<span class="Apple-style-span" style="font-size: 29px; ">حدیبیہ کے صلحنامہ میں منجملہ شرائط کے ایک شرط یہ بھی تھی کہ قبائل عرب میں سے کوئی بھی قبیلہ فریقین میں سے کسی کے ساتھ بھی معاہدہ کرسکتا ہے ۔ اس شرط کے مطابق بنو بکر قریش کے حلیف ہوئے اور بنوخزاعہ مسلمانوں کے حلیف قرار پائے۔</span> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p> </o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> بنوبکر اور بنوخزاعہ کے درمیان سخت دشمنی تھی، بنوبکر اپنی پرانی عداوت کی وجہ بنو خزاعہ سے انتقام لینے کے لئے کفار قریش سے مل کر اُن پر حملہ آور ہوئے، اس حملہ میں قریش کے سرداروں نے بنو خزاعہ کے خلاف بنی بکر کو قتل کے لئے آدمی اور اسلحہ فراہم کئے ، اس حملہ کی وجہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ عملی طور پر قریش کی جانب سے ٹوٹ گیا ، بنو خزاعہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فریادی ہوئے اور آپ سے مدد طلب کئے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے پاس پرامن تین شرائط روانہ فرمائیں کہ وہ ان تین شرطوں سے کوئی ایک شرط قبول کریں :</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; ">1) بنو خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہا اداکیا جائے ۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; ">2) قریش بنوبکر کی حمایت سے دست بردار ہوجائیں ۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; ">3) حدیبیہ کے معاہدہ کی برخواستگی کا اعلان کیا جائے۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> قریش کے نمائندوں میں سے کسی نے جواب دیا کہ ہم آخری شرط منظور کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا ۔ قریش نے قاصد کو جواب دیتے وقت تو بڑی بے باکی سے اعلان کیا لیکن قاصد واپس جانے کے بعد سردارانِ قریش نادم و پشیمان ہوئے اور سب نے ابوسفیان سے کہا کہ تم جاکر معاہدہ کی تجدید کرلو ورنہ اس کا انجام بہت خطرناک ہوسکتا ہے ابوسفیان مدینہ طیبہ پہنچ کر گفتگو کرنے کی بہت کوشش کی لیکن بات نہ بنی ، بالآخر معاہدہ کی تجدید کئے بغیر لوٹنا پڑا ۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جہاد کی تیاری کا حکم فرمایا اور حلیف قبائل کو تیاریوں کے لئے حکم نامہ بھیجا ، مگر آپ نے کسی سے یہ نہیں فرمایا کہ کس سے جہاد کرنا ہے یہاں تک کہ آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی نہیں فرمایا ، خاموشی کے ساتھ معرکہ کی تیاری ہوتی رہی ، اس کا مقصد یہ تھا کہ اہل مکہ کو معاملہ کی خبر نہ ہو ۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے قریش کو ایک خط لکھا جس میں انتظامی خفیہ معاملات کی مخبری تھی ۔ اس خط کو حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کے ذریعہ مکہ مکرمہ روانہ کیا ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم عطا فرمایا ہے، وہ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم جو ماکان ومایکون کی خبر رکھتے ہیں ، قیامت تک رونما ہونے والے واقعات و حوادث کی خبر دیتے ہیں اور ان کا ایک ایک جزئیہ بیان فرماتے ہیں، نہ صرف زمین کی بلکہ آسمانوں کی باتیں جنت و دوزخ کی تفصیلات ، اہل جنت و اہل دوزخ کی تعداد ، ان کے احوال و کوائف ،ہر ہر چیز سے واقف و باخبر ہیں ، کیا آپ مدینہ منورہ میں ہونے والے اس واقعہ سے باخبر نہ ہوں گے ؟ یقینا آپ کواس واقعہ کا بخوبی علم تھا ، اسی لئے آپ نے حضرت علی ، حضرت زبیر اور حضرت مقداد رضی اللہ عنہم کو یہ تفصیلات بتلاتے ہوئے حکم فرمایا کہ تم لوگ ’’روضۂ خاخ‘‘ پر جاؤ وہاں ایک عورت ہے جس کے پاس ایک خط ہے وہ خط اس سے حاصل کرکے میرے پاس لے آؤ ‘ تینوں صحابہ کرام گھوڑوں پر سوار ہوکر بڑی تیز ی کے ساتھ ’’روضہ خاخ‘‘ پہنچے اور اس عورت کو ویسا ہی پایا جیسا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اور اس عورت سے خط طلب کیا ، اُس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : خدا کی قسم ! حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلط بات نہیں فرماسکتے اور نہ ہم جھوٹے ہیں جب آپ نے سختی سے گفتگو کی تو اس عورت نے صحیح صحیح بتادیا اور اپنے بالوں کے جوڑے سے خط نکال کردے دیا ۔ <o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; text-indent: 0.5in; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; ">یہ تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خط لے کر بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے ، حضو راکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ سے اس کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ میں نے اپنا دین تبدیل کیا ہے اور نہ مرتد ہوا ہوں ، میں نے اہل مکہ کو صرف اس لئے خط لکھا کہ مکہ مکرمہ میں میرے اہل و عیال ہیں وہاں میرا کوئی اور رشتہ دار نہیں جو ان کی خیر خواہی و خبر گیری کرے ، میرے سوا دوسرے مہاجرین کے رشتہ دار مکہ مکرمہ میں موجود ہیں وہ ان کی خبر گیری کرتے رہتے ہیں ، مجھے اس بات کامکمل یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو شکست دے گا،میں نے چاہا کہ خط کے ذریعہ مکہ والوں کو معاملہ کی اطلاع دے دوں تاکہ ان پر میرا احسان ہوجائے اور میرے اہل و عیال سے ہمدردی کا معاملہ کریں اگرچہ میرے خط سے اہل مکہ کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔<o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; text-indent: 0.5in; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذر کو قبول فرمالیااور انہیں معاف فرمادیا ۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; text-indent: 0.5in; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><b><span lang="ER" style="font-size: 22pt; ">مکہ مکرمہ کوروانگی :</span></b><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; text-indent: 0.5in; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> دس رمضان المبارک کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے راستہ میں اور دو ہزار افراد شامل ہوگئے جملہ بارہ ہزار کا لشکر مکہ مکرمہ روانہ ہوا ۔<o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; text-indent: 0.5in; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> مکہ مکرمہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر مقام ’’مرالظہران‘‘ پہنچ کر لشکر نے پڑاؤ ڈالا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ہر شخص اپنا الگ چولہا جلائے جب بارہ ہزار صحابہ کرام نے الگ الگ چولہا جلایا تو مرالظہران کے وسیع و عریض میدان میں میلوں دور تک آگ ہی آگ نظر آنے لگی، حضرت عباس رضی اللہ عنہ راستہ ہی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ چکے تھے۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; text-indent: 0.5in; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> قریش کو یہ اطلاع تو مل چکی تھی کہ مسلمانوں کا لشکر مدینہ طیبہ سے نکل چکا ہے لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ مسلمان اتنے قریب پہنچ گئے ہیں۔ قریش نے تحقیق خبر کے لئے ابوسفیان ، بدیل بن ورقاء اور حکیم بن حزام کو بھیجا ،یہ تینوں تحقیق کے لئے نکلے اور مرالظہران میں جل رہی آگ دیکھ کر حیران رہ گئے۔<o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; text-indent: 0.5in; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; ">ابو سفیان نے کہا بنی خزاعہ کا قبیلہ اتنا تو نہیں کہ مرالظہران کا طویل میدان بھر جائے، حضرت عباس رضی اللہ عنہ مکہ والوں پر رحم کھاکر انہیں خبردار کرنے اور یہ کہنے کے لئے آرہے تھے کہ اسلامی لشکر مکہ میں داخل ہونے سے پہلے مکہ والے امن مانگ لیں تو ان کے لئے بہتر ہوگا اسی اثنا میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ابوسفیان اور ان کے دو ساتھیوں سے ملاقات ہوئی ہے ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا لشکر پہنچ چکا ہے ، ابو سفیان نے مشورہ طلب کیا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلو، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام نے ابوسفیان کو دیکھ کر فرمایا کافروں کا سردار ہمارے قبضہ میں ہے ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ ابوسفیان کو لے کر فوراً بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے ابو سفیان کو پناہ دی ہے ۔ چنانچہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کو معاف فرمادیا۔ وہ ابوسفیان جنہوں نے اسلام کے خلاف بدر اور اُحد کی لڑائیاں لڑیں ، قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف اُبھارا بانی اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کو شہید کرنے کی ناپاک سازشیں کیں ،مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کے لئے ہر طریقہ اختیار کیا یقینا وہ سزا کے مستحق تھے لیکن حضور اکرم رحمت مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمۃ للعالمینی کے قربان جائیں آپ نے انہیں بھی درگذر فرمادیا۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; text-indent: 0.5in; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> حضور پا ک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابوسفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکر اسلامی فوج کے مناظر دکھائیں ۔ ابوسفیان نے ایک ایک قبیلہ کو بڑی آن بان سے ہتھیاروں سے مسلح ، سازوسامان سے بھرا آتے دیکھا قبیلہ غفار ، قبیلہ جہینہ، سعدبن ہذیم اور سلیم جیسے جنگجو قبائل عرب لشکر اسلام میں شامل تھے آخر میں آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جا نثاروں کے جھرمٹ میں تشریف لارہے تھے۔