Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Scholarly Articles

ترقی کیا ہے؟


یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ انسان فطرتاً جدت پسند واقع ہوا ہے۔ تجدد و تنوع کی طرف رغبت و میلان اس کا جبلی خاصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ روزِ اول سے اسی میں غلطاں و پیچاں نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال فرماتے ہیں:

طرح نوا فگن کہ ماجدت پسند افتادہ ایم

ایں چہ حیرت خانۂ امروز و فردا ساختی

اس جدت پسندی کی خواہش نے انسان کو نت نئے ایجادات و محیر العقول انکشافات کی جانب راغب کیا ہے اور حیرت خانۂ امر و زوفردا کی تڑپ ہی نے اسے نئی دنیا کی تلاش و جستجو پر ابھارا ہے۔ کبھی وہ ستاروں پر کمندیں پھینکتا نظر آتا ہے تو کبھی سمندروں کو کھنگالتا دکھائی دیتا ہے اور کبھی وہ تیز رفتار راکٹوں کے ذریعے چاند و مریخ تک رسائی حاصل کرنا اور وہاں اپنی بستی بسانا چاہتاہے تو برق رفتار سواریوں کے ذریعے دنوں کا فاصلہ منٹوں میں طے کرتا ہے۔

تاریخ تمدن کے اس لمبے ارتقائی زمانہ کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک وہ ابتدائی دور جس میں آدمی پتھر کے اوزاروں سے کام لیا کرتا تھا۔ دوسرا وہ دور جس میں لوہے کی دریافت ہوگئی تھی اور اس سے آدمی اوزار و ہتیار بنانے لگا تھا۔ تیسرا بجلی کا دور جو یورپ میں صنعتی انقلاب سے شروع ہوتا ہے۔ چوتھا ایٹمی دور جس میں ہم داخل اور دوچار ہیں۔ بلحاظ مادی ترقی یہ آخری دور پچھلے تمام دوروں سے زیادہ ترقی یافتہ اور ماڈرن سمجھا جاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ حقیقی ترقی اور اس کا اصل معیار کیا ہے؟ فقط مادی ترقی ہی سب کچھ ہے یا پھر اس کے دائرہ عمل کا جب کبھی جائزہ لیا جاتا ہے اس میں مذہب و اخلاقٗ تہذیب و تمدن اور انسانیت و روحانیت کو بنیادی اہمیت حاصل رہتی ہے اور مادی ترقی کا درجہ ثانوی حیثیت کا حامل ہوتاہے۔ ان دونوں کے بغیر کامل و مکمل ترقی متصور نہیں ہوتی۔

