Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Anjuman-e-Qawateen

ماں کی مفید نصیحت سے بیٹی کی زندگی سنور تی ہے


والدین اپنی بچیوں کی بڑی محنت اور توجہ سے پرورش کرتے ہیں ، کمسنی سے زمانۂ بلوغ تک ان کی تمنائیں اور خواہشیں پوری کرتے رہتے ہیں ، لذیذ غذائیں ، بہترین لباس ، عمدہ زیور فراہم کرتے ہیں ، زیب وزینت کے سامان کی جب مانگ ہونے لگتی ہے تو فورا حاضر کئے دیتے ہیں ، یہ سب ناز برداری اور محبت کا اظہار اس لئے ہوتاہے کہ اولاد اپنے والدین کے لئے خوشبودار پھول ہوتی ہے ، جس سے ماں باپ کے قلب معطر رہتے ہیں ، جب اولاد،والدین کے قریب آتی ہے اور ان کی گود میں کھیلنے لگتی ہے تو والدین کا ایک ایک رونگٹا مسرت سے جھومنے لگتاہے ، اولاد کو عموماً باپ کی شفقت واحسان اور ماں کی محبت وپرورش ملتی ہے ، لڑکا ہو یا لڑکی ، جب ہوشمند، صاحب فکر ہوجاتے ہیں تو اپنے احساسات وخیالات کا اظہار اکثر ماں سے کرتے ہیں ، کیونکہ بچپن سے ان کا اکثر وقت ماں کی ممتا کے سایہ تلے گزرتاہے ، باپ کا وقار ورعب اولاد کو اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے احساس وفکر میں باپ کو شامل کریں ، اس اعتبار سے ماں ہی وہ فردِخاندان ہے جس کے دامن میں اولاد کا ظاہر اور قلب میں پروان چڑھنے والے خیالات دونوں رہتے ہیں ، چنانچہ بیٹے کی بنسبت بیٹی کی زندگی کے تمام پہلو بچپن ، بلوغ ، شادی کے بعد کی زندگی کو سنوارنا اور تابناک بنانا ماں کی باگ ڈور میں رہتاہے ، والدین کی اہم ترین ذمہ داری اولاد کی بہتر تربیت کرنا اور ان کے اخلاق سنوار کر حسن اخلاق کا پیکر بنانا ہے ، حضور اکرم سیدِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کی تربیت کرکے ان کی شادی کرنے والے ماں باپ کو جنت کی بشارت عطا فرمائی، چنانچہ سنن ابوداؤد میں حدیث پاک ہے: عن أبى سعيد الخدرى قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من عال ثلاث بنات فأدبهن وزوجهن وأحسن إليهن فله الجنة.

ترجمہ :حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ ارشاد فرمایا: ”جس شخص Ù†Û’ تین بیٹیوں کا بار اٹھایا اور ان Ú©ÛŒ اچھی تربیت Ú©ÛŒ اور ان Ú©Û’ ساتھ اچھا سلوک کیا اور پھر ان کا نکاح بھی کر دیا تو اس شخص Ú©Û’ لیے جنت Ú©ÛŒ بشارت ہے”Û”(سنن ابوداؤد،کتاب الادب ØŒ باب فی فضل من عال یتامی ØŒ حدیث نمبر:5149)
بیٹی کی شادی اور ماں کا کردار:

مسلمان لڑکیاں جب عمر بلوغ تک پہنچ جائیں تو ان کو رشتۂ نکاح سے جوڑدینا والدین کا دینی اہم ترین فریضہ ہے ، اس مرحلہ سے گزرنے کے وقتِ اخیر یعنی شادی کے وقت ماں کی ذمہ داری اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی لڑکی کو خود سے جدا کرنے والی ہے ، اسی لئے اسے ایسی تدابیر سکھانا چاہئے جس پرعمل کرکے وہ والدین سے جدائی کی زندگی میں بھی خوشحال رہے ، ماں کو یہ بتانا چاہئے کہ بیٹی !اب تمہارا گھر، ٹھکانہ، اور جائے سکونت ایک ہی ہے وہ تیرے خاوند کامکان ہے ، دکھ درد میں تیری ماں کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے گا، لیکن شوہر کی ناراضی کے ساتھ لوٹے گی تو یہ دروازہ تجھے داخل ہونے نہیں دے گا، اب سے اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی بھی تیرے شوہرکی خوشنودی میں ہے ، یاد رکھنا چاہئے کچھ بھی ہو شوہر کوتو اپنی خدمت سے خوش رکھا کر، اس سے تجھے اس کی محبت وشفقت کے پھول ملیں گے ، یہ وہ تعلیم ہے جو دین اسلام نے ایک ماں کو دی ۔