اس روحانی منظر اور نورانی ماحول کا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے دل پر گہرا اثر پڑا۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> 20! رمضان المبارک 8 ہجری پیر کے دن حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم مقام کداء سے گذرتے ہوئے بالائی جانب سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو مقام کداء سے داخل ہونے اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہٗ کو مقام کدیٰ سے داخل ہونے کا حکم فرمایا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تاکید فرمائی کہ لڑنے میں پہل نہ کرنا اور جو شخص تم سے لڑنے کے درپے ہو صرف اسی سے مقابلہ کرنا۔ اس طرح مسلمان تین راستوں سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ کہیں مقابلہ کی نوبت نہیں آئی سوائے مقام کدیٰ کے جہاں </span><span lang="ER" dir="LTR" style="font-size: 22pt; "> </span><span lang="ER" style="font-size: 22pt; ">سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ داخل ہوئے بنوبکر، بنو حارث اور ہذیل اور قریش کے کچھ قبائل مقابلہ کے لئے تیار تھے ، حضرت خالد رضی اللہ عنہ آتے ہی ان لوگوں نے آپ پر حملہ کیا ، آپ نے ان کے حملہ کا دفاعی جواب دیتے ہوئے ان کا مقابلہ کیا اور کفار کو شکست ہوئی ، نتیجہ میں دومسلمان شہید ہوئے اور بنوبکر وغیرہ کے بیس بائیس آدمی ہلاک ہوگئے۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><b><span lang="ER" style="font-size: 22pt; ">عفو و درگذر کا عام اعلان :</span></b><b><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></b></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> کفار مکہ جواعلانِ نبوت سے لے کر ہجرت تک اور ہجرت مدینہ سے صلح حدیبیہ تک حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتے رہے ، ایذا رسانی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا ، انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کی بارہا ناپاک سازشیں کیں قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔ ایسے جانی دشمنوں اور خون کے پیاسوں پر غلبہ حاصل ہوا تو رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت و الفت سے لبریز فرمان عالیشان جاری فرمایا اور عام اعلان فرمایا آج تم سے کوئی باز پرس نہیں تم لوگ آزاد ہو۔الیوم یوم المرحمۃ آج تو رحمت و مہربانی فرمانے کا دن ہے ۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><b><span lang="ER" style="font-size: 22pt; ">شاہان دنیا کا طریقۂ کار :</span></b><b><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></b></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; ">جب سلطنت کی باگ ڈور ہاتھ میں آتی ہے تو انسان ظلم و انصاف کا فرق بھول جاتا ہے ، دنیا کی جتنی سوپر پاور مملکتیں گذری ہیں انہوں نے اپنی فتح کا جشن مظلوم افراد کا خون بہا کر منایا ہے دنیا میں جب بڑی بڑی فتوحات ہوئیں تو فتح کے بعد مفتوحہ علاقہ میں خون کی ندیاں بہائی گئیں ۔ تاتاری قوم جب پوری قوت کے ساتھ بغداد میں داخل ہوئی تو انہوں نے سارے شہر کو تہس نہس کردیا انسانی خون کا سمندر بہادیا۔صلیبیوں نے جب ملک شام پرغلبہ و اقتدار حاصل کیا توخون کی ندیاں رواں کردیں ، اس وقت مسجد اقصیٰ میں گھوڑوں کے گھٹنے انسانی خون میں ڈوبے ہوئے تھے ، ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ دنیا نے صلیبیوں کا یہ اقتدار دیکھا جہاں انسانی خون کی ندیاں بہتی ہیں انسانیت سسک سسک کر دم توڑتی ہے، فتح مکہ کے موقع پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے تمام بادشاہوں ، سربراہانِ مملکت ، ارباب سلطنت کے لئے عظیم مثال قائم فرمائی۔ اقتدار حاصل کرنے والوں کو ایک آفاقی پیام دیا ، فتح مکہ جیسا عظیم کارنامہ ہوا جانی دشمنوں اور خون کے پیاسوں پر اقتدار حاصل کرلیا ،چاہتے تو تمام کافروں کو قتل کیا جاسکتاتھا ، لیکن آپ نے ارشاد فرمایا :آج تم پر کوئی داروگیر نہیں تم لوگ آزاد ہوپر امن رہو۔الیوم یوم المرحمۃ آج تو رحمت و مہربانی فرمانے کا دن ہے ۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> ۔ جو شخص ہتھیار ڈال دے اسکے لئے امان ہے ۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> ۔ جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے اس کے لئے امان ہے۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> ۔ جو شخص خانہ کعبہ میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> ۔ جو شخص ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> ۔ جو شخص ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><b><span lang="ER" style="font-size: 22pt; ">گستاخ کے لئے امان نہیں :</span></b><b><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></b></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> امان کا یہ اعلان اگرچہ تمام لوگوں کے لئے عام تھا لیکن چند افراد اُس سے مستثنیٰ تھے جنہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کا ارتکاب کیا جس کی وجہ وہ قابل گردن زدنی ہوچکے تھے اس لئے ان کے قتل کا حکم دیا گیا ۔ ایک گستاخ کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسے قتل کرڈالو اگرچہ وہ خانہ کعبہ کے غلاف سے چمٹا ہوا ہو۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> یہاں غور کیا جائے کہ عین حرم شریف میں قتل کردینے کا حکم دیا گیا جب کہ کعبۃ اللہ شریف کے بارے میں ارشاد خدا وندی ہے جو شخص اس میں داخل ہوا وہ امن والا ہے۔(سورہ ال عمران ۔97)</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> ہر شخص خانہ کعبہ میں داخل ہوتے ہی امن و سلامتی پالیتا ہے اگر کوئی حرم شریف میں اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لے تو اس کو یہ حق نہیں کہ حرم شریف میں اسے تکلیف پہنچائے لیکن ان افراد نے بارگاہِ نبوت میں گستاخی کرکے ایسے جرم کا ارتکاب کیا کہ زمین کا کوئی خطہ ان کی پناہ گاہ نہیں بن سکتا تھا یہاں تک کہ وہ حرم کعبہ میں غلاف کعبہ سے چمٹے ہوئے ہوں تب بھی اُنہیں امان نہ ملتا۔ ان گستاخوں کا انجام صرف یہ تھا کہ انہیں قتل کردیا جائے۔ ان میں عبدالعزیٰ بن خطل کعبہ کے پردوں میں چھپ گیا تھا ، حضرت سعید بن حریث مخزومی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔ حویرث بن نقید اور حارث بن ہشام ان دونوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔ مقیس بن صبابہ کونُمَیْلَہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ، ’’قریبہ‘‘ یہ ابن خطل کی باندی تھی اس کو بھی قتل کیا گیا۔(نسائی شریف ۔ ص 169، سبل الھدی ۔ ج5۔ ص225/226)</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مبارک اونٹنی پر سوار ہوکر مسجد حرام میں داخل ہوئے ۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہاور خانہ کعبہ کے کلید بردار حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے مسجد حرام میں اونٹنی بٹھائی، کعبۃ اللہ شریف کا طواف کیا اور حجر اسودکو بوسہ دیا ۔ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اور یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا ترجمہ :حق آیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل مٹنے ہی والا ہے ۔ مشرکوں نے خانۂ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت بٹھا رکھے تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام اور عین خانۂ کعبہ کو بتوں کی نجاست و آلائش سے پاک کیا ۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کعبۃ اللہ شریف کے چھت پر چڑھ کر نماز ظہر کی اذان کہی اس طرح مکہ مکرمہ کے کفر آلود ماحول کواذان بلال نے نور اسلام سے منور کیا ، اور اس کی فضاؤں میں عظمت اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><b><span lang="ER" style="font-size: 22pt; ">ابلیس لعین کی مایوسی:</span></b><b><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></b></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> فتح مکہ کے دن ابلیس لعین نے رنج و غم کی وجہ سے ایک زبردست چیخ ماری جس کے سبب اس کی پوری اولاد اس کے پاس جمع ہوگئی ۔ ابلیس نے کہا : اب تم اس بات سے مایوس ہوجاؤ کہ امت محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کو شرک کی طرف لوٹاؤگے یعنی آج کے بعد امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام میں شرک نہیں ہوسکتا۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="ER" style="font-size: 22pt; "> فتح مکہ کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پندرہ دن مکہ مکرمہ میں قیام فرما رہے اور مکہ مکرمہ سے روانہ ہونے سے قبل حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو مکہ کا والی مقرر فرمایا اور مسلمانوں کی تعلیم کے لئے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو منتخب فرمایا۔<o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="AR-SA" style="font-size: 22pt; color: red; ">از: مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ<o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span lang="AR-SA" style="font-size: 22pt; color: red; ">شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ بانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 22pt; ">-</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; color: blue; ">www.ziaislamic.com</span><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align: right; direction: rtl; unicode-bidi: embed; "><span dir="LTR" style="font-size: 22pt; "><o:p> </o:p></span></p>