Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Anjuman-e-Qawateen

عورت کے حقوق اس کی ازدواجی حیات میں


ولادت سے موت تک جملہ حقوق عورت کو مرد کی طرح دئیے گئے، جب تک وہ کمسن ہو اس کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری والدین کے سر پر ہے اور اس کے بعد نکاح کا مرحلہ آئے تو اسے نکاح کا اختیار دیا گیا ، زبردستی اس کا نکاح کسی سے کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، عورت کی حیات کا یہ اہم ترین موڑ ہے جہاں سے وہ اپنی معاشرت خود بنانے اور ایسے خوش اسلوبی سے انجام دینے کی تمنائیں رکھتی ہے اس صورت میں اسے کسی بھی بے ضابطہ شخص سے جوڑ دیا جائے تو یہ اس پہ زیادتی ہی نہیں اس کی تمام امیدوں کو پاش پاش کرنے کے مطابق ہے۔

ان مرحلوں کے لئے بھی اسلام نے عورت کے جذبات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسی معقول ہدایات دی ہیں کہ عورت پر کسی طرح جبر و ظلم نہ ہوسکے۔

نکاح میں عورت کی پسند اور اس کے اختیار کے مسئلے میں بالعموم بڑی افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ معاشرہ نے کہیں تو عورت کو بالکل بے دست و پا بنادیا ہے، اس کی پسند و نا پسند کی کوئی پروا نہیں کی جاتی اور کہیں ایسا بااختیار بنادیا ہے کہ ماں باپ اور اس کے سرپرستوں کی رائے اور مشورے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔

اسلام نے اس افراط و تفریط کے مقابلے میں یہ راہِ اعتدال اختیار کی کہ ایک طرف ولی (سرپرست)کی ولایت اور اجازت کو ضروری قرار دیا۔اور فرمایا:لا نکاح الا بولی۔ترجمہ: ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں۔(سنن ابی داود، کتاب النکاح، باب فی الولی، حدیث نمبر:2085)

دوسری طرف عورت کی رضامندی اور اس کی اجازت بھی ضروری قرار دی گئی ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے:لا تنکح الایم حتی تستامر۔ ترجمہ:بیوہ عورت کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے۔اور:لا تنکح البکر حتی تستاذن۔کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔(صحیح البخاری، النکاح، باب لا ینکح الاب وغیرہ البکر و الثیب الا برضاھما، حدیث نمبر:5136)

بے شادی شدہ کنواری عورت میں شرم Ùˆ حیاء زیادہ ہوتی ہے، اس لئے اس سے اجازت طلبی کا مسئلہ مشکل تھا، اسے بھی شریعت Ù†Û’ اس طرح حل فرمادیا کہ ’’باکرہ‘‘ Ú©ÛŒ خاموشی ہی اس Ú©ÛŒ اجازت اور رضامندی ہے۔جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:فان البکر تستامر فنستحی فشکت قال سکاتھا اذنھا۔(صحیح البخاری، باب لایجوز نکاح المکرہ، حدیث نمبر:6946)

عورت کی رضامندی اوراس کی اجازت کی شریعت میں کتنی اہمیت ہے، اس کا اندازہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک واقعے سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک خاتون، خنساء بنت خدام انصاریہ، کا نکاح ان کے والد نے ان کی اجازت کے بغیر کردیا۔انہیں یہ رشتہ ناپسند تھا۔ انہوں نے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حال پیش فرمایا تو آپ نے اس کو ناپسند فرمایا اور نکاح رد کردیا یعنی کالعدم قرار دے دیا۔(صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب اذا زوج الرجل ابنتہ وھی کارھۃ فنکاحہ مردود، حدیث نمبر:5138)

شادی کے بعد اگر خاوند عورت کے نزدیک ناپسندیدہ ہو، اس سے جدائی کے لئے عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے، جس طرح مرد کو ناپسندیدہ بیوی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے طلاق کا حق حاصل ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مرد کو تو طلاق کا حق ہے، لیکن اس کے مقابلے میں عورت مجبور ہے۔ وہ اگر خاوند کو ناپسند کرتی ہے تو اس کے لئے اس سے نجات حاصل کرنے کی کوئی صورت نہیں،شرعی حقوق سے ناواقف لوگ ایسی باتیں کہتے ہیں۔

مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں اسلام نے عورت کو حق خلع عطا کیا ہے، البتہ اس نے مرد و عورت دونوں کو یہ تاکید کی ہے کہ دونوں اپنا یہ حق انتہائی ناگزیر حالات ہی میں استعمال کریں۔

اسی طرح شریعت اسلامیہ نے مرد کو طلاق دینے کے بعد رجوع کا حق دیا ہے لیکن اس کی حد مقرر فرمائی کہ عدت کے اندر رجوع کرلے یہ اختیار بھی صرف دو طلاق رجعی دینے تک ہے، تیسری طلاق جیسے واقع ہوئی بیوی نکاح سے نکل جاتی ہے ،اب شوہر کو بلا حلالہ اسی عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں، بار بار عورت کو رجوع کرلینے کا حق دیا جاتا تو اس میں عورت پر ظلم کی صورت ہوسکتی تھی کہ طلاق دینے کے بعد عدت کے اندر بار بار مرد رجوع کرلے اور اس طرح عورت کو نہ آباد کرے نہ آزاد کرے اور وہ بیچ میں معلق رہے، جس طرح زمانۂ جاہلیت میں عورت کو اس طرح تنگ کیا جاتا تھا کہ نہ اس کو طلاق دیتے تھے نہ آباد کرتے تھے،طلاق دیتے اور عدت گزرنے سے قبل ہی رجوع کرلیتے، پھر طلاق دیتے اور پھر عدت گزرنے سے قبل رجوع کرلیتے اور یہ سلسلہ سالہا سال تک اس طرح معلق چلتا رہتا۔

شریعت نے اس ظلم کے انسداد کے لئے حق طلاق کو محدود کردیا کہ مرد دو مرتبہ تو طلاق دینے کے بعد رجوع کرسکتا ہے، لیکن تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع کا بالکل حق نہیں رہتا۔