<table cellspacing="0" cellpadding="0" border="0" align="center" width="739"> <tbody> <tr> <td> <div align="center" class="content1"><span style="font-size: 22px;"><strong>غزوہ بدر </strong></span></div> </td> </tr> <tr> <td><span style="font-size: 22px;"> </span></td> </tr> <tr> <td> <div align="right"> <div style="text-align: right;"> </div> <span style="font-size: 22px;"> <div style="text-align: right;"><span class="mine">بدر ایک قریہ کا نام ہے جو مدینہ طیبہ سے تقریباً اسّی (80) میل کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ <br /> ہجرت کے دوسرے سال، 12! رمضان المبارک بروز ہفتہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تین سو تیرہ صحابہ کرام کے ہمراہ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے ،امن عالم اور تحفظ انسانیت کیلئے کوچ کئے ہوئے اس قافلہ کے ساتھ صرف ایک (1)گھوڑا اور اسّی(80) اونٹ تھے باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پیادہ تھے۔<br /> فضائل اہل بدر رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین-<br /> صحیح بخاری ومسلم میں حدیث مبارک ہے : <br /> <font color="#000000">فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ۔۔۔۔ إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا ، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى مَنْ شَهِدَ بَدْرًا قَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ-</font> <br /> ترجمہ:حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غزوہ بدر میں شریک ہونے والے ایک صحابی سے متعلق ارشاد فرمایا: یہ بدر میں حاضر ہوئے ہیں‘ تمہیں کیا خبر! یقینا اللہ تعالیٰ نے اہل بدر پر توجہ خاص فرمائی ‘ارشاد فرمایاتم جو چاہو کرو‘ تمہارے لئے جنت واجب ہوچکی اور ایک روایت میں ہے کہ میں تم کو بخش دیا ہوں- <br /> (صحیح بخاری، باب غَزْوَةِ الْفَتْحِ، حدیث نمبر: 4274 - صحیح مسلم، باب من فضائل أهل بدر رضى الله عنهم، حدیث نمبر:6557) <br /> صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے : <br /> <font color="#000000">عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِىِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ: مَا تَعُدُّونَ أَهْلَ بَدْرٍ فِيكُمْ قَالَ مِنْ أَفْضَلِ الْمُسْلِمِينَ - أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا - قَالَ وَكَذَلِكَ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الْمَلاَئِكَةِ –</font> <br /> ترجمہ:سیدنا معاذ بن رفاعہ ابن رافع رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ہے‘آپ نے فرمایا : حضرت جبریل امین علیہ السلام ‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت بابرکت میں حاضرہوکر عرض کئے : آپ حضرات اہل بدر کو کیسا شمار کرتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: مسلمانوں میں سب سے افضل ،یا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس طرح کی اور بات ارشاد فرمائی‘حضرت جبریل علیہ السلام نے عرض کیا :اسی طرح فرشتوں میں وہ فرشتے افضل ہیں جو بدر میں حاضر ہوئے ۔<br /> (بخاری، باب شهود الملائكة بدرا، حدیث نمبر:3992) <br /> انسانی مساوات کا بہترین نمونہ : <br /> حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر تین صحابہ کے لئے ایک اونٹ مقرر فرمایا جس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں باری باری سوار ہونے کا حکم فرمایا حتیٰ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری مبارک کو بھی اپنے لئے خاص نہیں فرمایا ۔ <br /> حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ساری انسانیت کیلئے ایک بہترین نمونہ ہے سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مساوات انسانی کا ایک عظیم درس دیا کہ آپ نے اپنی سواری مبارک کے لئے بھی باری باری سوار ہونے کی تجویز فرمائی جیسا کہ دیگر سواریوں کے متعلق حکم فرمایا ۔ کیوں کہ اس نورانی قافلہ کی روانگی کا مقصد ہی یہی تھا کہ باطل کی ہٹ دھرمی ، گمراہی و حق تلفی ختم کی جائے اور عدل و انصاف اور مساوات انسانی کاپیغام عام کیا جائے، باطل پرستوں نے جنگ کیلئے تمام اسلحہ فراہم کیا اور مسلح ہوکر میدان بدر پہنچے جن کی تعداد ایک ہزار تھی۔ <br /> حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ الٰہی میں بڑے عجز و نیاز سے دعا کی اسی وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے : <br /> یاد کرو جب تم فریاد کررہے تھے تو اس (اللہ تعالیٰ)نے تمہاری فریاد سن لی (اور یہ ارشاد فرمایا) یقینا میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ مدد کروں گا جو پے درپے آنے والے ہیں۔(الانفال:9) <br /> پھر اس معرکہ حق و باطل کا آغاز ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے حق کو کامیابی سے ہمکنار فرمایا اور باطل کو شکست و ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ باطل پرستوں میں (70) افراد مارے گئے اور 70 قیدی بنالئے گئے۔ <br /> باطل کا مقابلہ کرتے ہوئے چودہ (14) صحابہ کرام کو شہادت نصیب ہوئی۔ جب اللہ عز و جل نے اہل اسلام کے کاروان امن کو فتح و نصرت عطا فرمائی تو قرب و جوار کی تمام باطل طاقتیں پست ہمت ہوگئیں۔ <br /> بدر کے قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا بے مثال نمونہ : <br /> میدان بدر میں پکڑے گئے قیدیوں کو جب حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے ان کے قیام و طعام کا انتظام فرمایا اور ان قیدیوں کو اپنے وفاء شعار صحابہ کرام میں بانٹ دیا اور یہ تاکید فرمائی کہ ان قیدیوں کا مکمل خیال رکھا جائے حسب استطاعت ان کے آرام اور قیام و طعام کا انتظام کیا جائے ۔ ابو عزیز (رضی اللہ عنہ جو اس وقت تک دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے) نامی ایک قیدی کا بیان ہے کہ جب مجھے مدینہ منورہ میں ایک انصاری صحابی کے حوالہ کیا گیا تو میں نے حسن سلوک کی ایک عظیم مثال دیکھی کہ انصاری صحابی کے گھر والے کھجوروں کے کچھ حصہ پر اکتفاء کرتے اور حضور رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے پیش نظر مجھے روٹی کھلاتے ،میں انہیں روٹی تناول کرنے کے لئے اصرار کرتا لیکن وہ ہرگز روٹی تناول نہ کرتے۔ بعد میں اُن کو فدیہ کے بدلہ رہا کروالیا گیا ۔اسلام کی عظمت اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت و عنایت اور آپ کے پیکر اطاعت صحابہ رضی اللہ عنہم کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر وہ دامن اسلام سے وابستہ ہوگئے۔ <br /> آج کل اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے کہ مذہب اسلام ایک سخت اور پرتشدد مذہب ہے لیکن بدر کے قیدیوں کے ساتھ جو حسن معاملہ کیا گیا اگر دنیا اس پر غور کرلے تو مذہب اسلام کی امن پسندی عدل و انصاف اور مساوات انسانی سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی اور اسلام کے تعلق سے کئے گئے شکوک و شبہات یکسر ختم ہوجائیں گے -<br /> مذہب اسلام اور رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے انسانیت کے ساتھ کئے گئے عفو و درگذر رحمت و الفت کے منجملہ یہ ہے کہ جب جنگ بدر کے قیدیوں کو بحفاظت و سلامت فدیہ کے عوض چھوڑدیا گیا اور ان کے ساتھ اتنا بہترین حسن سلوک کیا گیا جس سے متاثر ہوکر اور اسلام کی صداقت و حقانیت جان کر وہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اور جو قیدی فدیہ دینے سے عاجز تھے ان سے کہا گیا کہ ان کے پاس جو علوم و فنون ہیں اسے اوروں کو سکھلائیں اس کے بدلے انہیں رہا کردیا جائے گا انہوں نے جب غیر تعلیم یافتہ وغیر ہنر مند افراد کو زیور تعلیم اور اپنے پاس موجود ہنر سے آراستہ کردیا تو انہیں باعزت رہا کردیا گیا۔ <br /> ’’جس کی جو مرنے کی جا ٹہراتے وہ مرتا وہیں ‘‘:<br /> اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اولین و آخرین کے تمام علوم عطاء فرمائے کہ آپ کی نگاہ اقدس سے گذشتہ زمانہ میں اور حال ومستقبل میں پیش آنے والے تمام حوادث و واقعات ، احوال و کیفیات کوئی چیز مخفی نہیں ۔ اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے وقوع پذیر ہونے سے قبل ہی ارشاد فرمایا کہ قسم بخدا میں اس وقت بھی بدر کے مقتولوں کی جائے قتل دیکھ رہا ہوں ۔ <br /> حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک کو زمین پر رکھ کر ارشاد فرمایا یہ فلاں شخص کے ہلاکت کی جگہ ہے یہ فلاں شخص کے ہلاکت کی جگہ ہے ۔ راوی کہتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے مرنے کی جس جگہ نشاندہی فرمائی تھی کسی کی نعش اس جگہ سے تھوڑی بھی تجاوز نہیں کی ۔<br /> (صحیح مسلم شریف ج 2۔ص 102، زرقانی علی المواھب ۔ ج2 ۔ ص304) <br /> اجازت حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر واپس نہ آنا : <br /> علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی نقشبندی رحمہ اللہ نے ابن سعد اور ابوشیخ کے حوالہ سے تفسیر مظہری میں حدیث پاک ذکر فرمائی ۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر سے فارغ ہوئے تو جبرئیل علیہ السلام سرخ گھوڑی پر سوار جنگی لباس پہنے ہوئے نیزہ ہاتھ میں لئے حاضر ہوئے اور عرض کئے ائے پیکر حمد و ثنا اور لائق ہرستائش و خوبی حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم !بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھ کو آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اور یہ حکم فرمایا ہے کہ میں آپ کے پاس سے اس وقت تک نہ جاؤں جب تک آپ مجھ سے راضی نہ ہوجائیں کیا حضور آپ مجھ سے راضی ہیں ؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ہاں میں راضی ہوں ‘‘ تب جبرئیل علیہ السلام واپس ہوئے</span></div> </span><span style="font-size: 16px;"> <div style="text-align: right;"> </div> </span><span style="font-size: 22px;"> </span></div> </td> </tr> </tbody> </table>