Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Scholarly Articles

تصوف اور احسان


الحمد للہ وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لا بنی بعدہ وعلی الہ وجمیع اصحابہ

خلافۃ علی منھاج النبوۃ کا بابرکت دور ختم ہونے کے بعد ملوکیت (بادشاہت) کا دور شروع ہوا اور بہ تدریج للہیت میں کمی اور دنیاداری میں اضافہ ہوتا رہا یہ سلسلہ جاری تھا کہ مغربیت کا مادی سیلاب اٹھا اور جو کچھ دینداری تھی اس کو بھی بہالے گیا۔علوم دینیہ سے عام طور پر توجہ ہٹ گئی جسکے نتیجہ میں علم گھٹ گیا اور جہل بڑھ گیا۔ اور بسا حقائقٗ موافق و مخالف جماعتوں کے غلو کی وجہ سے بمصداق ’’مسلمانان درگور‘ مسلمانی درکتاب ،، سلفِ صالحین کے مکتوبات و ملفوظات میں رہ گئے!از انجملہ تصوف و صوفی کے الفاظ ہیں کہ موافق گروہ نے اس کی کچھ ایسی تعبیر کی کہ مخالفین نے سرے سے اس کا انکار کردیا۔حتی کہ بعضوں نے تصوف کے ڈانڈے فلسفہ سے ملا دئے اور بعضوں نے تو اس کو ہندو مذہب سے ماخوذ قرار دیا۔ خصوص مسئلہ ’’وحدۃ الوجود‘‘ کی وجہ سے جو ایک دقیق اور وجدانی مسئلہ ہے تصوف اور صوفی کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے۔ اس مسئلہ کی آئندہ وضاحت کی جائے گی۔

تصوف اور احسان  :  تصوف Ú©Û’ ماخذ Ùˆ مشتقات مختلف بتائے گئے ہیں مگر صحیح یہ ہے کہ ’’صوف‘‘ سے ماخوذ ہے جس Ú©Û’ معنٰی اون Ùˆ پشمین ہے۔شریعت میں لباس Ú©ÛŒ نسبت عام اجازت ہے۔ البس ماشئتٗ کہ جو چاہو پہنوٗ اس Ø­Ú©Ù… عام Ú©Û’ ساتھ عدم اسراف Ùˆ مخیلہ Ú©ÛŒ قید ہے۔ اسراف Ú©Û’ معنی حد سے تجاوز ہے یعنی حرام یا حدحرام تک نہ پہنچائے۔ اور مخیلہ کا مطلب تکبر Ùˆ بڑائی کا خیال نہ رہے یعنی لباس Ú©Û’ استعمال میں فخر Ùˆ کبر کا خیال نہ رہے اور حرمت Ú©ÛŒ حدتک نہ پہنچے۔ اللہ Ú©Û’ نیک بندے ظاہر Ùˆ باطن ہر ایک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’ اسوہ Ú©Ùˆ پیش نظر رکھتے ہیںٗ قرآن مجید میں ’’وما انا من المتکلفین‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے میں کسی امر میں بھی تکلف گوارا نہیں کرتا۔ لباس میں بھی حضور Ù†Û’ پر تکلف زرق برق Ú©Ùˆ پسند نہیں فرمایاٗ سادہ اور موٹے ڈھاٹے لباس Ú©Ùˆ اختیار فرمایا اور اس Ú©ÛŒ ترغیب بھی دلائی اور اس Ú©ÛŒ منفعت بھی ظاہر فرمائیٗ چنانچہ ارشاد ہے: علیکم بلباس الصوف تجدوا حلاوۃ الایمان فی قلوبکم۔ تو اون کالباس اختیار کرو تو اپنے دلوں میں ایمان Ú©ÛŒ حلاوت Ùˆ شیرینی پاؤ Ú¯Û’Û” اللہ جل شانۂ Ù†Û’ نزول وحی Ú©Û’ بعد اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Ùˆ خطاب فرمایا: یا ایھا المزملٗ Ùˆ یا ایھا المدثر۔ اے کملی اوڑھے ہوئے نبی اٹھئے اور اللہ Ú©Û’ احکام اس Ú©Û’ بندوں Ú©Ùˆ سنائیے۔ اور اپنے رب Ú©ÛŒ عظمت Ùˆ کبریائی ان Ú©Û’ دل نشین کیجئےٗ Ú©Ù¾Ú‘ÙˆÚº Ú©Ùˆ پاک Ùˆ صاف رکھئےٗ گندگی سے (پہلے Ú©ÛŒ طرح) دور ہئے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ Ú©Ùˆ بھی اون کا لباس پسند ہے۔ اسی بنا پر صحابہ کرام زرق برق اور شوخ لباس Ú©Û’ بجائے موٹے ڈھاٹے سادہ لباس ہی Ú©Ùˆ استعمال فرماتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم Ú©Û’ بعد ان Ú©Û’ نقشِ قدم پر چلنے والے بزرگانِ دین Ù†Û’ بھی صوف Ú©Û’ لباس Ú©Ùˆ اپنے لئے خاص کرلیا جس Ú©ÛŒ وجہ سے ان Ú©Ùˆ صوفی سے یاد کیا گیا۔ لیکن اس Ú©ÛŒ حقیقی وجہ وہ ہے جو حضرت جعفر صادق رضی اللہ عنہ Ù†Û’ بیان فرمائی ہے:

