Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Scholarly Articles

آیت معراج کی جامع تفسیر


از: حضرت ابوالحسنات محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ

بسم ا ﷲالرحمن الرحیم
 
 
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آَيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (1) وہ پاک ذات ہے جو اپنے بندہ Ú©Ùˆ شب کیوقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جسکے گردا گردہم Ù†Û’ برکتیں کر رکھی ہیں Ù„Û’ گیا ‘ تا کہ ہم ان کواپنے Ú©Ú†Ú¾ عجائبات دکھلائیں بے Ø´Ú© اللہ تعالی بڑے سننے والے ‘ بڑے دیکھنے والے ہیں
مقدمہ
واقعہ معراج پر جو شبہات کئے جاتے ہیں ان شبہوں کے جواب میں مقدمہ ذیل پیش ہے :
واقعہ معراج پر جو شبہے کئے جاتے ہیں ان شبہوں Ú©Û’ جواب Ù…Û’ لئے معراج شریف Ú©Û’ واقعہ Ú©Ùˆ’’ سبحٰن الذی‘‘سے شروع کیا گیا ہے Û”
واقعہ معراج پر شبہ کا تفسیر ’’ سبحٰن الذی ‘’ سے جواب
سبحان کے معنی ہیں :۔
خدائے تعالیٰ Ú©ÛŒ ذات ہر ایک قسم Ú©Û’ نقصان سے پاک ہے ‘ اور عاجز Ùˆ کمزور بے قدرت ہونے سے بھی پاک ہے ‘‘Û”
معراج Ú©Û’ واقعہ Ú©Ùˆ لفظ ’’ سُبحان ‘‘ سے شروع کرنے سے یہ غرض ہے کہ جب معراج Ú©Û’ عجیب Ùˆ غریب واقعہ کا جاہل Ùˆ نادان ‘ کمزور عقل والے ‘ روحانیت سے دُور رہنے والے ضرور انکار کریں Ú¯Û’ اور طرح طرح Ú©Û’ شبہے پیش کریں Ú¯Û’ تو یہ شبہے معراج Ú©Û’ واقعہ پر ہی منحصر نہیں رہتے بلکہ خدائے تعالیٰ Ú©Û’ قدرت تک پہنچتے ہیں ‘ گویا خدائے تعالیٰ میں قدرت نہیں کہ معراج کراسکے ‘ اس لئے ا ï·² تعالیٰ ان شبہوں Ú©Ùˆ دُور کرنے Ú©Û’ لئے واقعہ معراج بیان کرنے سے پہلے ارشاد فرماتا ہے کہ : Û”
’’سبحان الذی ‘‘
معراج کس Ù†Û’ کرائی ØŸ وہی قدرت والا خدا تو ہے جو ہر ایک طرح Ú©ÛŒ عاجزی اور کمزوری سے پاک ہے ‘ تو پھر تم Ú©Ùˆ معراج Ú©Û’ واقعہ میں کیوں شبہ ہے Û”
واقعہ معراج پر شبہ کا دوسرا جواب