بلاشبہ انسان نے آج علوم و فنون اور سائنس اور اس کے مختلف شعبہ جات میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی ہیں اور سائنس کے ذریعے بڑے بڑے کام ہونے لگے ہیں لیکن باوصف اس کے آج سارے عالم کو اس سے ایک بڑے نقصان اور عظیم تباہی کا اندیشہ لگا ہوا ہے۔ تصادم وکشمکش نے انسانی زندگی میں خوف دہشت پیدا کر دیا ہے اور آج انسانیت امن و سلامتی کی پیاسی نظر آرہی ہے۔ جب ہم آج کی اس ترقی اور درپیش حالات و مسائل کا اس نقطۂ نظر سے جائزہ لیتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ دنیا میں ظلم و برائیاں پہلے چھوٹے پیمانے پر ہوتی تھیں تو وہ اب بڑے پیمانہ پر اور ترقی یافتہ شکل میں ہونے لگی ہیں۔ پہلے لڑائیاں ہوتی تھیں تو آدمی لوہے اور پتھر کے ٹکڑوں سے لڑتا تھا اور آج جوہری اسلحہ دھماکہ خیز و قیامت بپا بموںٗ شعلہ زن راکٹوں اور زہریلی گیسوں کے ذریعے دنیا کے ایک بڑے حصہ کو بھون ڈالتا اور اس کی پوری آبادی کو تہس نہس کر دیتا ہے۔ پہلے برائی زبان سے پھیلتی تھی اور معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتی تھی اور آج سینماٗ ریڈیو اور پریس کے ذریعے ساری دنیا اور سوسائٹی کو بگاڑا جارہا ہے۔ پہلے چند ڈاکو مل کر کچھ بستیوں کو لوٹتے تھے اور آج صنعتی انقلاب اور جدید بنکنگ سسٹم نے ایسے مواقع فراہم کرلئے ہیں کہ چند ذہین اور شاطر نفوس مل کر پورے معاشرے و سماج کو شریف و سائنٹفک طریقے سے بہ آسانی لوٹ سکتے ہیں۔ پچھلے زمانے میں چنگیز اور ہلا کو صرف خشکی کے علاقوں پر فساد بپا کرسکتے تھے اور آج فسادی اٹھتا ہے تو وہ خشکی تو خشکیٗ سمندروں اور خلاؤں و فضاؤں میں تک اپنی تباہ کن فوجی طاقتوں کو پھیلا دیتا ہے اور جارحیت آج اپنی بے پناہ وسعتوں کے ساتھ عالم انسانی کی فضائے بسیط پر احاطہ کرتے جا رہی ہے ’’ائے روشنی طبع توبہ من بلاشدی‘‘ کی مثل صادق آرہی ہے۔ غرض کہ وہ مادی ترقیوں کا جہاں افادی اور روشن پہلو ہے وہیں ان کا تاریک و بھیانک رخ بھی ہے۔ اتنی بات تو صاف ہے کہ علم و ایجاد کوئی فعل عبث نہیں ہے وہ تو بجائے خود مفید مطلوب و محبوب ہے۔ کسی چیز کے حسن و قبح کی اصل بنیاد اس کے استعمال کے اچھے اور برے ہونے پر ہے۔ جہاں استعمال درست ہو غرض نیک ہوٗ تو وہ موجب رحمت ہے اورجہاں استعمال ہی درست نہ ہو اور غرض فاسد ہو تو وہ سراسر موجب زحمت ہے۔ یہاں اس نقطہ پر پہنچ کر انسان کو مذہب ہی کی تلاش اور اس کی ضرورت پیش آتی ہے اور ایک مکمل ضابطہ حیات کی ضرورت ناگزیر شکل میں اس کے سامنے آتی ہے اس وقت دنیا کی ساری ترقی اور انسان کا اپنا علم اور اس کی عقل رسا یہاں پہنچ کر جواب دے دیتی اور اپنی کم مایگی اور درماندگی کا ثبوت دیتی ہے۔ بالآخر مذہب و دین ہی آگے بڑھ کر ان کی صحیح ترجمانی کرتا ہے اور سب سے پہلے افراد انسانی کو ’’حسن عمل‘‘ کی تعلیم و تلقین کرتا ہے۔

مذہب یہ کہتا ہے کہ انسان کی موت و حیات کا مقصد اور تخلیق کی غرض دراصل انسان کے حسن عمل کا امتحان کرنا ہے اور اس کا ، فرد سے یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ سماج و معاشرہ میں حسن عملٗ مستی کردارٗ نیک و بلند سیرت کا مظاہرہ کرے اپنے رفیق سفر کے لئے وہی چاہے جو خود اپنے لئے چاہتا ہے۔ جھوٹٗ مکرٗ دھوکہٗ خیانت اور ہر قسم کی برائی کا مرتکب نہ بنے یہاں تک کہ انسانی معاشرہ محاسن و اخلاق حسنہ اور امن و سکون کا پیکر و مظہر بن جائے چنانچہ اسلام نے تمام بنی نوع انسان کو نیک بننےٗ کردار میں مستی پیدا کرنے کی بڑے ہی حکمت و موعظت کے ساتھ باربار ہدایت کی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے: والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین امنوا وعملوا الصالحات الخ۔ قسم ہے زمانہ کی کہ بے شک انسان گھاٹے میں ہے مگر مومن و صالح افراد اس گھاٹے سے مامون و محفوظ ہیں۔

