Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Anjuman-e-Qawateen

جرأت ودلیری


شجاعت وبہادری ، جرأت ودلیری یہ وہ صفات حمیدہ ہیں جو خواتین کے بالمقابل مرد حضرات میں زیادہ پائے جاتے ہیں ، عموما مرد شجیع ودلیر ہوتے ہیں اور خواتین خوفناک حالات سے ڈرجاتی ہیں اور پست ہمتی ان پر چھاجاتی ہے ، لیکن اسلامی تاریخ کے صفحات میں ہمیں ایسی بہادر وشجیع خواتین کے تذکرے ملتے ہیں جنکی بلند ہمتی واعلی ظرفی کے سامنے داراورستم کی قوتیں ماند پڑتی اور پست ہوتی ہیں ، ان جاں نثاران اسلام میں حضرت سیدتنا اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہماکا نام نامی آفتاب ومہتاب کے مانند نیروروشن ہے ۔

        حجاج بن یوسف نے بادشاہ عبدالملک کے حکم پر حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور نعش مبارک کو سرعام لٹکادیا، حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہمااپنے صاحبزادے کی نعش مبارک کے پاس تشریف لے گئیں اور نعش الٹی لٹکی ہوئی دیکھ کر دل تھام کر نہایت استقلال سے فرمایا: کیا اس سوار کے گھوڑے سے اُترنے کا وقت نہیں آیا ، حجاج نے لوگوں کو بھیج کر کہلوایا :اُنہیں حجاج نے بلایا ہے ۔ آپ نے اس کے پاس جانے سے انکار کیا ، آپ کی شجاعت اور بے پرواہی دیکھ کر حجاج خود آیا اور معاذاللہ کہا:یہ تو منافق ہیں ۔ آپ نے فرمایا:بخدا یہ منافق نہ تھے بلکہ بے حد روزہ دار اور کثرت سے قیام کرنے والے تھے اور فرمایا:میں نے سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:قبیلہ ثقیف سے ایک جھوٹا اور ایک ظالم نکلے گا ۔ جھوٹے کو میں نے دیکھ لیا اور ظالم تو توہی ہے ۔

        جیساکہ اسدالغابۃ میں ہے : وقال يعلى بن حرملة: دخلت مكة بعد ما قتل ابن الزبير، فجاءت أمه امرأة طويلة عجوزاً مكفوفة البصر تقاد، فقالت للحجاج: أما آن لهذا الراكب أن ينزل؟ فقال لها الحجاج: المنافق؟ قالت: والله ما كان منافقاً، ولكنه كان صوّاماً قواماً وصولاً. قال: انصرفي فإنك عجوز قد خرفت. فقالت: لا والله ما خرفت، ولقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " يخرج من ثقيف كذّابٌ ومبير " أما الكذاب فقد رأيناه، وأما المبير فأنت المبير. تعني بالكذاب المختار بن أبي عبيد.(اسد الغابۃ، عبداللہ بن الزبیر،ج2ص111)

        یہ وہ بہادری ہے جو بڑے بہادر انسان میں بھی نہیں پائی جاتی ، ظالم وجابر بادشاہ کے سامنے دوٹوک انداز میں حق گوئی کرنا سب سے افضل وبہتر جہاد قرار دیا گیا، اس کام کے لئے آہنی قلب کی ضرورت ، پہاڑوں جیسی ثابت قدمی اور موجوں کے مثل روانی وتیزی چاہئے ، ظالم وجابر بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا خود کہنے والے کے لئے بڑے اندیشے ہوتے ہیں ، اسی لئے حدیث شریف میں اس کے متعلق بڑی بشارت دی گئی ہے : عن أبى سعيد الخدرى قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- « أفضل الجهاد كلمة عدل عند سلطان جائر ». أو « أمير جائر ».