من عاش فی ظاہر الرسول فھو سنیٗ ومن عاش فی باطن الرسول فھو صوفی

جو ظاہر رسول پر چلے وہ سنی ہے۔ اور جو باطن رسول کے مطابق زندگی بسر کرے وہ صوفی ہے۔ (رواہ ابونعیم فی الحلیۃ)

ظاہر رسول  :  ظاہر رسول سے مراد رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’ بیان کردہ شرائع Ùˆ احکام ہیں اور یہ علم نافع ہے جس Ú©Ùˆ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم Ù†Û’ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’ قول Ùˆ فعل سے اخذ کیا۔تابعین اور ائمہ سلف Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ سیکھا اور ان پر عمل کیا۔ علم کتابٗ سنتٗ تفسیرٗ اخبارٗ فقہ انہی Ú©Û’ توابع ہیں۔

باطن رسول  :  باطنِ رسول سے مراد وہ اسرار ہیں جو علم شرائع اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’ احکام پر عمل کرنے اور اس Ú©Û’ اصل ماخذ پر واقف ہونے کا نتیجہ ہےٗ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ Ù†Û’ ظاہر Ùˆ باطن Ú©Ùˆ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:

حفظت من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعائین فاما احدھما فبثثتہ واما الاخر فلو بثثتہ قطع ھذا اللعرم یعنی مجری الطعام

 

 

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم کے دو ظرف محفوظ رکھے ہیں ان میں سے ایک کو میں نے لوگوں میںپھیلا دیا ہےٗ دوسرے کو بھیٗ اگر عام طورپر پھیلادوں تومیرا حلق کاٹ دیا جائے۔(بخاری)

        خواجہ محمد پارسا رحمۃ اللہ علیہ Ù†Û’ فصل الخطاب میں اس حدیث Ú©Û’ یہ معنٰی لکھا ہے:

قالوا المراد بالاول علم الاحکام والاخلاق وبالثانی علم الاسرار

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس قول میںپہلے ظرف سے مراد علم احکام و اخلاق ہے اور دوسرے سے مراد علم اسرار ہے

        علم احکام Ùˆ اخلاق پر عمل پیرا ہونے سے علم اسرار حاصل ہوتا ہے چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ وضاحت فرمادی ہے کہ علم سیکھو اور اس پر عمل کرو تو ایک ایسا علم تم Ú©Ùˆ حاصل ہوگا جس Ú©Ùˆ تم Ù†Û’ سیکھا نہیں ہے۔

        حاصلِ کلام یہ کہٗ عباداتٗ معاملات وغیرہ کا صرف علم حاصل کرلینا کافی نہیں حصولِ علم کامقصد عمل ہےٗ اور اس سے معرفت حاصل ہوتی ہے۔ بعض محققین کا قول ’’ حق رانشناسی تو بایں کنزو قدوری‘‘ اسی حقیقت Ú©ÛŒ جانب اشارہ ہے اس سے فقہ یا کتبِ فقہ Ú©ÛŒ اہمیت Ú©Ùˆ گھٹانا نہیں ہےٗ بلکہ عمل Ú©ÛŒ جانب توجہ دلانا ہے جس سے معرفت Ú©Ùˆ حصول ہوتا ہے اور یوں بھی امام اعظم ابوحنیفہ Ø’ Ù†Û’ فقہ Ú©ÛŒ تعریف ’’معرفۃ النفس مالھا وما علیھا‘‘ Ú©ÛŒ ہے۔

        غرض کہ یہ علم ہر شخص Ú©Û’ مجاہدہ Ùˆ ریاضتٗ استعداد Ùˆ صلاحیت Ú©Û’ اعتبار سے عنایت ہوتا ہے جس کا قرآن مجید میں یہ ضابطہ بیان کیا گیا ہے:

