیرہوکر کھالیا اور بیوی کے ہمراہ آرام بھی فرمالیا، تب بیوی نے ان سے کہا:فلاں پڑوسی کو میں نے ایک چیز مستعار دی تھی جب واپس مانگی تو اس نے بڑا شور مچایا!آپ نے فرمایا:یہ بڑی نادانی ہے ، لوگ بھی کیسے احمق ہیں جو ایساکرتے ہیں ۔ بیوی نے کہا ہمارا لڑکا جو ہمارے پاس خدائے تعالی کا عطیہ اور امانت تھی حق تعالی نے واپس لے لیا۔ شوہر نے کہا :اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ۔

صبح کو انہوں نے یہ ماجرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا!حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کل رات تمہارے لئے مُبارک رات تھی جو اس نیک بخت بیوی کی وجہ تم کو نصیب ہوئی۔

حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :ایک روز حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف فرما تھے کہ ایک خادمہ نے حاضر ہوکر عرض کیا :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میرے آقا تجارت کے لئے باہر گئے ہوئے ہیں اور بی بی گھر میں تنہا ہے ، وہ مکان کے بالائی حصہ میں ہے اور نیچے اس کے ضعیف والدین مقیم ہیں ۔ میاں نے تاکید کی ہے کہ جب تک میں واپس نہ آجاؤں نیچے نہ اُترنا۔

اِس وقت بی بی کے والدین سخت علیل ہیں ، تیمادار کوئی نہیں ہے ، اِس لئے بی بی نے عرض کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو وہ نیچے اُتر آئے ۔

آپ نے فرمایا کہ اپنی بی بی سے کہدوکہ اگر وہ خدا ورسول کی خوشنودی چاہتی ہے تو چاہے اُس کے ماں باپ مرہی کیوں نہ جائیں مگر بغیر اجازتِ شوہر اوپر سے نیچے قدم نہ رکھے۔

کنیز چلی گئی اور اُلٹے پاؤں آکر عرض پرداز ہوئی کہ حضور بی بی کے باپ تو انتقال کرگئے ، ماں بھی جاں بلب ہے ، اب توحضور اجازت دیں !بی بی اُوپر پڑی رورہی ہے اور اپنے ماں باپ کے آخری دیدار سے بھی محروم ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لڑکی اچھی طرح سُن لے اور یاد رکھ !کہ جب تک اس کا شوہر خود آکر اُسے نیچے اُترنے کی اجازت نہ دے چاہے جوکچھ ہوجائے اُس کو نیچے اُترنا جائز نہیں ہے اور کہہ دے کہ خدا ورسول اور اپنے خاوندکی فرمانبرداری کرے، اُس کا اجر ملے گا۔

وہ لڑکی بے چاری پھر چلی گئی ۔ جناب سیدہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ ایک ہفتہ کے بعد وہ کنیز میرے پاس آئی تو میں نے پوچھا :نیک بخت لڑکی !تیری بی بی کا کیا حال ہے ؟ وہ کہنے لگی :قربان جاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر !اُن کے ماں باپ تو اُسی روز انتقال کرگئے ۔ دوروز کے بعد شوہر واپس آئے ، یہ کیفیت سُن کر سخت پریشان اور نادم ہوئے ، اپنی نیک بخت بیوی کی اس فرمانبرداری پر بے حداظہارِخوشنودی کیا ، اُسی دن بیوی نے خواب میں دیکھا کہ اُن کے والدین جنّت میں ہیں ، بیوی نے پوچھا کہ آپ لوگوں کے اعمال دُنیا میں تو ایسے نہ تھے کہ جنّت ملتی ، پھر یہ کیا ماجرا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا :بیٹی !تونے جو اپنے شوہر اور خدا اور رسول کا کہنا ماناتو اس کے صلہ میں خدائے تعالی نے ہم کو یہ نعمت عطا فرمائی ہے۔

حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:نیک عورت دین کا ستون اور گھر کی رونق ہوتی ہے ، اور اطاعتِ الہی میں شوہر کی مددگار ۔

عورت اپنی بدمزاجی وبدچلنی کے باعث شوہر کی زندگی کو تلخ بنادیتی ہے ، اور اس کے نزدیک یہ معمولی اور ہنسی کی بات ہوتی ہے ۔

حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :جوشخص عورت کی تکالیف پر صبر کرے ، اللہ تعالی اُسے حضرت ایوب علیہ السلام کے مثل اجر دیں گے ۔ اور جو عورت اپنے شوہر کی ظلم وزیادتی پر صابر رہے تو اس کو آسیہ بنت مزاحم (زوجۂ فرعون)کے مانند ثواب ملے گا۔

حالیہ انقلاب میں عورتوں کے متعلق ناگفتہ بہٖ حالات سنے جارہے ہیں ، وہ عورتیں پاک اور بے گناہ ہیں ، ان پر عیب لگانے والاخود گنہگار ہے ۔

پردہ عورت کی حیاء وشرم کو باقی رکھتا ہے ، پردہ نہ کرنے اور مردوں سے میل جول رکھنے سے حیاء وشرم کم ہوجاتی ہے ، شرم ناک واقعات بھی ہونے لگتے ہیں ۔ آنکھ ، کان ، ہاتھ ، پاؤں کا زنابھی ہوتاہے ۔ ان سب سے بچاؤ کی صرف ایک ہی صورت پردہ ہے ، جس کی قرآن اور حدیث میں تاکید ہے ۔

آج کل غیرمسلم اقوام کی صحبت اور ان کی تعلیم سے مسلمانوں میں بھی بے شرمی اور بے حیائی کا مادّہ بڑھ گیاہے ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان لڑکیاں بے پردہ سینما اور تماشے دیکھنے چلی جاتی ہیں ، آئے دن بُرے نتائج بھی بُھگتتی رہتی ہیں ۔ خدا کے لئے سنبھلو اور پردہ کا خاص خیال رکھو۔

جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندھوں سے بھی پردہ کرنے کی سختی کے ساتھ تاکید فرمائی ہے ۔

فقہاء رحمہم اللہ تعالی نے تو یہاں تک احتیاط برتی ہے کہ جوان بھتیجی وبھانجی کو حقیقی چچا وماموں سے بھی پردہ کا حکم دیاہے ۔

حضرت شاہ عبدالقادردہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فاسق وفاجر عورتوں سے بھی پردہ ضروری سمجھا ہے ، اس لئے ان سے بھی پردہ کرنے کی ضرورت ہے۔  

ماخوذاز:مواعظ حسنہ ، صفوۃ المحدثین حضرت محدث دکن سیدناعبداللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