ایک دوسرے مقام پر قرآن بلاغت نظام کا اعلان ہے: خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم أیکم احسن عملا۔ یعنی اللہ تعالیٰ موت و حیات کو محض انسان کے حسن عمل کی آزمائش و امتحان کے لئے پیدا کیا ہے۔ انسان کو ابدی زندگی میں کام آنے والی اور اس کوا ونچا اٹھانے والی چیز تو انسان کا نیک عمل ہی ہوتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور ان کے مشن کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بنی نوع انسان کو ایک کنبہ اور قوم میں شامل کردیا جائے اور انسانی معاشرے میں مکارم اخلاق کو پھیلایا جائے چنانچہ نبی اکرم ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: بعثت لا تمم مکارم الاخلاق۔ یعنی مجھے مکارم اخلاق کو پورا کرنے اور انہیں پھیلانے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے اندر سب سے پہلے اس بات کا شعور پیدا کیا کہ اس کاانفرادی وجود ان صفات و خوبیوں کا حامل ہونا چاہئے جو خالق کائنات کی مرضی کے مطابق ہو۔ آپ نے یہ بھی تعلیم دی کہ ہر انسان کو اس بات کا انتظار کئے بغیر کہ دوسرے افراد بھی ان خوبیوں کا مظاہرہ کریں خود اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہئے اور ان پابندیوں کو عملاً قبول کرنا چاہئے جو ان پر عائد کئے گئے ہیں اور ان تمام خوبیوں اور اچھائیوں کو بھی اپنانا چاہئے جو معاشرے کے لئے مفید و نفع بخش ہیں اور جن سے زمانے کے جائز تقاضے بھی پورے ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا بڑا حکیمانہ ارشاد ہے: الحکمۃ ضالۃ المومن فھو احق بھا حیث وجدھا۔ یعنی حکمت اور اچھائی دراصل مومن کی گم شدہ پونجی ہے۔ مومن ہی اس کا زیادہ مستحق ہے کہ وہ اس کو جہاں بھی پائے حاصل کرلے۔ غرض کہ دنیا کی تعمیر و ترقی میں حسب قانون الٰہی حصہ لے کر انسان اپنا فرض انجام دیں گے تو ان کی دنیاوی ترقی بھی عبادات و صدقات کی طرح نجات اخروی کا ذریعہ و وسیلہ ثابت ہوگی۔ لیکن موجودہ صورتِ حال ایسی نہیں ہے مادیت اور روحانیت کا توازن بگڑ گیا ہے اور مادیت روحانیت پر غالب آچکی ہے۔ انسان روح و جسم کا مرکب ہے اگر روح و جسم کا قدرتی توازن بگڑ جائے تو نظام صحت درہم برہم ہوجاتا ہے۔ یہی حال کل کائنات اور سارے انسانی سماج کا ہے۔ آج کے سماج کی ایک دوسری خرابی یہ ہے کہ: لامذہبیت کو ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اس لئے تعلیم بھی ایسی ہی قابل فخر ہے جو صرف لادینی اور سیکولر بنیادوں پر قائم ہو۔ اگر نظام تعلیم میں صرف مادیت ہی مادیت ہوٗ روحانی اقدار و اخلاقی کردار کی کوئی گنجائش نہ ہو تو ان کے نتائج مطابق توقع نہ ہوں گے۔

قرآن کریم کا یوں ارشاد ہوا کہ خدائے ذوالجلال اور دین و مذہب پر یقین رکھنے والے ایک طرف ’’فی الدنیا حسنہ‘‘ کی راہ پر گامزن ہوں تو دوسرے طرف ’’فی الاخرۃ حسنۃ‘‘ کو اپنا دستور العمل بنائیں مطلب یہ کہ ایک فرد مومن کو دین و دنیا کا جامع ہونا چاہئے۔

آج اسلامی تعلیمات سے تغافل ہی نہیں برتا گیا بلکہ اس سے ہم میں تنفر بھی پیدا ہوگیاٗ اسی وجہ سے ہم سیاسی و معاشی غلامی کے ساتھ اب ذہنی غلامی کا شکار ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں عقل و ادراک کے لحاظ سے ہم مغربی دنیا سے نہ صرف متاثر ہوگئے بلکہ ہماری روح صحیح القوام خودداری کے عنصر سے بھی خالی ہوگئی۔

غرض تعلیم کے بدل جانے سے افکار بھی بدل گئےٗ علم جو پہلے کمال نفس کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اب ذریعہ معاش ہوگیا ہے۔

ایسی صورت میں ملت کے نونہال و نوجوان افراد میں دینی تعلیم کو اعلیٰ پیمانے پر رائج کرنے کی آج اس لئے بھی ضرورت ہے کہ انہیں آگے چل کر نفع بخش طریقہ پر اعلیٰ دنیاوی تعلیم حاصل کرنی ہےٗ دینی تعلیم کو صرف نظر کرکے مسلم بچوں نے اعلیٰ دنیاوی تعلیم حاصل کرلی تو ان کے لئے دہریت یا عیسائیت وغیرہ کی آغوش گھلی ہوئی ہےٗ یہی وجہ تھی کہ حضور اکرم رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات میں اس بات کی وضاحت فرمادی کہ خدا ترشیٗ اعمال کی مسولیت اور جواب دہی کے بغیر انسانی معاشرہ زندگی کی گمراہیوں سے کبھی اپنے آپ کو نہیں بچاسکتا کیونکہ اسی خداترسی سے اخلاق کو سوثیں ابلتی ہیں اور انہیں سے انسانیت کی کھیتی سیراب ہوتی ہے۔

