<span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><center><center><span style="font-size: large"><center><strong>ایک شخص کسی دوسرے کی جانب سے نہ روزہ رکھ سکتاہے اورنہ نمازپڑھ سکتاہے</strong><font color="#000000">و عن مالک بلغہ ان ابن عمر کان یسال ھل یصوم احد عن احد او یصلی احد عن احد فیقول لا یصوم احد عن احد ولا یصلی احد عن احد رواہ فی الموطا و قال ولم اسمع عن احد من الصحابۃ ولا من التابعین بالمدینۃ ان احدا منھم امر احدا ان یصوم عن احد ولا یصلی احد عن احد و روی عبد الرزاق فی مصنفہ فی کتاب الوصایا عن ابن عمر قال لا یصلین احد عن احد ولا یصوم احد عن احد۔ <br /> </font>حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت ہے کہ ان کو یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے یہ سوال کیا جاتا تھا کہ کیا کوئی شخص دوسرے کی جانب سے (فرض) روزہ رکھ سکتا ہے یا کوئی شخص کسی دوسرے کی جانب سے (فرض) نماز ادا کرسکتا ہے؟ تو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جواب دیا کرتے تھے کہ کوئی شخص کسی شخص کی طرف سے نہ تو (فرض) روزے رکھ سکتا ہے اور نہ (فرض) نماز ادا کرسکتا ہے۔ اس کی روایت امام مالک نے موطا میں کی ہے‘ اور امام مالک نے کہا ہے کہ میں نے کسی صحابی سے اور کسی تابعی سے مدینہ میں یہ نہیں سنا کہ جو یہ کہتے ہوں کہ کوئی کسی کی طرف سے روزہ رکھے یا کوئی کسی کی طرف سے نماز پڑھے اور عبدالرزاق نے اپنی مصنف کے کتاب الوصایا میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی ہے‘ انہوں نے فرمایا کہ کوئی شخص نہ تو کسی کی طرف سے روزہ رکھے اور نہ کسی کی طرف سے نماز پڑھے۔ (چنانچہ فتح القدیر میں مذکور ہے کہ اس بارے میں یہی آخری حکم ہے) <br /> <font color="#000000">و عن ابن عباس قال لا یصلی احد عن احد ولا یصوم احد عن احد ولکن یطعم عنہ مکان کل یوم مد من حنطۃ رواہ النسائی فی سننہ و قال فی سننہ و قال فی الجوھر النقی ھذا سند صحیح علی شرط الشیخین خلا ابن عبدالاعلی فانہ علی شرط مسلم و ذکر فی البنایۃ نحوہ و فیہ مدین من حنطۃ و روی ابوبکر الرازی فی شرحہ لمختصر الطحاوی عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم من مات و علیہ رمضان فیطعم عنہ مکان کل یوم نصف صاع لمسکین۔ <br /> </font>حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص کسی کی جانب سے نہ تو روزہ رکھے اور نہ کسی کی جانب سے نماز پڑھے بلکہ ہر دن یعنی ہر روزہ کے بدلہ (فدیہ میں) ایک ایک مد گیہوں (یعنی نصف صاع یعنی دو کیلو) ایک مسکین کو دے دے (اسی طرح نماز کا بھی حکم ہے کہ میت کی جانب سے ہر نماز کے بدلے میں ایک مسکین کو (نصف صاع گیہوں دے یا دو وقت کا کھانا کھلائے) اس حدیث کی روایت نسائی نے اپنی سنن میں کی ہے اور ابوبکر رازی نے مختصر طحاوی کی شرح میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شخص مرجائے اور اس سے رمضان کے روزے فوت ہوگئے ہوں تو ایسے شخص کی جانب سے ہر روز یعنی ہر روزہ کے بدلہ نصف صاع (گیہوں) ایک مسکین کو دیا جائے۔ <br /> <font color="#000000">و عن القاسم بن محمد قال لا یقضی ذلک احد عن احد لقولہ تعالی ولا تزر وازرۃ وزر اخری ذکرہ فی الجوھر النقی۔ <br /> </font>حضرت قاسم بن محمد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص کسی کی جانب سے قضاء روزہ نہ رکھے‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (سورہ بنی اسرائیل‘ پ 15‘ ع 2 میں) کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھاسکتا۔ اس کو الجواہر النقی میں بیان کیا ہے۔ <br /> از:نورالمصابیح ترجمہ زجاجة المصابیح <br /> حضرت ابوالحسنات محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ</center></span></center></center></span><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><br /> </span></span><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><center><center><span style="font-size: large"><center><strong>حائضہ عورت روزوں کی قضاء کرے نمازوں کی نہیں </strong><font color="#000000">و عن معاذۃ العدویۃ انھا قالت لعائشۃ ما بال الحائض تقضی الصوم ولا تقضی الصلوٰۃ قالت عائشۃ کان یصیبنا ذلک فنومر بقضاء الصوم ولا نومر بقضاء الصلوٰۃ۔ (رواہ مسلم) <br /> </font>حضرت معاذہ عدویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا‘ کیا بات ہے کہ حائضہ عورت تو روزہ کی قضاء کرتی ہے لیکن نماز کی قضاء نہیں کرتی‘ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم کے زمانہ میں ہم کو حیض آتا تو ہم کو روزہ کی قضاء کا حکم دیا جاتا اور نمازوں کی قضاء کا حکم نہیں دیا جاتا۔ (اس سے معلوم ہوا کہ شارع علیہ السلام نے جو فرمایا اس کی علت پوچھنے کی ضرورت نہیں‘ جو فرمایا اس کو کرنا چاہئے)۔ اس حدیث کی روایت مسلم نے کی ہے۔ <br /> <center><strong>فوت شدہ شخص پرروزے فرض تھے تواس کے بدلے فدیہ دیں </strong></center></center></span></center><span style="font-size: large"><br /> </span></center></span><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><br /> </span></span><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><center><center><span style="font-size: large"><center><strong>فوت شدہ رمضان کے روزوں کی قضاء </strong><font color="#000000">عن ابراھیم النخعی قال اذا فرط حتی جاء رمضان اخر یصومھما ولم یر علیہ طعاما رواہ البخاری تعلیقا و قال لم یذکر اللہ الا طعام انما قال فعدۃ من ایام اخر و وصلہ سعید بن منصور من طریق یونس عن الحسن و من طریق الحارث العکلی۔ <br /> </font>حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے (رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضاء ادا کرنے میں اتنی) تاخیر کی کہ پہلے موجودہ رمضان کے روزے رکھ لے‘ پھر اس کے بعد فوت شدہ رمضان کے روزوں کی قضاء کرلے اور اس طرح (کی تاخیر کی وجہ سے) حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایسے شخص پر کوئی فدیہ طعام لازم نہیں کرتے‘ اس کی روایت بخاری نے تعلیقاً کی ہے‘ اور امام بخاری نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (رمضان کے روزوں کی قضاء کے بارے میں جو آیت نازل فرمائی ہے‘ اس میں قضاء کے ساتھ) کھانا کھلانے کا ذکر نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یعنی رمضان کی قضاء دوسرے دنوں میں کرلو۔ <br /> <center><strong>عورت نفل روزے شوہرکی اجازت کے بغیرنہ رکھے </strong></center></center></span></center><span style="font-size: large"><br /> </span></center></span><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><br /> </span></span> <div style="text-align: right"> </div> <center><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">قضاءروزوں کی تین صورتیں ہیں</span></span></center><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><br /> (1) اگر بھول کر روزہ کی حالت میں کوئی کھالے یا پی لے تو اس پر نہ تو قضاء ہے اور نہ کفارہ‘ خواہ وہ رمضان کا روزہ ہو یا غیر رمضان کاروزہ ۔ <br /> (2) اگر کوئی رمضان کی حالت میں بلا عذر قصداً کھالے ‘پی لے تو اس پر قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہیں۔ <br /> (3) اگر کوئی رمضان میں روزہ کی حالت میں کسی عذر کی وجہ سے جیسا کہ سفر یا مرض میں روزہ توڑدے تو اس پر صرف قضاء واجب ہوگی‘ کفارہ ضروری نہیں۔ <br /> کفارہ کا حکم صرف رمضان کے روزوں سے متعلق ہے اور اگر نفل روزے کو کسی وجہ سے توڑدے تو اس میں کفارہ لازم نہیں ‘ صرف قضاء کرلینا کافی ہے- <br /> <font color="#000000">وَ قَوْلُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ: وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ اُخْرٰی۔ </font><br /> اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اور کو ئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔ (سورۃ بنی اسرائیل: 15 ) <br /> ف: یعنی کوئی شخص کسی کی جانب سے نہ تو روزہ رکھ سکتا ہے اور نہ نماز پڑھ سکتا ہے۔ <br /> <font color="#000000">وَ قَوْلَہٗ: فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیامٍ اُخَرَ۔ </font><br /> تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں (رکھے)۔ (سورۃ البقرۃ: 184) <br /> ف: سفر سے مراد وہ ہے جس کی مسافت تین دن سے کم نہ ہو ‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مریض و مسافر کو رخصت دی ہے کہ اگر اس کو رمضان المبارک میں روزہ رکھنے سے مرض کی زیادتی یا ہلاکت کا اندیشہ ہو یا سفر میں شدت و تکلیف ہوتو وہ مرض و سفر کے ایام میں افطار کرے اور بجائے اس کے (ایام منہیہ کے سوا )اور دونوں میں قضاء کرلے۔ایام منہیہ پانچ ہیں جن میں روزہ رکھنا جائز نہیں‘ دونوں عیدیں اور ذی الحجہ کی گیارہویں‘ بارہویں اور تیرہویں تاریخیں۔ <br /> ف: واضح ہو کہ رمضان کے روزوں کی قضاء کے بارے میں ہدایہ میں لکھا ہے کہ قضاء کرنے والے کو اس کا اختیار ہے کہ چاہے تو وہ پے درپے روزہ رکھ کر قضاء روزوں کی تکمیل کرے یا متفرق اوقات میں اپنے قضاء روزوں کو پورا کرے‘ لیکن مستحب یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضاء کو پے درپے رکھ کر ادا کرے تاکہ جو چیز فرض ہے وہ فوری ادا ہوجائے‘ اگر کسی نے قضاء رمضان کے روزے ادا کرنے میں اتنی تاخیر کی کہ دوسرا رمضان آگیا تو اس کو چاہئے کہ موجودہ رمضان کے فرض روزوں کو پہلے پورا کرلے اور اس مہینہ میں کوئی قضاء روزہ نہ رکھے اور رمضان گزرنے کے بعد سابقہ فوت شدہ روزوں کی قضاء کرے اور اس طرح تاخیر سے روزوں کی قضاء کرنے کی وجہ سے اس پر کوئی فدیہ واجب نہیں ہے‘ صرف قضاء روزوں کو ادا کرلیناہی کافی ہے۔ <br /> </span></span><center></center><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><font color="#000000">و عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم لا یحل للمراۃ ان تصوم و زوجھا شاھد الا باذنہ ولا تاذن فی بیتہ الا باذنہ۔ (رواہ مسلم) </font><br /> حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ کسی عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی نفل روزہ رکھے اور اسی طرح عورت کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ شوہر کے گھر میں (کسی غیر مرد یا عورت کو) اس کی اجازت کے بغیر آنے دے۔ اس کی روایت مسلم نے کی ہے۔ <br /> ف: اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی عورت اپنے ش