<div style="text-align: right"><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">فتح مکہ اسباب ونتا‍‌‌‌‏ئج <br /> حدیبیہ کے صلحنامہ میں منجملہ شرائط کے ایک شرط یہ بھی تھی کہ قبائل عرب میں سے کوئی بھی قبیلہ فریقین میں سے کسی کے ساتھ بھی معاہدہ کرسکتا ہے ۔ اس شرط کے مطابق بنو بکر قریش کے حلیف ہوئے اور بنوخزاعہ مسلمانوں کے حلیف قرار پائے۔<br /> بنوبکر اور بنوخزاعہ کے درمیان سخت دشمنی تھی ۔ بنوبکر اپنی پرانی عداوت کی وجہ بنو خزاعہ سے انتقام لینے کے لئے کفار قریش سے مل کر اُن پر حملہ آور ہوئے، اس حملہ میں قریش کے سرداروں نے بنو خزاعہ کے خلاف بنی بکر کو قتل کے لئے آدمی اور اسلحہ فراہم کئے ، اس حملہ کی وجہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ عملی طور پر قریش کی جانب سے ٹوٹ گیا ، بنو خزاعہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فریادی ہوئے اور آپ سے مدد طلب کئے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے پاس پرامن تین شرائط روانہ فرمائیں کہ وہ ان تین شرطوں سے کوئی ایک شرط قبول کریں : <br /> 1) بنو خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہا اداکیا جائے ۔ <br /> 2) قریش بنوبکر کی حمایت سے دست بردار ہوجائیں ۔ <br /> 3) حدیبیہ کے معاہدہ کی برخواستگی کا اعلان کیا جائے۔ <br /> قریش کے نمائندوں میں سے کسی نے جواب دیا کہ ہم آخری شرط منظور کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا ۔ قریش نے قاصد کو جواب دیتے وقت تو بڑی بے باکی سے اعلان کیا لیکن قاصد واپس جانے کے بعد سردارانِ قریش نادم و پشیمان ہوئے اور سب نے ابوسفیان سے کہا کہ تم جاکر معاہدہ کی تجدید کرلو ورنہ اس کا انجام بہت خطرناک ہوسکتا ہے ابوسفیان مدینہ طیبہ پہنچ کر گفتگو کرنے کی بہت کوشش کی لیکن بات نہ بنی ، بالآخر معاہدہ کی تجدید کئے بغیر لوٹنا پڑا ۔ <br /> حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جہاد کی تیاری کا حکم فرمایا اور حلیف قبائل کو تیاریوں کے لئے حکم نامہ بھیجا ، مگر آپ نے کسی سے یہ نہیں فرمایا کہ کس سے جہاد کرنا ہے یہاں تک کہ آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی نہیں فرمایا ، خاموشی کے ساتھ معارکہ کی تیاری ہوتی رہی ، اس کا مقصد یہ تھا کہ اہل مکہ کو معاملہ کی خبر نہ ہو ۔ <br /> حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے قریش کو ایک خط لکھا جس میں انتظامی خفیہ معاملات کی مخبری تھی ۔ اس خط کو حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کے ذریعہ مکہ مکرمہ روانہ کیا ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم عطا فرمایا ہے، وہ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم جو ماکان ومایکون کی خبر رکھتے ہیں ، قیامت تک رونما ہونے والے واقعات و حوادث کی خبر دیتے ہیں اور ان کا ایک ایک جزئیہ بیان فرماتے ہیں نہ صرف زمین کی بلکہ آسمانوں کی باتیں جنت و دوزخ کی تفصیلات ، اہل جنت و اہل دوزخ کی تعداد ، ان کے احوال و کوائف ،ہر ہر چیز سے واقف و باخبر ہیں ، کیا آپ مدینہ منورہ میں ہونے والے اس واقعہ سے باخبر نہ ہوں گے ؟ یقینا آپکواس واقعہ کا بخوبی علم تھا ، اسی لئے آپ نے حضرت علی ، حضرت زبیر اور حضرت مقداد رضی اللہ عنہم کو یہ تفصیلات بتلاتے ہوئے حکم فرمایا کہ تم لوگ ’’روضۂ خاخ‘‘ پر جاؤ وہاں ایک عورت ہے جس کے پاس ایک خط ہے وہ خط اس سے حاصل کرکے میرے پاس لے آؤ ‘ تینوں صحابہ کرام گھوڑوں پر سوار ہوکر بڑی تیز ی کے ساتھ ’’روضہ خاخ‘‘ پہنچے اور اس عورت کو ویسا ہی پایا جیسا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اور اس عورت سے خط طلب کیا ، اُس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : خدا کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلط بات نہیں فرماسکتے اور نہ ہم جھوٹے ہیں جب آپ نے سختی سے گفتگو کی تو اس عورت نے صحیح صحیح بتادیا اور اپنے بالوں کے جوڑے سے خط نکال کردے دیا ۔ یہ تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خط لے کر بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے ، حضو راکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ سے اس کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ میں نے اپنا دین تبدیل کیا ہے اور نہ مرتد ہوا ہوں ، میں نے اہل مکہ کو صرف اس لئے خط لکھا کہ مکہ مکرمہ میں میرے اہل و عیال ہیں وہاں میرا کوئی اور رشتہ دار نہیں جو ان کی خیر خواہی و خبر گیری کرے ، میرے سوا دوسرے مہاجرین کے رشتہ دار مکہ مکرمہ میں موجود ہیں وہ ان کی خبر گیری کرتے رہتے ہیں ۔ مجھے اس بات کامکمل یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو شکست دے گا۔ میں نے چاہا کہ خط کے ذریعہ مکہ والوں کو معاملہ کی اطلاع دے دوں تاکہ ان پر میرا احسان ہوجائے اور میرے اہل و عیال سے ہمدردی کا معاملہ کریں اگرچہ میرے خط سے اہل مکہ کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذر کو قبول فرمالیا۔