        ترجمہ:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :فرمایا:سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:راہِِ الہی میں بہترین وافضل لڑائی ظالم بادشاہ کے پاس حق بات کہنا ہے ۔ (سنن ابو داؤد ، باب الامر والنھی ، حدیث :4346)

        سیدتنا اسماء رضی اللہ عنہا نے راہ خدا میں بے شمار مصیبتیں اٹھائی اور کئی مشقتیں برداشت فرمائی ، یہاں تک کہ صاحبزادہ کی شہادت گوارہ کیں لیکن پست ہمتی وبزدلی کو اپنے پاس آنے نہ دیا ، اپنی توانائیاں اور اولاد آپ نے دین اسلام پر قربان کرکے مسلمان خواتین کو درس دیا کہ ظلم وستم کے پہاڑ سے بھی مقابلہ کیوں نہ ہو؟ ایک مسلمان عورت کا ایمان اور جذبہ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کم نہیں ہوتا، جذبۂ عشق ومستی کا اک طرف یہ معیار تھا اور آج ہم مسلمانوں کے پاس دین اسلام پر خرچ کے لئے نہ مال ہے نہ وقت اور نہ ہی مخالفانہ اسلام لیکچرس وغیرہ سے ہم میں کوئٰی حمایت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، بہرحال ان مقدس خواتین کی حیات ہماری دنیا وآخرت سنوارنے کے لئے کافی ہے ، نہ ہمیں یہودی تہذیب چاہئے نہ نصرانی تمدن کی ضرورت ہے ۔

عبادت کا ذوق وشوق:

        حضرت سیدتنا اسماء رضی اللہ عنہا نہایت عبادت گزاری ، شب بیداری کیا کرتی تھی، رجوع الی اللہ ، دربارِالہی میں حضوری آپ کا وصفِ خاص تھا ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ  وسلم جب عبادت فرماتے تو آپ فرط اتباع واطاعت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتی تھیں، ایک بار جب سورج گہن ہوا تو نماز اداکی گئی  ، صحابہ کرام مسجد میں نماز ادا کررہے تھے ، صحابیات بھی نماز میں شامل ہوئیں ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز طویل فرمائی ، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا پر گرانی محسوس ہونے لگی ، آپ کے بازو دو اور خواتین تھیں ، جن کو دیکھ کر آپ نے خود کو تسلی دی کہ جب یہ بہنیں نماز پڑھ رہی ہیں تو مجھے بھی تکمیل کرنی چاہئے ، آخرکار آپ پر غشی طاری ہوئی ، اس کے باوجود آپ نے نماز نہ چھوڑی ، پھر جب چہرہ پر پانی کا چھڑکاؤ کیا گیا تو آپ کو ہوش آیا ، جیساکہ صحیح بخاری میں ہے : عن أسماء بنت أبى بكر - رضى الله عنهما - أنها قالت أتيت عائشة - رضى الله عنها - زوج النبى - صلى الله عليه وسلم - حين خسفت الشمس ، فإذا الناس قيام يصلون ، وإذا هى قائمة تصلى فقلت ما للناس فأشارت بيدها إلى السماء ، وقالت سبحان الله . فقلت آية فأشارت أى نعم . قالت فقمت حتى تجلانى الغشى ، فجعلت أصب فوق رأسى الماء ۔۔۔۔(صحیح البخاری ، الکسوف ، باب صلوٰۃ النساء ، حدیث نمبر:1053)

        حدیث مذکور سے عبادت کا شوق اور جذبہ ظاہر ہوتاہے ۔

        جاں نثاران اسلام خواتین کی یہ عبادات  اور ہمہ تن رجوع اللہ رہنا ، اِس زمانہ کی خواتین کو جھنجوڑتا ہے کہ گھر کے کام ،شوہر کی خدمت اور اولاد کی تربیت کے ساتھ عبادت خداوندی کے لئے جب ان صحابیات ، صالحات وطیبات اپنے اوقات وقف فرمادیتیں تھیں ، آج ہمیں یہ وقت درکار کیوں نہیں ہوتاہے ؟ کیونکہ آج ہمارے رات دن ٹی وی ، سیریلس اور فلم بینی میں گزرتے ہیں ، کاش آج کا معاشرہ سجھ لیتا ، ہماری اس غفلت نے ہمیں کہاں تک ڈبودیا؟۔