Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Scholarly Articles

اسلام حقوق انسانیت کامحافظ


اسلام حقوق انسانیت کامحافظ

اسلام نے معاشرہ کے ہر فرد کی جان ومال، عزت وآبرو کو قابل احترام قراردیا ،ناحق کسی کو قتل کرنا گناہ عظیم ٹہرایا،یہاں تک کہ ایک شخص کا قتل ،ساری انسانیت کے قتل کے برابر قراردیا ،اس لئے کہ جس طرح تمام انسانوں کی جانیں قابل احترام ولائق حرمت وتقدس ہیں اسی طرح ایک شخص کی جان کا بھی اللہ تعالی کے پاس وہی درجہ ہے، اس کا دوسرامفہوم یہ ہے کہ جو شخص ایک انسانی جان ختم کرنے کی جسارت کرسکتا ہے اگر اس شخص کے لئے اسباب فراہم ہوجائیں اور نیوکلیر ہتھیار وغیرہ کے ذریعہ تمام افراد انسانیت کا خاتمہ کرنا ممکن ہو تو وہ اس کے لئے بھی گریز نہیں کرے گا۔

اسی طرح کسی کو ہلاکت خیز مصیبت سے نکال کر اس کی جان بچانا ، ساری انسانیت کو موت کی آغوش سے نکال باہر لانے کے متراد ف ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا –

ترجمہ : ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس شخص نے کسی ایک شخص کو کسی جان کے بدلہ کے بغیر یا زمین میں فساد نہ کرنے کے باوجود قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس شخص نے کسی ایک کے لئے زندگی کاسامان کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو بچالیا۔ (سورۃ المائدۃ ۔32)

اسی طرح اسلام نے ہر شخص کے مال کی حفاظت اور عزت کے تحفظ کا حق دیا ہے، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ-

ترجمہ:ایمان والاوہ ہے کہ جس سے دوسرے لوگ اپنی جان ومال کے بارے میں بے خوف ومامون رہیں۔

(جامع ترمذی ،ابواب الإيمان، باب ما جاء فى أن المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده.حدیث نمبر: 2836 –سنن نسائی،باب صفة المؤمن. الإيمان وشرائعه، حدیث نمبر: 5012- سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن باب حرمة دم المؤمن وماله. حدیث نمبر: 4069- مسند امام احمد، مسند ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ،حدیث نمبر: 9166- مسند فضالۃبن عبید الانصاری رضی اللہ عنہ ،حدیث نمبر: 24694)

سنن ابوداؤد شریف میں حدیث پاک ہے :

عَنْ خَالِدِ بْنِ الْفِرْزِ حَدَّثَنِى أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ : انْطَلِقُوا بِاسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ وَلاَ تَقْتُلُوا شَيْخًا فَانِيًا وَلاَ طِفْلاً وَلاَ صَغِيرًا وَلاَ امْرَأَةً وَلاَ تَغُلُّوا وَضُمُّوا غَنَائِمَكُمْ وَأَصْلِحُوا وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ.

ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کے نام سے آغاز کرتے ہوئے ، اللہ کی پناہ میں آتے ہوئے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ملت کے مطابق جاؤ اور کسی بوڑھے شخص کو قتل مت کرو، نہ کسی بچہ کو، نہ کسی شیرخوار کو اور نہ کسی خاتون کو، نیز مال غنیمت میں خیانت نہ کرو ،غنیمت کے اموال اکٹھا کرو، اصلاح کرو اور ہرکام حسن وخوبی سے انجام دو، یقینا اللہ تعالی احسان کرنے والوں کوپسند فرماتاہے۔ (سنن ابو داؤد،کتاب الجہاد، باب فی دعاء المشرکین، ج1ص352، حدیث نمبر: 2616)

اسلام کاپیام امن ‘ساری مخلوق کے لئے

مسند امام احمد میں حدیث پاک ہے :

عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ مَنْ قَتَلَ صَغِيراً أَوْ كَبِيراً أَوْ أَحْرَقَ نَخْلاً أَوْ قَطَعَ شَجَرَةً مُثْمِرَةً أَوْ ذَبَحَ شَاةً لإِهَابِهَا لَمْ يَرْجِعْ كَفَافاً.

ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے کسی بچہ کاقتل کیا یاکسی بوڑھے کا خون بہایا، یا کھجور کاباغ جلایا، یا کوئی پھل دار درخت کاٹا، یااس علاقہ کے باشندوں کی کسی بکری کو ذبح کیا تو وہ قابل مؤاخذہ وگرفت ہے۔

(مسند امام احمد ،حدیث نمبر: 23029)

اسلام کا پیغام امن وسلامتی صرف اہل اسلام کے لئے نہیں، بلکہ تمام اقوام عالم کے لئے ہے، یہ و ہ ر حمت وا لا دین ہے جو تمام انسانی افراد کی جانوں کو بحیثیت انسان یکساں قابل احترام گردانتا ہے، انسانی شرافت وکرامت کے سبب کسی کی جان لینا تو کجا تکلیف دینا روانہیں رکھتا، جس وقت انسانی افراد کا خون بہانا باعث فخر سمجھاتا تھا اس دور میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مفتوحہ علاقہ کے باشندوں کی بکری ذبح کرنے سے بھی منع فرمایا۔

اس دین سے زیادہ امن کی ضمانت کہاں مل سکتی ہے جس دین میں دشمن کے کھجور کے باغ جلانا ممنوع ہو، اس قانون سے بہتر سلامتی کا ضامن کونسا قانون ہوسکتا ہے جس میں دشمن کے پھل دار درخت کاٹنے کی اجازت نہیں ۔

اسلام نہ صرف انسانیت کے لئے امن کا ضامن ہے بلکہ حیوانات ونباتات اورعالم کے ‘ذرہ ذرہ کیلئے امن وسلامتی کی ضمانت دیتا ہے، درختوں اور سبزہ زاروں کوہلاکت وتخریب کی مسموم فضاء سے محفوظ رکھتاہے ۔

اور جو لوگ نقضِ امن کے مرتکب ، فتنہ وخونریزی کے خواہاں اور برسرپیکار ہیں ،قتل وغارت گری کا بازار گرم کرتے ہیں‘ لوٹ مار اور رہزنی کرتے ہیں ‘دہشت پھیلاکرعَلَمِ بغاوت بلند کرتے ہیں، جبکہ بقائے امن کیلئے فتنہ انگیز سرگرمیوں کی روک تھام کرنا بقائے امن کیلئے لازمی ہے ،سوسائیٹی کی فضا کو پرامن رکھنے کی خاطر معاشرہ سے فتنہ وفساد کے انسداد کے لئے ان کے خلاف مدافعانہ کارروائی کرنا، ان کی طاقت کوختم کرنا، انہیں سزادینا، ازبس ضروری ہے ،شرپسندی وعناد کو روکنے کیلئے یہ دفاعی اقدام اور شدید ترین کارروائی نقضِ امن نہیں بلکہ بجائے خود امن پسند ی ہے، یہ زیادتی نہیں عین انصاف ہے ،یہ شدتِ انتقام نہیں، بلکہ ہرفرد کیلئے امن وسلامتی کا انتظام ہے، دین اسلام نے ان سے مقابلہ کرنے اوران کے تباہ کن حملوں کوروکنے کے لئے خود ساختہ طریقہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ ایسے جانی دشمنوں کے بھی حقوق بیان کئے، ان خون کے پیاسوں کے ساتھ بھی زیادتی کرنے سے منع فرمایا:

وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ۔

ترجمہ:اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے مقابلہ کرو جو تم سے لڑتے ہیں اور ان پر زیادتی مت کرو یقینا اللہ تعالی حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔(سورة البقرة: 190)

ان سے مقابلہ کرنے کے سلسلہ میں چندامور کا پابندکیا:

اعلان جنگ کے بغیرغفلت میں حملہ کرنے سے گریز کیا جائے!

