<table border="0" cellspacing="0" cellpadding="0" width="97%" align="center"> <tbody> <tr> <td> <div style="text-align: right" class="arttext"><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">(سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہھ کے فضائل ومناقب ، محبت والفت ،عظمت و شجاعت، آپ کی شہادت عظمی کا تفصیلی ذکر، اورآپ سے بغض رکھنے والوں کاانجام ،<br /> حضرت محدث دکن علیہ الرحمۃ والرضوان کی دلنشیں تحریر(جس سے لاکھوں افراد انسانی نے رہنمائی پائی،زندگیوں میں انقلاب بپاہوا ،جس سے کل کے راہ بھٹکے ہوئے آج کے رہبر ہوئے) کی روشنی میں: ) <br /> اسم مبارک و لقب و کنیت و حلیہ شریف <br /> اگر آپ اللہ تعالیٰ کے دوستوں کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہوں تو آؤ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کے دوستوں کا سردار دکھاتا ہوں ! <br /> جن کا اسم مبارک علی (رضی اللہ عنہ) ہے۔<br /> حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام مبارک منہ کا مقصود اور زبان کی زینت ہے‘ آپ کا نام مبارک دل کو آرام دینے والا اور جان کو راحت دینے والا ہے۔ <br /> آپ کا لقب امیر النحل‘ بیضۃ البلد‘ یعسوب الدین‘ حیدر کرار‘ اسد اللہ الغالب اور آپ کی کنیت ابو الحسن‘ ابو تراب ہے۔ <br /> آپ کا حلیہ شریف دکھانا چاہتا ہوں تاکہ آپ تصور جمائیں تو کیا عجب ہے کہ حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی متبرک صورت نظر آجائے۔ <br /> آپ لانبے قد کے نہ تھے‘ آپ کی آنکھیں بڑی اور پتلیاں سیاہ تھیں‘ آپ کا چہرۂ مبارک نہایت خوبصورت گویا چودھویں رات کا پورا چاندتھا‘ آپ کے سر پر بال کم تھے مگر داڑھی کے بال کثرت سے تھے‘ آپ کی نازک گردن دیکھنے والوں کو بالکل چاندی کی ڈھلی ہوئی صراحی معلوم ہوتی تھی۔ <br /> مقام ولادت: <br /> جب آپ کی والدۂ محترمہ کو درد زہ شروع ہوا تو ابو طالب انہیں بیت اللہ شریف کے اندر لے گئے‘ وہاں نہایت سہولت سے زچگی ہوئی‘ اس لحاظ سے آپ کا مقام ولادت اندرون کعبہ مکرمہ ہے۔ (مولود کعبه) <br /> آپ کا یوم ولادت" جمعہ"‘ تاریخ" دس"‘ ماہ رجب اور سنہ 10 عام فیل ہے۔ <br /> حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا <br /> عبداللہ بن عبداللہ‘ انس بن مالک‘ زید بن ارقم‘ سلمان فارسی اور ایک جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم اس پر متفق ہیں کہ بچوں میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور عورتوں میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ <br /> حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ کو مبعوث ہوئے اور میں سہ شنبہ کے دن مشرف بہ اسلام ہوا‘ صرف ایک ہی شب درمیان ہے۔ <br /> دوسری فصل <br /> مناقب و فضائل <br /> حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ ہیں جن کی محبت ایمان کی علامت اور بغض کفر کی علامت ہے۔ <br /> حدیث شریف: <br /> ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم ‘ امام حسن اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ہاتھ پکڑے اور فرمائے جو مجھ کو دوست رکھتا ہے وہ ان دونوں کو دوست رکھے اور ان دونوں کے ماں اور باپ کو دوست رکھے‘ تو کل قیامت کے روز فردوس اعلیٰ میں میرے ساتھ رہے گا۔ <br /> حدیث شریف: <br /> ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے ‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں بوسہ دیا‘ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ اس وقت حاضر تھے‘ عرض کئے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا اُن کو آپ دوست رکھتے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں، چچا ! میں علی کو بہت دوست رکھتا ہوں‘ میں نہیں جانتا کہ مجھ سے زیادہ اُن کو اور کوئی دوست رکھتا ہوگا۔<br /> اللہ تعالیٰ نے ہر پیغمبر کی اولاد اُس کی پشت میں رکھا ہے مگر میری اولاد علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی پشت میں ہے-<br /> اس کے بعد آپ نے دعا فرمائی: الٰہی دوست رکھئے اُس کو جو علی کو دوست رکھتا ہے اور دشمن ہوجائے اُس کا جو علی کا دشمن ہے۔ <br /> ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں‘ سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت گناہوں کو اس طرح کھاجاتی ہے جس طرح آگ ایندھن کو ۔ <br /> حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ ‘ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بازار گئے‘ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کئی خربوزے خریدے‘ جب ہم سب مل کے مکان پر واپس ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک خربوز تراشے اور چکھے تو وہ کڑوا تھا‘ آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ بھائی‘ اس کو پھیر آؤ میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں۔ <br /> حدیث شریف: <br /> حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اے علی تمہاری محبت کا عہد ہر ایک آدمی اور درخت سے لیا گیا ہے، جس نے اس عہد کو قبول کیا اور تمہاری محبت کو دِل میں جگہ دی وہ شیریں اور پاک ہوا‘ اور جس نے تمہاری محبت کو قبول نہ کیا وہ خبیث و کڑوا ہوا۔