Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Anjuman-e-Qawateen

اسلام نے عورت کو کیسی عزت بخشی ؟ چند اصول کے آئینہ میں


 

قبل اسلام عورت Ú©ÛŒ جو حالت تھی، محتاجِ ِبیان نہیں ØŒ اہل علم اس سے پوری طرح واقف ہیں کہ اسلام Ù†Û’ اسے قعر مذلت Ø³Û’ نکالا اور عزت Ùˆ احترام Ú©Û’ مقام پر فائز کیا۔ عورت وراثت سے محروم تھی، اسے اپنے والدین وغیرہ کا وارث بنایا۔ نکاح Ùˆ طلاق میں اس Ú©ÛŒ پسندیدگی Ùˆ ناپسندیدگی کا قطعاً کوئی دخل نہ تھا، اسلام Ù†Û’ نکاح Ùˆ طلاق میں اسے خاص حقوق عطا کئے۔ اسی طرح اسے وہ تمام تمدنی Ùˆ معاشرتی حقوق عطا کئے جو مردوں Ú©Ùˆ حاصل تھے۔

بحیثیت انسان،عورت بھی مرد ہی کی طرح انسانی بزرگی و احترام کی مستحق ہے۔ اس لحاظ سے مرد و عورت کے مابین کوئی فرق نہیں۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو :خلقکم من نفس واحدۃ۔ ترجمہ:تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا۔ (النساء:1) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:انما النساء شقائق الرجال۔ ترجمہ:عورتیں تو بس مردوں کی ہم جنس ہیں۔(سنن ابی داؤد، الطھارۃ، باب: فی الرجل یجد البلۃ فی منامہ، حدیث نمبر:236)

’’شقیقہ‘‘کا مطلب ہے پیدائش اور طبیعت میں یکساں ہونا۔چنانچہ امام خطابی لکھتے ہیں:ای نظائرھم وامثالھم فی الخلق والطباع فکانھن شققن من الرجال۔ عورتریں پیدائش اور طبعی اوصاف میں مردوں ہی Ú©ÛŒ طرح ہیں، گویا کہ وہ مردوں ہی سے Ù†Ú©Ù„ÛŒ ہوئی ہیں۔

اسلام نے عورت کے بارے میں یہ تصور غلط قرار دیا کہ عورت،مرد کے مقابلے میں ذلیل و حقیر مخلوق ہے، اور واضح طور پر صراحت کردی کہ شرف انسانیت کے لحاظ سے مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں۔

اسلام میں فضیلت ذلت کی وجہہ یہ نہیں ہے کہ فلاں مرد اور فلاں عورت ہے، اس لئے مرد افضل اور ذلیل ہے، بلکہ شرف و فضل کا معیار ایمان و تقویٰ ہے۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:ان اکرمکم عند اللہ اتقکم۔ترجمہ:اللہ کے نزدیک تم میں سب سے معزز وہ ہے، جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے۔(الحجرات: 13)

قرآن کریم نے مرد و عورت کے بلا فرق محض ایمان و عمل پر کامیاب زندگی کی بشارت دی، بیان فرمایا:من عمل صالحا من ذکر او انثی وھو مؤمن فلنحیینہ ، حیوۃ طیبۃ ولنجزینھم اجرھم باحسن ما کانوا یعملون۔ ترجمہ:جس کسی نے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، عمل صالح کیا درآں حالیکہ وہ مومن ہے تو ہم اس کو پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ان کے بہترین عملوں کا ضرور بدلہ دیں گے۔(النحل: 98)

ایک اور مقام پر فرمایا:انی لا اضیع عمل عمل منکم من ذکر او انثی۔ ترجمہ:میں تم میں سے کسی کام کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کروں گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ (آل عمران: 195)

اور اس مفہوم کو سورۂ احزاب میں تفصیل سے بیان کیا،فرمایا: ان المسلمین والمسلمٰت والمومنین والمومنٰت والقٰنتین والقٰنتٰت والصٰدقین والصٰدقٰت والصٰبرین والصٰبرٰت والخشعین والخٰشعٰت والمتصدقین والمتصدقٰت والصٰٓئمین والصٰٓئمٰت والحٰفظین فروجھم والحٰفظٰت والذٰکرین اللہ کثرا والذٰکرٰت اعد اللہ لھم مغفرۃ واجرا عظیما۔ ترجمہ: بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں، راست گو مرد اور راست گو عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، خشوع کرنے والے مرد اور خشوع کرنے والی عورتیں، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں، روزے دار مرد اور روزے دار عورتیں، شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اللہ کو بہت یاد کرنے والے مرد اور اللہ کو بہت یاد کرنے والی، عورتیں، اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لئے مغفرت اور اجرعظیم تیار کیا ہے۔(الاحزاب:35)