باندھ کر قتل نہ کیا جائے !

آگ میں جلانے کی سزا نہ دی جائے۔ جیسا کہ سنن ابوداؤد شریف میں حدیث پاک ہے:

فَإِنَّهُ لاَ يُعَذِّبُ بِالنَّارِ إِلاَّ رَبُّ النَّارِ.

ترجمہ:آگ کا عذاب دینا سزا وار نہیں مگر اسے جوآگ کا پرور دگار ہے۔ (سنن ابوداود،کتاب الجہاد، باب فی کراہیۃ حرق العدو،ج2،ص362،حدیث نمبر: 2675)

پیامِ اسلام کی آفاقیت

اسلامی مملکت میں کسی مذہب ،کسی قوم یاکسی علاقہ کے اعتبار سے حقوق واہل حقوق کی تقسیم نہیں کی گئی بلکہ بلالحاظ مذہب وملت ، بلااعتبار رنگ ونسل تمام اقوام وقبائل کو انسانیت کے حوالہ سے بنیادی حقوق میں یکساں رکھا گیا۔

اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کوبحیثیت انسان مساویانہ طورپر وہ تمام حقوق دیئے جاتے ہیں جومسلمانوں کے لئے ہوتے ہیں ،اس میں تعصب وجانبداری کی کوئی گنجائش نہیں ۔

انہیں مذہبی آزادی ، معاشی آزادی اور سماجی آزادی کا حق حاصل ہے، ان کے تحفظ کا انتظام کرنا، ان کیلئے امن وسلامتی کی فضاء قائم رکھنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے:

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِىِّ :.... فَقَالَ : أَنَا أَحَقُّ مَنْ أَوْفَى بِذِمَّتِهِ.

ترجمہ:غیرمسلم افراد کے حقوق کی حفاظت میرے ذمہ ہے۔

(سنن کبری للبیہقی،ج8،ص31)

اگر کوئی مسلمان، صاحب معاہدہ غیرمسلم کو قتل کردے جس کے لئے تحفظ فراہم کرنے کا مسلمانوں نے معاہدہ کیا ہے تواس مسلمان شخص کیلئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وعید بیان فرمائی ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رضى الله عنهما عَنِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا-

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے معاہدہ والے غیر مسلم اقلیتی فرد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا، حالانکہ اسکی خوشبوچالیس سال کی مسافت سے سونگھی جاتی ہے۔ (صحیح بخاری شریف،کتاب الجزیۃ،باب اثم من قتل معاہدا بغیر جرم، حدیث نمبر:3166)

سنن ابوداؤد شریف میں حدیث پاک ہے :

قَالَ أَلاَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أَوِ انْتَقَصَهُ أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

ترجمہ:حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:خبردار ! جس شخص نے کسی صاحب معاہدہ غیر مسلم شخص پر ظلم کیا یا اس کا حق چھین لیا یا اسے اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری دی یا اس کی خوشدلی کے بغیر اس کی کوئی چیزلے لی، میں قیامت کے دن اس زیادتی کرنے والے کے خلاف مقدمہ پیش کروں گا۔ (سنن ابوداؤد شریف، باب فى تعشير أهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات. حدیث نمبر: 3054۔)

اسلامی مملکت میں غیر مسلموں پر ڈیفنس ذمہ داریوں کا بارنہیں ڈالا جاتا، اگر بیرون مملکت سے کوئی حملہ ہو یا اندرون مملکت کوئی انہیں ہراساں کرے، تکلیف دینے کے درپے ہوتو مسلمان ان کے جان، مال، عزت وآبرو کے محافظ ونگہبان ہوتے ہیں اوران کی جانب سے دفاعی کارروائی کرتے ہیں اس کے بدلہ غیر مسلموں پرجزیہ عائد کیا جاتا ہے، اقلیتی افراد پر جزیہ کی ذمہ داری عائد کرنے کے سلسلہ میں عورتوں ، بچوں، نابینا اور معذور لوگوں کو مستثنی رکھا گیا۔