اس کے برخلاف جب وداعی کا وقت آتا ہے تو ماں یہ نہیں کہہ سکتی کہ تو شوہر کو اپنے قبضہ میں رکھنا ، وہ تیرا مشتاق ہوتو اس سے دوری اختیار کرنا ، اس کی ہر طلب جلد پوری نہ کرنا ، اِس طریقہ سے شوہر تیرا دلدادہ رہے گا اور کھانے پینے کاسامان تیزی کے ساتھ فراہم نہ کرنا ، ایسا کرنے سے وہ تیری ذمہ داریاں اضافہ کرتارہے گا ور یاد رکھ شوہر کے والدین کاکوئی کام تجھ پر ضروری نہیں ہے ، اس سے پیچھا چھڑانے کے لئے تو اکثر بیماری ومرض کا بہانہ کرتی رہنا، اور یاد رکھ کام تیزی سے کروگی تو گھرکا ہرکام تیرے سرپر دھرا رہے گا، اسی لئے تساہل سے کام لیا کر ؛ تاکہ تیری صحت برقرار رہے ۔

یہی وہ تصورات وتعلیمات ہیں جن سے آج مسلم خواتین کی زندگی مثل جہنم بنی ہوئی ہے ، آج ہمارے معاشرہ میں جتنی کثرت سے شادیاں رچائی جارہی ہیں اتنی ہی تیزی سے طلاق کا نتیجہ سامنے آرہاہے ، اس فساد وبگار کاسبب نوشہ اور دلہن کی غیر مفید تربیت ہے اور اس میدان میں عموماً ماں اہم رول اداکرتی ہے ، ہماری مسلم خواتین کو چاہئے کہ پہلے وہ خود دینی تعلیمات سے واقف ہوں اور اپنی اولاد کی اسی نہج پر تربیت کریں ؛ تاکہ خود اپنا اور دوسروں کا گھر شادی کے بعد بھی آباد وشاداب رہے ، سابقہ دور کی ماں اولاد کی تربیت کی راہ سے کیا کردار رکھتی تھی ؟ اس کی ایک مثال یہاں درج کی جارہی ہے:

رخصتی کے وقت ماں نے دس نصیحتیں کی :

ایک ماں نے اپنی بیٹی کو شادی کے بعد رخصتی کے وقت کہا:بیٹی !آج تو میرا گھر چھوڑ کر جارہی ہے، یہ وہ گھر ہے جہاں تو پیدا ہوئی ، پروان چڑھی ، اس کو چھوڑ کر تو ایسے شخص کے پاس جارہی ہے جو زندگی میں پہلی بار تجھ سے ملاہے ، وہ اجنبی ہے اور اس کے گھر میں تجھے ایسے ہم سفر ملیں گے جنہیں تو نہیں جانتی ، تو اس کی غلام بن جا !وہ تیرا غلام بن جائے گا ، میری دس نصیحتیں یاد رکھنا جو تیرے پاس بڑا ذخیرہ رہینگیں ۔

1.�� اللہ تعالی نے جو عطافرمایا اس پر ہر حال میں راضی رہنا ، قناعت اختیار کرنا ۔

2.�� یاد رکھو شوہر کی اطاعت ہمیشہ کیا کر ، اس کی اطاعت تیری ذمہ داری ہے ۔

3.�� شوہر کی نظر کا خیال رکھنا ، وہ تجھے اچھی اور بہترحالت میں دیکھا کرے ، کوئی کام ایسا نہ کرنا جس کو کرتے دیکھنا اُسے پسند نہ ہو ۔

4.��� اس کی ناک کا خیال رکھنا ، یعنی تو ایسی حالت میں رہنا کہ وہ تجھ سے ناگوار بو محسوس نہ کرے۔

5.�� اس کے کھانے کا لحاظ رکھنا ، وقت پر اچھا لذیذ کھانا پیش کرنا ، کیونکہ بھوک کی شدت آدمی کو بھڑکاتی ہے ۔

6.�� اور اس کی نیند کے وقت خلل نہ ڈالنا کہ نیند میں خلل ہونے سے غصہ آتاہے ۔

7.�� اس کے مال کی حفاظت کرنا ، اس کی غیرموجود گی میں تو امانت دار ہے۔

8.�� شوہر کے عیال اور اولاد اور اس کی جاہ وعزت کا لحاظ رکھنا تجھ پر لازم ہے ، تو کوئی ایسا عمل نہ کرنا جس سے اس کی بے عزتی ہو۔

9.�� اس کے حکم کی کبھی نافرمانی نہ کرنا۔

10.��������������������� اس کاراز کبھی نہ کھولنا۔

یہ سب نصیحتیں اگرچہ ایک ماں نے اپنی بیٹی کو کی ہے ، یہ ماں کے اپنے تفکرات وخیالات نہیں ہیں بلکہ ایک حقیقت سے اس نے پردہ اٹھایا ہے ، اور یہ نصیحتیں ارشادات ربانی وفرامین مصطفوی کا لب لباب ہے ، کاش کہ آج کی مسلم خواتین ان کو اپنی آنکھوں سے لگا لے تیں اور اپنے خانۂ دل کو ان نصیحتوں سے مزین کرتیں ۔

اللہ تعالی مسلم معاشرہ کی ڈوبتی کشتی کانگہبان ہے اور وہی اس کو پار لگانے والاہے۔