تم ہمارے نبی Ú©Ùˆ سمجھے ہی نہیں اپنا جیسا یا اپنی طرح کا انسان سمجھ کر اور خود پر قیاس کر Ú©Û’ ان Ú©Û’ معراج سے انکار کر رہے ہو ‘تمہارا قیاس ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک طوطی Ù†Û’ قیاس کیا تھا جس Ú©Ùˆ مولا نا Ù†Û’ مثنوی میں ایک نقل Ú©Û’ پیرایہ میں لکھا ہے :Û”
کیا یہ نا منکن ہے کہ جسم اطہر Ú©Û’ پسینہ میں یہ اثر ہو کہ آپ Ú©Ùˆ جلنے سے باز رکھے ‘ اور حضرتٰ صلی ا ï·² علیہ وسلم Ú©ÛŒ ذات پاک سے کرئہ نار میں Ø¢Ú¯ زیادہ روشن اور صاف ہوگئی ہو۔
تجربہ اور مشاہدہ تو یہ ہے کہ جسم مطہر Ú©Ùˆ جو لگا ‘ وہ نہیں جلتا Û” بھلا جسم مطہر پر Ø¢Ú¯ کا کیا اثر ہوگا ‘ واقعۂ ذیل اس کا شاہد ہے Û”
حضرت انس رضی ا ï·² تعالیٰ عنہ ‘ Ù†Û’ دستر خوان جو میلا ہو گیا تھا ‘ Ø¢Ú¯ میں ڈال دیا ‘ دستر خوان کا جلنا تو کجا میل Ùˆ کچیل سے صاف ہو گیا ‘ حاضرین Ú©Û’ تعجب پر حضرت انس رضی ا ï·² تعالیٰ عنہ‘ Ù†Û’ فرمایا :Û”
’’ حضورٰ صلی ا ï·² علیہ وسلم Ù†Û’ اس دستر خوان پر کھانا تناول فرمایا ہے ‘ یہ دستر خوان آپ سے مس ہوا ہے Ø¢Ú¯ کا اثر اس پر کیسے ہو سکتا ہے Û”
آگ کے کرہ میں سے گذرنے کے شبہ کا دوسراجواب
ہائے شبہ کرنے والے تجھے شرم نہیں آئی ‘ شبہ کرنے سے ‘ شعبدہ باز Ø¢Ú¯ Ú©Û’ اندر گھس جاتا ہے ‘ Ø¢Ú¯ اپنے اوپر ڈال لیتا ہے مگر نہ خود جلتا ہے اور نہ اس کا کپڑا Û” کیا نبی کا مرتبہ شعبدہ باز سے Ú©Ù… ہو گیا کہ وہ نورانی تن Ø¢Ú¯ Ú©Û’ کرہ میں جائے اور نہ جلے تو تعجب کریں Û”
آگ کے کرہ میں سے گذرنے کے شبہ کا تیسرجواب
اہل یورپ کہتے ہیں کہ سورج میں مخلوق آباد ہے Û” ایسے سخت اور روشن اور گرم کرہ میں مخلوق کا زندہ عمر بسر کرنا ا ﷲتعالیٰ Ú©Û’ اس قدرت کا یقین دلاتا ہے‘ کہ ا ï·² تعالیٰ جس کسی Ø¢Ú¯ Ú©Û’ کرہ میں سالم Ùˆ سلامت رکھنا چاہیں تو رکھ سکتے ہیں Û”
آگ کے کرہ میں سے گذرنے کے شبہ کا چوتھاجواب
’’جواسا ستیا ناسی ‘‘ ایک گھانس ہے جو تیر Ú©ÛŒ تیز دھوپ میں سر سبز رہتی ہے ‘ جب بارش شروع ہوئی ‘ اور سردی Ù¾Ú‘ÛŒ تو اس کا درخت جل جاتا ہے Û”
باغوں میں دیکھا گیا ہے کہ بعض درختوں Ú©Ùˆ پانی Ú©Û’ بجائے انکے نیچے Ø¢Ú¯ روشن Ú©ÛŒ جاتی ہے وہ Ø¢Ú¯ Ú©ÛŒ گرمی سے ہرے رہتے ہیں ‘ اگر ذرا Ø¢Ú¯ Ú©ÛŒ حرارت Ú©Ù… ہوجائے تو فوراً خشک ہوجاتے ہیں Û”
نتیجہ یہ نکلا کہ
جس طرح بعض درخت عقل Ú©Û’ خلاف تیز گرمی اور دھوپ اور بھڑکتی ہوئی Ø¢Ú¯ میں زندہ اور ہرے رہتے ہیں ‘ اسی طرح تمام جسموں Ú©Û’ خلاف جسم اطہر قدرت الہیٰ سے اس نارے کرہ میں نہ جلے بلکہ اور صحت زیادہ اچھی ہو گئی ہو تو کیا تعجب ہے Û”
آگ کے کرہ میں سے گذرنے کے شبہ کا پانچواں جواب
Ø¢Ú¯ میں کوئی چیز جب جلتی ہے جب ذرا ٹھیرے ‘ اگر ہاتھ جلدی سے اِدھر سے اُدھر آنچ میں سے نکالتے رہیں تو نہیں جلتا Û”
حضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم بھی اس تیزی سے تشریف لے گئے کہ جب واپس تشریف آواری ہوئی بچھونا مبارک گرم تھا ۔
اس سے ثابت ہوا کہ جیسے ہاتھ پر آنچ کا اثر نہیں ہوتا ‘ ایسے ہی جسم مُبارک Ú©Ùˆ کرئہ نار کا Ú©Ú†Ú¾ اثر نہ ہوا Û”
ایک شبہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہوا Ú©Û’ طبقے Ú©Û’ اوپر جو ’’ خلا‘‘ ہے اس میں ہوا نہ ہونے Ú©Û’ سبب کوئی تنفس زندہ نہیں رہ سکتا ‘ حضور صلی ا ï·² علیہ وسلم اس میں سے گذرتے وقت کیسے زندہ رہے ØŸ
خلا میں گذرنے کے شبہ کا پہلا جواب