ولذلک قال اصحابنا ان من لم يکن من اهل القتال فلاجزية عليه فقالوا من کان اعمی اوزمنا او مفلوجا اوشيخا کبيراً فانيا۔ ۔ ۔ ۔ (احکام القرآن للجصاص،ج3ص125،سورة البراءة ،باب من توخذ منه الجزية)

امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الخراج میں ہے:

عن اسلم مولی عمر ان کتب الی عماله لا تضربوا الجزية علی النساء والصبيان ولاتضربوها الاعلی من جرت عليه الموسی۔

ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت اسلم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے گورنروں کو لکھا: عورتوں اور بچوں کے ذمہ جزیہ لازم مت کرو‘ صرف ایسے مردوں پر جزیہ عائد کرو جوبالغ ہوں۔

نیز اسی کتاب الخراج ص150، میں مذکور ہے:

فماالجاک الی ما اری قال اسال الجزية والحاجة والسن فاخذعمر بيده وذهب به الی منزله فرضخ له بشیء من المنزل ثم ارسل الی خازن بيت المال فقال انظر هذا وضرباء ه فو الله ماانصفنا ان اکلنا شبيبته ثم نخذله عند الهرم۔

ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا گزر ایک مکان کے پاس سے ہوا، جہاں ایک مانگنے والا مانگ رہا تھا، بہت بوڑھا ، نابینا شخص تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا بازوپکڑا اور فرمایا، تمہیں کس چیز نے اس حالت پر مجبور کیا ہے جو میں دیکھ رہاہوں؟ کہنے لگا جزیہ میرے ذمہ ہے، ضروتمند ہوں اور بوڑھا ہوچکا ہوں، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا، اپنے گھر لے گئے اور گھر سے کچھ سرفرازفرمایا پھر بیت المال کے خازن کے پاس پیغام بھیجا کہ اس کا اور اس جیسے بوڑھے غیر مسلموں کا خیال رکھو، اگر ہم نے اس کی جوانی میں اس سے جزیہ وصول کیا پھر بڑھاپے میں اسے بے مدد چھوڑ دیا تواللہ کی قسم! ہم نے انصاف نہیں کیا، پھر آپ نے اس شخص کے اور اس جیسے بوڑھے غیر مسلم افراد کے ذمہ سے جزیہ ساقط کردیا۔

جزیہ چونکہ غیر مسلموں کی جان ومال، عزت وآبروکی حفاظت کی ذمہ داری کا عوض ہے، لہذا جب بھی اہل اسلام اندیشہ کرتے کہ اس ذمہ داری کو پورا نہ کرپائیں گے تو جزیہ کی حاصل شدہ رقم غیر مسلموں کو واپس کردیتے جیساکہ اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے جنگ یرموک کے موقع پر اہل حمص کو اس وقت جزیہ کی رقم واپس کردی ،جب انہیں جنگی مصلحت کی بناء حمص چھوڑنا ضروری ہوچکا تھااور فرمایا ہم نے تمہاری حفاظت کی ذمہ داری لی تھی اس ذمہ داری کے عوض تم نے ہمیں جزیہ دیا تھا ، اب ہم اس ذمہ داری کو سنبھانے سے قاصرہیں، بنابریں ہم جزیہ کی یہ رقوم تمہیں واپس کرتے ہیں۔

مسلمانوں کے اس رویہ سے اہل حمص کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے اور وہ دعائیں مانگنے لگے کہ اللہ تعالی تمہیں سلامتی کے ساتھ واپس لائے اور تمہیں ان پر غلبہ عطافرمائے، اگر رومی ہوتے تو ہمیں پھوٹی کوڑی بھی نہ لوٹاتے۔ (فتوح البلدان ،ج1ص162)