اور انہیں معاف فرمادیا ۔ <br /> مکہ مکرمہ کوروانگی : <br /> دس رمضان المبارک کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے راستہ میں اور دو ہزار افراد شامل ہوگئے جملہ بارہ ہزار کا لشکر مکہ مکرمہ روانہ ہوا ۔ مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر مقام ’’مرالظہران‘‘ پہنچ کر لشکر نے پڑاؤ ڈالا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ہر شخص اپنا الگ چولہا جلائے جب بارہ ہزار صحابہ کرام نے الگ الگ چولہا جلایا تو مرالظہران کے وسیع و عریض میدان میں میلوں دور تک آگ ہی آگ نظر آنے لگی۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ راستہ ہی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ چکے تھے۔ <br /> قریش کو یہ اطلاع تو مل چکی تھی کہ مسلمانوں کا لشکر مدینہ طیبہ سے نکل چکا ہے لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ مسلمان اتنے قریب پہنچ گئے ہیں ۔ قریش نے تحقیق خبر کے لئے ابوسفیان ، بدیل بن ورقاء اور حکیم بن حزام کو بھیجا یہ تینوں تحقیق کے لئے نکلے اور مرالظہران میں جل رہی آگ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ابو سفیان نے کہا بنی خزاعہ کا قبیلہ اتنا تو نہیں کہ مرالظہران کا طویل میدان بھر جائے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ مکہ والوں پر رحم کھاکر انہیں خبردار کرنے اور یہ کہنے کے لئے آرہے تھے کہ اسلامی لشکر مکہ میں داخل ہونے سے پہلے مکہ والے امن مانگ لیں تو ان کے لئے بہتر ہوگا اسی اثنا میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ابوسفیان اور ان کے دو ساتھیوں سے ملاقات ہوئی ہے ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا لشکر پہنچ چکا ہے ، ابو سفیان نے مشورہ طلب کیا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلو، حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ اور دیگر صحابہ کرام نے ابوسفیان کو دیکھ کر فرمایا کافروں کا سردار ہمارے قبضہ میں ہے ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ ابوسفیان کو لے کر فوراً بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے ابو سفیان کو پناہ دی ہے ۔ چنانچہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کو معاف فرمادیا۔ وہ ابوسفیان جنہوں نے اسلام کے خلاف بدر اور اُحد کی لڑائیاں لڑیں ، قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف اُبھارا بانی اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کو شہید کرنے کی ناپاک سازشیں کیں ،مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کے لئے ہر طریقہ اختیار کیا یقینا وہ سزا کے مستحق تھے لیکن حضور اکرم رحمت مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمۃ للعالمینی کے قربان جائیں آپ نے انہیں بھی درگذر فرمادیا۔ <br /> حضور پا ک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابوسفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکر اسلامی فوج کے مناظر دکھائیں ۔ ابوسفیان نے ایک ایک قبیلہ کو بڑی آن بان سے ہتھیاروں سے مسلح ، سازوسامان سے بھرا آتے دیکھا قبیلہ غفار ، قبیلہ جہینہ، سعدبن ہذیم اور سلیم جیسے جنگجو قبائل عرب لشکر اسلام میں شامل تھے آخر میں آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جا نثاروں کے جھرمٹ میں تشریف لارہے تھے۔اس روحانی منظر اور نورانی ماحول کا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے دل پر گہرا اثر پڑا۔ <br /> 20! رمضان المبارک 8 ہجری پیر کے دن حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم مقام کداء سے گذرتے ہوئے بالائی جانب سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہٗ کو مقام کداء سے داخل ہونے اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہٗ کو مقام کدیٰ سے داخل ہونے کا حکم فرمایا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تاکید فرمائی کہ لڑنے میں پہل نہ کرنا اور جو شخص تم سے لڑنے کے درپے ہو صرف اسی سے مقابلہ کرنا۔ اس طرح مسلمان تین راستوں سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ کہیں مقابلہ کی نوبت نہیں آئی سوائے مقام کدیٰ کے جہاں سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہٗ داخل ہوئے بنوبکر، بنو حارث اور ہذیل اور قریش کے کچھ قبائل مقابلہ کے لئے تیار تھے ، حضرت خالد رضی اللہ عنہٗ آتے ہی ان لوگوں نے آپ پر حملہ کیا ، آپ نے ان کے حملہ کا دفاعی جواب دیتے ہوئے ان کا مقابلہ کیا اور کفار کو شکست ہوئی ، نتیجہ میں دومسلمان شہید ہوئے اور بنوبکر وغیرہ کے بیس بائیس آدمی ہلاک ہوگئے۔ <br /> عفو و درگذر کا عام اعلان : <br /> کفار مکہ جواعلانِ نبوت سے لے کر ہجرت تک اور ہجرت مدینہ سے صلح حدیبیہ تک حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتے رہے ، ایذا رسانی میں