ولا یحیطون بشیء من علمہ الا بما شاء

اللہ تعالیٰ جس قدر چاہتا ہے اسی قدر علم انہیں حاصل ہوتاہے۔

        اورج علم خدائے تعالیٰ Ú©ÛŒ طرف سے کسی Ú©Ùˆ دیا جاتا ہے وہ ہر وقت Ùˆ ہرآن حاصل نہیں ہوتا۔ چنانچہ اسی حالت Ú©ÛŒ طرف اشارہ کیا گیا ہے:

مشاھدۃ الابرار بین التجلی والاستتار

ابرار کا مشاہدہ تجلی اور استتار کے بین بین ہوتا ہے۔

        تصوف اور صوفی کا حقیقی مفہوم یہی ہے مزید وضاحت Ú©Û’ لئے رسالہ کشف المحجوب Ú©ÛŒ عبارت ذیل ملاحظہ ہو۔

تصوف راسہ درجہ است یکے متصوف بود کہ برائے جاہ Ùˆ مال خود را مانند صوفیان حقیقی کند۔و برائے خوردن Ùˆ آشامیدن سر گردان شدہ گردد کہ المتصوف عند الصوفیۃ کالذباب Ùˆ عند غیرہم کالذئاب کہ ہمہ عمر Ú†ÙˆÚº گردد  بطلب مردار باشد۔دوم متصوف است Ú©Û’ بے مجہادہ ایں درجہ طلبد Ùˆ خود را مانند صوفیا نماید۔

تصوف کے تین درجے ہیں ایک متصوف جو جاہ و مال کے لئے خود کو حقیقی صوفیوں کی طرح بناتا ہے اور کھانے پینے کے لئے سر گرداں رہتا ہےٗ صوفیہ کے نزدیک ایسا متصوف بناوٹی صوفی مکھی کی طرح ہے اور غیر صوفیہ کے پاس بھیڑئے کے مانند ہے کہ تمام عمر بھیڑئے کی طرح مردار کی تلاش میں رہتا ہے۔ دوسرا درجہ متصوِف کا ہے جو مجاہدہ کے بغیر حقیقی تصوف کے مرتبہ کا خواہاں ہوتا ہے اور خود کو صوفیا کی طرح ظاہر کرتا ہے۔

        ان دو قسم Ú©Û’ صوفیا اور ان Ú©Û’ اعمال Ùˆ اقوال Ú©ÛŒ وجہ سے عام طورپر تصوف کا انکار اور صوفیا Ú©ÛŒ تحقیر Ú©ÛŒ جاتی ہے۔ ان Ú©ÛŒ علامت یہ ہے کہ تصوف Ú©Û’ اصطلاحات کا لوگوں میں پرچار کرتے ہیں۔ اور پرزور بیان سے لوگوں Ú©Ùˆ اپنا گرویدہ بنالیتے ہیں۔ ان Ú©Û’ پاس عمل Ú©ÛŒ کوئی اہمیت نہیں نہ خود عمل کرتے ہیں اور نہ اپنے وابستگان Ú©Ùˆ عمل Ú©ÛŒ ترغیب دلاتے ہیں۔ ان Ú©Û’ نزدیک صرف وحدۃ الوجود اور دیگر اصطلاحات تصوف Ú©ÛŒ توضیح Ùˆ تشریح سب Ú©Ú†Ú¾ ہے۔

سوم صوفی حقیقی بودکہ از خود فانی و بحق باقی گردد واز قبضۂ طبائع رستہ و بحقائق تصوف پیوستہ باشد صوفی حقیقی کہ بقرب حق تعالیٰ در صف اول باشد و باوصاف امیر المومنین ابوبکر صدیق موصوف گردد لان الصفا صفۃ الصدیق آنکہ بطبیعت مصفا باشد و آنکہ مستغرق محبت باشد آنرا صوفی گویند۔

تیسرا درجہ حقیقی صوفی کا ہے جو اپنی خودی کو مٹاکر حق کے ساتھ باقی رہتا ہے۔ اور طبیعتوں کے قبضہ سے نکل کر حقائق تصوف کے ساتھ تصوف کے ساتھ مل جاتا ہے۔ حقیقی صوفی قرب حق کی وجہ سے صف اول میں ہوتاہے اور امیر المونین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اوصاف سے متصف ہوجاتا ہے کیونکہ صفائی حضرت صدیق کی صفت ہےٗ صدیق وہ ہے جو طبیعت کے اعتبار سے پاک صاف ہو اور جو محبت الٰہی میں ڈوب جائے اس کو صوفی کہتے ہیں۔