اسلام میں معادو معاش کے مسائل دو متوازی خطوط پر چلتے ہیں۔ مادیت میں اگر حلال و حرامٗ جائز و ناجائزٗ طیب اور خبیث کی تمیز رہے تو مادیت بھی روحانیت کے سانچے میں دھل جاتی ہے جس کی وجہ سے دین و دنیا کا فرق مٹ جاتا ہے اگر خلائے بسیط کا سفر اس لئے ہو کہ اس سے انسانی قدروں کو فروغ ملے اور نئی نئی ایجادات کو انسانی خدمت میں لگایا جائے تو یہ عین مذہب و روحانیت بن جاتی ہے اور اسلامی اصطلاح میں اس پر عبادت کا اطلاق ہونے لگتا ہے کیونکہ اس راز کا انکشاف اسلام ہی نے کیا تھا کہ مادی وسائل کو انسانی خدمت میں وقفہ کردینا اور یہ سمجھنا کہ مذہب ہی نے یہ راہ دکھائی ہے عین روحانیت و دین ہےٗ اس طرح خیالات کانٹا بدلتے ہی دنیا و دین کا جامہ پہن لیتے ہے اور جو مادی وسائل خدائے تعالیٰ سے غافل کرنے کا موجب ہوں وہ روحانیت کے حریف ہیں اور جن وسائل سے مخفی ہستی مستحضر رہے وہ دین بھی ہے اور دنیا بھی۔

روس نے ابتدائی تحقیقات کے دوران اپنے خلاباز کو صرف سومیل کی بلندی پر بھیجا تھا مگر چونکہ کمیونزم کی بنیاد سراسر مادیت پر قائم ہے اس لئے اس کے سابق وزیر اعظم کی رگ دہریت پھڑک اٹھی اور اس نے انتہائی گستاخی سے کہا تھا کہ خلائی مسافر کو خدا اوپر بھی نظر نہ آیا اور نہ اسے جنت و دوزخ کا نشان ہی مل سکاٗ یہ تھی خالص مادیت اور بے روحانیت کی دنیا کہ خالق کائنات کی لامحدود دنیا میں سفر کیا جائے اور اسی خالق کا نعوذ باللہ مذاق اڑایا جائے: یضل بہ کثیرا ویھدی بہ کثیرا۔ یعنی اس کائنات کی تنظیم اور ترتیب سے ایک انسان مرتب اور منظم کو شناخت کرکے ہدایت کی راہ پاتا ہے اور اسی کائنات کی وسعتوں سے دوسرا انسان اس کے انکار کی راہ نکال کر گمراہ ہوجاتا ہے۔

بہرحال اخلاقی قدروں سے مادی و سائنسی و صنعت کا انقلاب انسان کو ترقی و خوشحالی کی طرف لے جانے کے بجائے جرائمٗ افلاسٗ بے کاری اور جنگ کی طرف لے جارہا ہے اور اس کی مثالوں میں اضافہ کا سبب بن گیا ہےٗ اس پر طرہ یہ کہ اس نے اپنے مالک حقیقی کو نظر انداز کرکے زندگی کے سفر کے لئے لوہے اور فولاد کی گاڑیاں تو تیار کرلیا مگر ان گاڑیوں کو اس راستے پر چلانا نہیں سیکھا جو خدائے تعالیٰ نے اس کے لئے مقرر کیا تھاٗ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی سرگرمیوں کا رخ نہ صرف غلط راہوں کی طرف ہوگیا بلکہ وہ زندگی کے بجائے موت و ہلاکت کی جانب سفر کرنے لگا۔ خلاصہ یہ کہ ’’آج کا انسان آسمانوں پر اڑنا تو سیکھ گیا مگر انسان بن کر جینا نہ سیکھ سکا۔‘‘

عطا اسلاف کا جذبہ دروں گر

شریک زمرۂ لا یحزنوا کر

خرد کی گتھیاں سلجھا چکا ہوں

مرے مولیٰ مجھے صاحب جنوں کر

از: مولانا مولوی قاری محمد انصار علی صاحب قریشی حفظہ اللہ ، سابق استاذٗجامعہ نظامیہ