اس کا جواب یہ ہے کہ بہت دیر Ú©Û’ لئے بغیر تنفس Ú©Û’ نہیں رہ بسکتے ‘ تھوڑی دیر Ú©Û’ لئے سانس Ú©ÛŒ ضرورت نہیں ‘ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم بہت تیزی سے اس ’’ خلا ‘‘ سے Ù†Ú©Ù„ گئے ‘ تھوڑی بغیر سانس لئے Ú©Û’ رہنا ہوسکتا ہے Û”
خلا میں گذرنے کے شبہ کا دوسرا جواب

قطع نظر اسکے چلّہ Ú©Ø´ÛŒ کرنے والے حبس دم کرتے ہیں ‘ کئی روز بلکہ کئی مہینے تک حبس دم کیا کرتے ہیں ‘ سانس نہیں لیتے پھر بھی زندہ رہتے ہیں Û”
خلا میں گذرنے کے شبہ کا تیسرا جواب

بچہ کئی ماہ تک ماں Ú©Û’ پیٹ میں زندہ رہتا ہے اور سانس نہیںلیتا ‘ بچہ Ú©ÛŒ زندگی کئی ماہ تک بے سانس لئے گذرتی ہے اگر خدا Ù†Û’ حضور صلی ا ï·² علیہ وسلم Ú©Ùˆ ایک رات ہوا Ú©Û’ کرہ سے اوپر Ù„Û’ جاکر بلا سانس لئے زندہ رکھا اور حضور صلی ا ï·² علیہ وسلم زندہ رہے تو کیا مشکل اور کونسا خلاف عقل ہوا Û”
خلا میں گذرنے کے شبہ کا چوتھا جواب