صوفی کا باطنٗ باطنِ رسول کا تابع ہوتاہے  :  سابق میں بیان کیا گیا ہے کہ ظاہر رسول پر کاربند سنی ہےٗ اور باطنِ رسول Ú©Û’ مطابق زندگی گزارنے والا صوفی ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ظاہر رسول پر عمل پیرا ہوئے بغیر باطنِ رسول تک رسائی نہیں ہوسکتی تو معلوم ہوا کہ صوفی دونوں کا جامع ہوتا ہے۔ اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن حق تعالیٰ Ú©Û’ صفاتِ کمالیہ کا آئینہ ہےٗ کوئی وقت ایسا نہیں گزرتا تھا جو یاد الٰہی سے خالی ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا Ù†Û’ : کان خلقہ القرآن (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’ اخلاق قرآن Ú©Û’ موافق تھے) سے اسی جانب اشارہ فرمایا ہے چنانچہ صاحب عوارف المعارف لکھتے ہیں:

ولا یبعد ان قول عائشۃ کان خلقہ القران فیہ رمز غامض و ایماء خفی الی الاخلاق الربانیۃ فاحتشمت الحضرۃ الالھیۃ ان تقول کان متخلقا باخلاق اللہ تعالیٰ فعبرت عن المعنی بقولھا خلقہ القرآن استحیاء من سبحان الجلال وستر الحال بلطف المقال وھذا من وفور عقلھا و کمال ادبھا۔

یہ امر بعید نہیں کہ بلاشبہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس قول میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن کے موافق تھے۔ ایک باریک رمز اور خفی اشارہ خدائی اخلاق کی طرف ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا حضرت کو اخلاقِ الٰہی کا حقیقی مظہر کہنے سے ڈرتے ہوئے اصل حقیقت کو چھپانے کے لئے نہایت خوبی سے اصل مطلب کی اپنے اس قول سے تعبیر کی ہے کہ حضرت اخلاق قرآن کے مطابق تھے۔ اور یہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے کمالِ عقل و ادب کی دلیل ہے۔

        اسی لئے ’’فاذکرونی اذکرکم‘‘تم مجھے یاد کرو میں تم Ú©Ùˆ یاد کروں گا۔ اور ’’اذکروا اللہ ذکراً کثیرا‘‘کثرتِ ذکر کا Ø­Ú©Ù… ہوا ہے۔ چونکہ صوفی کا باطن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’ باطن کا تابع ہوتا ہے اس لئے صوفیاء Ú©Û’ باطنی حالات علی قدر مراتب وہی ہوں Ú¯Û’ جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’ تھےٗ ہمیشہ یادِ الٰہی میں مشغول رہنا ان کا امتیاز نشان ہے۔ قرآن مجید میں ان کا وصف یہ بیان کیا گیا ہے: رجال لا تلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ۔ چند ایسے مردانِ خدا ہیں جن Ú©Ùˆ تجارت اور معاملہ ذکر الٰہی سے غافل نہیں کرتا۔ ہر حال میں وہ ذکر الٰہی میں مشتغل اور احکامِ الٰہی Ú©Û’ پابند ہوتے ہیں چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ Ú©Û’ احوال میں مذکور ہے کہ آپ کا پیشہ تجارت تھا۔ ایک مرتبہ آپ Ù†Û’ شریک تجارت سے فرمایا کہ دیکھو فلاں Ú©Ù¾Ú‘Û’ Ú©ÛŒ تھا Ù† میں عیب ہے۔ بوقت فروخت خریدار Ú©Ùˆ آگاہ کردینا۔ شریکِ تجارت Ú©Ùˆ بوقت فروخت حضرت امام Ú©ÛŒ یہ ہدایت یاد نہ رہی اور بلا ذکر عیب تھان Ú©Ùˆ فروخت کردیاٗ امام صاحب Ú©Ùˆ جب معلوم ہوا تو آپ قیمت فروخت Ù„Û’ کر خریدار کا پتہ معلوم کرکے اس Ú©Û’ مقام سکونت پر پہنچے اور خریدار سے فرمایا کہ فلاں تھان جو تم Ù†Û’ خریدا ہے اس میں یہ عیب ہے اس لحاظ سے اس Ú©ÛŒ قیمت اس قدر ہوگی اور تم Ù†Û’ جو قیمت دی ہے وہ بہت زائد ہے۔ اب اگر تھان تم Ú©Ùˆ پسند ہے تو یہ زائد قیمت واپس Ù„Û’ لو ورنہ پوری قیمت واپس Ú©ÛŒ جاتی ہے تھان واپس کردو۔ خریدار Ú©Ùˆ امام صاحب Ú©ÛŒ اس دیانت اور Ø­Ú©Ù… الٰہی Ú©ÛŒ اس پابندی پر تعجب ہوا۔ مردان خدا Ú©Û’ حالات پر عام طور سے اسی طرح اظہار تعجب کیا جاتا رہا ہے۔

 Ø§Ø²: زبدۃ الاصفیاء حضرت شیخن احمد کامل شطاری رحمۃ اللہ علیہ