<br /> اس کے بعد حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ یہ کڑوا خربوزہ اسی بیل کا ٹوٹا ہوا ہے‘ جس میں میری محبت نہ تھی۔ <br /> حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہجرت کی رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مُبارک پر آرام فرمانا-! <br /> ہجرت سے ایک روز قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے علی! آج رات مجھے مکہ سے ہجرت کرنے کا حکم آگیا ہے‘ اے علی! اللہ تعالیٰ کا یہ بھی حکم ہے کہ میرے بستر پر تم لیٹ جانا تاکہ کفار تم کو دیکھ کر سمجھیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ابھی لیٹے ہوئے ہیں‘ جب تک میں دُور نکل نہ جاؤں تم میری چادر اوڑھے لیٹے رہنا –<br /> وَمَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰه ‘ و اللّٰه خَیْرُ الْمٰکِرِین –<br /> (سورۂ اٰل عمران) اور وہ (کفار) اپنا سا مکر کئے اور اللہ تعالیٰ خفیہ تدبیر فرمایا ۔ ۔ ۔ اور اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر ۔ <br /> حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت خوشی سے اس تجویز کو منظور فرمالئے‘ جب رات ہوئی اور خوب اندھیرا ہوگیا تو کفارِ مکہ تلواریں لے کر چوطرف سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کو گھیر لئے اور اطراف پھرتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت بھی باہر نکلیں آپ کو شہید کردیا جائے ۔ <br /> کفار آپس میں یہ باتیں بھی کرنے لگے کہ یہ شخص (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کیسی جھوٹی باتیں کرتا ہے‘ کہتا ہے کہ اے مکہ والو! اگر تم میری اطاعت کرو گے اور مسلمان ہوجاؤ گے تو تم دنیا میں عرب و عجم کے بادشاہ ہوجاؤ گے اور آخرت میں عمدہ عمدہ باغ اور میوہ اور خوبصورت عورتیں ملیں گی‘ اگر اطاعت نہ کرو گے تو آخرت میں بھڑکتی ہوئی آگ میں جلو گے‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب باتیں سُن کر فرمایا : نادانو! یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ سب سچ ہے۔ <br /> آدھی رات کے وقت دوسرا حکم آگیا کہ پیارے حبیب اب اٹھئے‘ یہ سونے کا وقت نہیں‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرئیل! چاروں طرف کفار جمع ہیں‘ میں کس طرح جاسکتا ہوں‘ جبرئیل (علیہ السلام) نے عرض کیا‘ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سورۂ یاسین ابتداء سے " فَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ "تک پڑھئے‘ اُن کافروں پر لعنت کی دیوار اٹھ جائے گی۔<br /> حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں آیات شریفہ کی تلاوت فرماکر ایک مٹھی خاک پر دم کیا اور کافروں کی طرف پھینک دیا‘ وہ ایک مٹھی خاک ستر آدمیوں کے منہ‘ سر اور آنکھوں پر پڑی۔ <br /> مگر عجیب طرفہ یہ تھا کہ بجائے تکلیف ہونے کے سب کو غفلت کی نیند آگئی‘ سب کے سَر سینوں پر تھے سب سورہے تھے‘ اللہ تعالیٰ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں صحیح و سلامت نکال لے گیا‘ یہ ہے : <br /> وَمَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰه ‘ و اللّٰه خَیْرُ الْمٰکِرِین –<br /> اور وہ (کفار) اپنا سا مکر کئے اور اللہ تعالیٰ خفیہ تدبیر فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر۔ بہرحال خاک پڑتے ہی کافر بھی سوئے اور شیطان بھی‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیر و عافیت سے چلے گئے۔ <br /> آنکھوں میں ایک تنکہ یا تھوڑا سا کچرا اگر گرجائے تو سخت بے چینی اور تکلیف ہوتی ہے‘ یہاں پر کفارِ مکہ کی آنکھوں میں مٹھی بھر مٹی جھونکنے پر بھی سب کو آرام کی نیند آگئی‘ کیا یہ نہیں ہے؟ وَمَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰه ‘ و اللّٰه خَیْرُ الْمٰکِرِین –<br /> اور وہ (کفار) اپنا سا مکر کئے اور اللہ تعالیٰ خفیہ تدبیر فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر۔ <br /> مسلمانو! ہم کو وہ سراپا رحمت پیغمبر ملا جن کے غصہ بھرے ہاتھ سے دشمنوں پر خاک پڑتی ہے تو اس خاک سے وہ اُن کو راحت و آرام ملتا ہے‘ بھلا محبت بھرے مبارک ہاتھ مسلمانوں کی دعائے مغفرت کے لئے اٹھیں تو خیال کیجئے اُس کا کیا اثر ہوگا۔ <br /> الغرض حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اطمینان سے تشریف لے گئے اور حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر اوڑھے آپ کے بستر مبارک پر لیٹ گئے۔ <br /> اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل علیہما السلام سے فرمایا ہم نے تم کو بھائی بھائی بنایا ہے‘ بتاؤ اب تم میں سے کون اپنی عمر دوسرے کو دینا چاہتا ہے‘ دونوں فرشتوں نے عرض کیا: آپ کا حکم ہوتا ہے تو ہم حاضر ہیں‘ ورنہ سب کو اپنی جان پیاری ہے‘ کسی سے دوسرے کے لئے اپنی عمر دینا نہیں ہوسکتا۔ <br /> اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا: علی رضی اللہ عنہ کو دیکھو کہ اپنی جان اپنے بھائی (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نثار کرکے اُن کے بستر پر لیٹ گئے ہیں‘ تم جاؤ اور اُن کی حفاظت کرو۔ <br /> دو