بعض مشاق سمندر Ú©ÛŒ تہ سے موتی نکالنے Ú©Û’ لئے کئی گھنٹے تک غوطہ لگاتے ہیں اور وہ پانی میں سانس نہیں لیتے ‘ یہ غواص کیسے زندہ رہتے ہونگے Û”
جب غوطہ خور صدف Ú©ÛŒ تلاش میں چند گھنٹے سانس نہ Ù„Û’ اور زندہ رہے Û” اگر حضرت رسول صلی ا ï·² علیہ وسلم’’ گوہر معرفت ‘‘ Ú©ÛŒ تلاش میں چند گھنٹے سانس نہ لیں اور حضور صلی ا ï·² علیہ وسلم زندہ رہیں تو کیا محال اور کونسا مشکل ہے Û”
’’ سبحن الذی اسرٰی ‘‘ ابتدئً سبحٰن Ú©ÛŒ تفسیر میں باری تعالیٰ کا لفظ ’’ سبحٰن ‘‘ فرمانے کا فائدہ تو معلوم ہو چکا ہے Û”
لفظ ’’ اسرٰی ‘‘ سے بھی تمام شبہات دُور ہو گئے Ú©Û’ خود نبی صلی ا ï·² علیہ وسلم تشریف نہیں Ù„Û’ گئے بلکہ خدائے تعالیٰ خود Ù„Û’ گیا Û”
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ اسرٰی ‘‘ Ú©ÛŒ جگہ ’’ اذہب ‘‘ کیوں نہیں فرمایا حالانکہ دونوں Ú©Û’ معنی ایک ہی ہیں Û”
اس کا جواب کالئے حضور صلی ا ï·² علیہ وسلم Ú©Û’ معراج Ú©Û’ ساتھ حضرت یونس علیہ السلام Ú©Û’ معراج کا تقابل کیجئے ‘ جب آپ لو ان دونوں یعنی لفظ ’’ اسرٰی ‘‘ کہنے اور لفظ ‘‘ اذہب ‘‘ نہ کہنے کا فرق معلوم ہوگا :Û”
معراجِ حضرت یونس علیہ السلام
یونس علیہ السلام Ù†Û’ اپنے قوم Ú©Ùˆ عذاب الہیٰ سے ڈرایا اور فرمایا کہ ایمان Ù„Û’ آؤ ورنے اتنی مدّت میں عذاب الہیٰ نازل ہوگا ‘ جب وہ مدّت قریب آئی تو آپ اس خیال سے کہ یہاں عذاب نازل ہوگا ‘ وہاں سے Ú†Ù„ Ù¾Ú‘Û’ ‘ مگر حق تعالیٰ سے صریح اذن نہیں لیا Û”
یہاں یہ قصّہ ہوا کہ جب عذاب Ú©Û’ تاریخ Ú©ÛŒ آمد ہوئی شروع ہوئی اور آثارِ عذاب دیکھ کر یہ لوگ گھبرائے اور ایمان پر آمادہ ہوئے اور یونس علیہ السلام Ú©ÛŒ تلاش کرنے Ù„Ú¯Û’ کہ ان Ú©Û’ ہاتھ پر ایمان لاویں ‘ یہ نہ ملے تو انھوں Ù†Û’ کہا اگر یونس علیہ السلام نہیں ہیں تو کیا ہوا ان پر اور ا ï·² تعالیٰ پر ایمان لانا تو ممکن ہے ‘ چناچہ ایمان لائے اور عذاب ٹل گیا ‘ یونس علیہ السلام لوگوں سے اس بستی کا حال پوچھتے رہتے تھے جب کسی سے عذاب Ú©ÛŒ خبر نہ سنی ‘ اور پورا واقعہ معلوم نہ ہوا تو آپ Ú©Ùˆ خیال ہوا کہ اب اگر واپس بستی میں جاؤں گا تو Ùˆ ہ لوگ جھٹلائیں Ú¯Û’ کہ تمہارے قول Ú©Û’ موافق عذاب نہ آیا ‘ اس شرمندگی Ú©ÛŒ وجہ سے واپس نہ ہوئے بلکہ جہاں قیام فرماتے تھے وہاں سے Ø¢Ú¯Û’ بڑہتے Ú†Ù„Û’ گئے ‘ راستہ میں دریا پڑا ‘ اور آپ کشتی میں سوار ہو گئے ‘ اثناء راہ میں وہ کشتی میں چلتے چلتے چکر کھانا Ù„Ú¯ÛŒ ‘ ملاح Ù†Û’ کہا معلوم ہوتا ہے کہ اس کشتی میں کوئی غلام اپنے آقا سے بھاگا ہوا سوار ہے ‘ اس وقت یونس علیہ السلام Ù†Û’ فرمایا ہاں بھائی میں اپنے آقا سے بدوں اجازت بھاگ آیا ہوں مجھے اس دریا میں ڈال دو ‘ لوگوں Ù†Û’ آپ Ú©ÛŒ صورت سے نیکی اور بزرگی Ú©Û’ آثار دیکھ کر اس کلام میں شبہ &