ایمان اور اعمالِ صالحہ،فلاح ابدی کے ضامن ہیں، مرد و عورت میں جس کا ایمان زیادہ پختہ و کامل ہو اور اعمال للہیت سے سرشار ہوں وہی کامیاب ہوگا جو بھی اپنی سیرت و کردار کو اس سانچے میں ڈھال لے گا، وہ اللہ کی بارگاہ میں معزز ہوگا اور جو ایمان و عمل صالح سے محروم ہوگا، وہ مستحق عذاب ہوگا۔ قطع نظر اس بات کے کہ اس کا تعلق صنف ذکور سے ہے یا صنف اناث سے۔ مرد ہی سے دنیا کی خوبصورتی اور مرد سے ہی کام کی تکمیل نہیں ہوتی، اسلام نے عورتوں کو بھی اس عالم کا اک حصہ بنایا، عورت شوہر کے لئے زینت، باپ کے لئے عزت، معاشرہ کے لئے ناسور ہے، اسلام نے اسے زندگی کا نسخہ بنایا،لیکن اسلام سے قبل لڑکی کی ولادت کو منحوس سمجھا جاتا تھا حتی کہ بعض درندہ صفت لڑکی کو زندہ درگور تک کردیتے تھے۔ زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کے اس رویے کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے: واذا بشر احدھم بالانثی ظل وجہہ مسودا وھو کظیم۔یتوریٰ من القوم من سوء ما بشر بہ ائمسکہ علی ھون ام یدسہ فی التراب۔ (النحل:58-59) جب ان میں کسی کو لڑکی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے، تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور غصہ میں وہ گھٹ رہا ہوتا ہے وہ اس خبر کو برا سمجھتے ہوئے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس ذلت کو برداشت کرے یا اس کو مٹی میں دبادے۔اس فعل شنیع کو ظلم کہا جائے تو بھی اس کی مذمت کے لئے کافی نہیں، دور جاہلیت کی یہ درید دہنی و درندگی کا سد باب اس طرح کیا گیا کہ اسلام نے ان کے اس رویے کی سخت مذمت کی اور بچیوں کو اس طرح زندہ درگور کرنے سے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ اگر کسی نے اس فعل شنیع کا ارتکاب کیا تو اس سے بارگاہ الٰہی میں باز پرس ہوگی۔ جس کو زندہ دفن کی اگیا اس کی تائید کرتے ہوئے بطور ہمدردی پوچھا جائے گا تیرا کیا جرم تھا جو تجھے مارد دیا گیا، چنانچہ ارشاد ہے:واذا الموؤدۃ سئلت۔ بای ذنب قتلت۔ (التکویر: 9-8 )نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لڑکے کے مقابلے میں لڑکی کو حقیر سمجھنے اور اسے زندہ درگور کرنے کی مذمت بیان فرمائی اور بچیوں کی پرورش اور ان کی تعلیم و تربیت کے فضائل بیان فرمائے، فرمایا: من کانت لہ انثی فلم یئدھا ولم یھنھا ولم یوثر ولدہ علیھا قال: یعنی الذکور۔ ادخلہ اللہ الجنۃ۔ترجمہ:جس کو لڑکی ہوئی اس نے اسے زندہ درگور نہیں کیا، نہ اسے حقیر سمجھا اور نہ لڑکے کو اس پر ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔(سنن ابی داود، باب فضل من عال یتامی، حدیث نمبر:5148)

اور فرمایا: من عال ثلاث بنات، فادبھن وزوجھن، واحسن الیھن، فلہ الجنۃ۔ ترجمہ: جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی، ان کی تعلیم و تربیت کی، ان کی شادیاں کیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو اس کے لئے جنت ہے۔(سنن ابی داود، باب فی فضل من عال یتامی، حدیث نمبر:5149)

ثلاث اخوات او ثلاث بنات،او ابنتان او اختان۔ترجمہ:جس نے تین بہنوں یا تین لڑکیوں یا دو لڑکیوں یا دو بہنوں کی پرورش کی، اس کے لئے جنت ہے۔(سنن ابی داود، باب فی فضل من عال یتامی، حدیث نمبر:5148)

 

اس مفہوم کی متعدد روایات کتب حدیث میں موجود ہیں۔ جن میں لڑکیوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اسلام کی انہی تعلیمات و ہدایات کا نتیجہ ہے کہ مسلم گھرانوں میں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے حسن اخلاق و عصمت و تحفظ پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