<div style="text-align: right;"><span style="font-size: 22px;">اللہ تعالی نے انسان کی جبلت وفطرت میں انس ومحبت ودیعت فرماکر اس خاکدان گیتی میں خلعت وجود سے سرفراز فرمایا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان فطری طور پر تمدن وتہذیب چاہتا ہے۔ <br /> <br /> افراد انسانی ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں ، معاشرہ میں ہرانسان کی ضرورت دوسرے سے متعلق ہوتی ہے‘ بقاء شخصی ونوعی اور انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی کیلئے جو اہم ترین چیز درکار ہے وہ امن وسلامتی ہے، یہ بقائے انسانیت کا وہ بنیادی واساسی عنصر ہے جو دیگر تمام امور واجزاء پر فوقیت رکھتاہے ،ہردور اور ہر علاقہ میں اسے تمام علل واسباب میں مرکزیت حاصل ہے۔<br /> <br /> انسان کی یومیہ مصروفیات، ضروریات کی تکمیل، تعلیم وتربیت، ترقی وبہبود امن ہی سے متعلق ہے‘ اگر امن وسلامتی مفقود ہو تو قدم قدم پر مشکلات پیدا ہوتی ہیں ،اشیاء خورد ونوش کی فراہمی ،اجناس کی حمل ونقل ،طلبہ کی اسکولس وکالجس تک رسائی، ملازمین کا دفاتر جانا، بیماروں کا دواخانہ پہنچنا ،بروقت تیمارداری اور تمام سماجی، معاشی وسیاسی معاملات متاثر ہوتے ہیں اور ترقی یافتہ معاشرہ امن کی عدم موجود گی کے سبب پستی وزوال کی ہلاکت خیز وادی میں گرجاتاہے۔<br /> <br /> اسلام امن وسلامتی کادین ہے، مسلمانوں کوسارے جہاں میں سلامتی وآشتی عام کرنے ،محبت ومودت کی راہیں ہموار کرنے کی تاکیدکرتاہے، ایثار وقربانی کی تعلیم دیتا ہے ،رواداری ومدارات کی ترغیب دیتا ہے، نفرت وعداوت سے منع کرتاہے، فتنہ وفساد سے روکتاہے ، خونریزی وغارت گری سے باز رکھتا ہے، بغاوت وسرکشی سے دورکرتا ہے۔<br /> <br /> اللہ تعالی کا ارشاد ہے :<br /> <br /> وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا۔<br /> <br /> ترجمہ: زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد بپا نہ کیا کرو۔ (سورة الأعراف۔56/85) <br /> <br /> ارشاد خداوندی ہے:<br /> <br /> إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ۔ <br /> <br /> ترجمہ :بیشک اللہ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ (سورۃالقصص،77) <br /> <br /> ارشاد الہی ہے:<br /> <br /> وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ۔<br /> <br /> ترجمہ :فتنہ و فساد قتل سے بڑھ کر ہے۔ (سورۃالبقرۃ۔217) <br /> <br /> اسلامی نظام عبادات‘ امن وسلامتی کامظہر <br /> <br /> <br /> اسلام امن وسلامتی ،صلح وآشتی کا مذہب ہے، اسلام کے آغوش میں رہنے والا ہر شخص دنیا کے لئے پیغام امن کا سفیر ہے، وہ اپنے قول وفعل، حرکت وسکون سے سلامتی کا پیغام دیتا ہے۔<br /> <br /> حدیث جبرئیل میں جن تین چیزوں کا ذکر آیا ہے ’’اسلام ، ایمان ، احسان‘‘ ان تینوں الفاظ مبارکہ کا لب لباب اور خلاصہ یہ ہے کہ خالق کی عبادت میں حسن پیدا کیا جائے، مراقبہ کے ذریعہ بارگاہ خداوندی کے قرب کے ساتھ معاملات ومعاشرت میں حسن پیدا کیا جائے اور مخلوق کے ساتھ حسن سلوک ونیک برتاؤ کیا جائے۔ <br /> <br /> اسلام اپنے تمام احکام کے ذریعہ اہل اسلام کو داخلی وخارجی امن وسکون کی تعلیم دیتا ہے، نظام عبادات پر نظرڈالی جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ نماز نظم ونسق کے ساتھ پرسکون طور پر ادا کی جاتی ہے، نظام زکوۃ کے ذریعہ فقراء ومساکین کی مدد کی جاتی ہے، قربانی کے گوشت وپوست کے ذریعہ ضرورتمندوں کا تعاون کیا جاتاہے اور تنگدستی وناداری میں سسکنے والے افراد کی خوشیوں کا سامان کیا جاتاہے، روزہ کے سبب خواہشات ترک کرنے کی مشق ہوتی ہے، نتیجۃً روزہ دار ایثار وقربانی کا خوگر ہوجاتاہے ،حج وعمرہ کے ذریعہ ایک بین الاقوامی اجتماع ہوتاہے جوبقائے باہم وامن عالم کاعملی نمونہ کہلاتاہے ۔ <br /> <br /> اسلامی نظام اخلاق کے امتیازات <br /> <br /> <br /> اسلام کا نظام اخلاق حسن سلوک، راست گوئی، راست بازی، امانتداری ومنصف مزاجی، اخوت وبھائی چارگی، کمزوروں کی نصرت، مریضوں کی عیادت، مہمانوں کی ضیافت جیسے پسندیدہ عادات واطوار سے عبارت ہے، یہ وہ اعلی خوبیاں ہیں کہ ہرسلیم الطبع‘ امن پسند شخص اس سے متصف رہناچاہتاہے، اس کے برخلاف اسلامی نظام اخلاق بدسلوکی، دروغ گوئی، چغلخوری، تکبر، دھوکہ دہی، خیانت، سخت مزاجی، ناانصافی، عدم مساوات جیسی صفات مذمومہ سے منع کرتاہے، یہ ناپسندیدہ اطوار معاشرے میں نقضِ امن کا نقطۂ آغاز ہوسکتے ہیں-<br /> <br /> <br /> اسلام نے نظام اخلاق کے حوالہ سے اہل اسلام کو ہرایسی صفت اختیار کرنے کی ترغیب وتاکید کی جوقیامِ امن کےلئے معاون ومددگار بنتی ہو اور ظلم وجور کے خلاف ہو، نیز ہراس حرکت کو ترک کرنے کا حکم دیا جو نقضِ امن ، دہشت وبربریت کا سبب بن سکتی ہو۔<br /> <br /> اسلام کی امن پسندی کاایک عظیم نمونہ <br /> <br /> <br /> اہل اسلام نے مکہ مکرمہ میں تیرہ سال کے طویل عرصہ تک کفار مکہ کی ایذاء رسانی برداشت کی،اس دوران تحفظ وسلامتی جو ہر فرد انسانیت کا حق ہے ان سے چھین لیا گیا لیکن مسلمانوں نے اپنے گفتار وکردار سے سلامتی کا پیغام دیا، جب ظلم وبربریت کی انتہاء کردی گئی تو مسلمانوں نے حصول امن کے لئے ترک وطن کیا، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہجرتِ حبشہ کا حکم فرمایا حالاں کہ وہاں کا بادشاہ غیر مسلم اور حکومت غیر اسلامی تھی ۔<br /> <br /> غیر اسلامی ملک میں اہل اسلام نے کس طرح امن وسلامتی کی فضاء قائم کی‘ ابنائے وطن کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کس نوعیت کے تھے اور انہوں نے اخلاقی اقدار کا کیا نمونہ پیش کیا ہے اس کا کچھ اندازہ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی اس تقریر دل پذیر سے ہوسکتا ہے جو آپ نے شاہِ حبشہ کے دربار میں کی تھی:<br /> <br /> اے بادشاہ! ہم سب جاہل اور نادان تھے، بتوں کو پوجتے ‘ مردار کھاتے اورقسم قسم کی بے حیائیوں میں مبتلا تھے ۔ رشتہ داریوں کوتوڑتے ،پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے‘ جو زبردست ہوتا وہ کمزوروں کو کھاجاتا‘ ہم اسی حالت میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر اپنا فضل فرمایااور ہم میں سے اپنے ایک رسول کو مبعوث فرمایا۔ جن کے حسب و نسب، صدق و امانت اور پاک دامنی و عفت کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ آپ نے ہمیں اللہ تعالی کی طرف بلایا کہ ہم اس کو ایک مانیں اور ایک جانیں اور ایک سمجھیں اور صرف اسی کی عبادت کریں اور جن بتوں اور پتھروں کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد پرستش کرتے تھے ان سب کو یکلخت چھوڑدیں اورآپ نے ہمیں یہ حکم فرمایا کہ ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرائیں اور آپ نے ہمیں نماز وزکوۃ اور روزہ کا حکم فرمایا اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے اسلام کے احکام ذکر کئے پھر فرمایا اس نبی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سچائی اور امانت کا ، صلہ رحمی اور پڑوسیوں سے حسن سلوک کرنے کاحکم فرمایا اور خون ریزی اور حرام کاموں سے رکنے کی تاکید فرمائی اور تمام بے حیائیوں کے ارتکاب سے، باطل اور ناحق بات کہنے، کسی یتیم کا مال کھانے سے اور کسی پاک دامن پر تہمت لگانے سے ہم کو منع فرمایا۔ پس ہم نے آپ کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لے آئے اور اللہ کی جانب سے آپ جو کچھ لائے ہم نے اس کی اتباع کی چنانچہ ہم صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔ اللہ تعالی نے جن چیزوں کو ہمارے لئے حلال قرار دیا ہے ان کو حلال سمجھتے ہیں اور جن چیزوں کو ہمارے لئے حرام قرار دیا ہے ان کو حرام سمجھتے ہیں۔<br /> <br /> محض اس پر ہماری قوم ہماری دشمن ہوگئی اور ہمیں طرح طرح سے ستایا اور قسم قسم کی اذیتیں پہنچائیں تاکہ ہم کواِلٰہ واحد کی عبادت سے بتوں کی پرستش کی طرف پھیر دیں اور ہم اُن برے اورخبیث چیزوں کو حلال جانیں جنہیں ہم پہلے حلال سمجھتے تھے،جب وہ سختی اور ظلم وزیادتی کرنے لگے،ہماری راہوں کو تنگ کرکے ہمارے اور ہمارے دین کے درمیان حائل ہوگئے تب ہم نے اپنا وطن چھوڑا اوردوسروں پرآپ کو ترجیح دی اور آپ کی ہمسائیگی کو اختیار کیا اس امید پر کہ آپ ظلم نہ کریں گے۔<br /> <br /> نجاشی نے کہا تم کو اس کلام میں سے کچھ یاد ہے جو تمہارے پیغمبر اللہ کی طرف سے لائے ہیں؟ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں! نجاشی نے کہا ۔ اس میں سے کچھ پڑھ کر مجھ کو سناؤ! حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے سورۂ مریم کا ابتدائی حصہ پڑھ کر سنایا ۔ بادشاہ اور تمام درباریوں کے آنسو نکل آئے، روتے روتے بادشاہ کی داڑھی تر ہوگئی، جب تلاوت ختم ہوئی تو بادشاہ نے کہا : یہ کلام اور وہ کلام جو عیسیٰ علیہ السلام لے کر آئے دونوں ایک ہی شمع دان سے نکلے ہوئے ہیں اور قریش کے وفد سے صاف طور پر کہہ دیا کہ میں ان لوگوں کو ہرگز تمہارے حوالے نہیں کروں گا اور نہ اس کا امکان ہے۔(سبل الہدی والرشاد۔ج2،ص390/391) <br /> <br /> اعلان نبوت کے تیرھویں سال بعد بحکم خداوندی اہل اسلام نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ ہجرت کی اور وہیں اقامت گزیں ہوئے، ظالموں نے مدینہ طیبہ پر حملہ کرناچاہا ،جب مقابلہ کے سوا چارہ نہ رہا تو مسلمان دفع شراور فتنہ کے انسداد کی غرض سے آگے بڑھے اور فساد ودہشت گردی کی بیخ کنی کی۔<br /> <br /> زمانہ جاہلیت کی بربریت اوراسلام کاقانون امن <br /> <br /> <br /> دورجاہلیت میں عرب بات بات پر جنگ کیلئے آمادہ ہوجاتے تھے، ایک شخص کے قتل کا انتقام لینے کے لئے قاتل کے قبیلہ کو ہلاک کردیا جاتا، تفاخروتنافر کی بنیاد پر سالہا سال جنگ جاری رہتی ، لوگ جب غفلت میں ہوتے ہیں اعلان جنگ کئے بغیر حملہ کیا جاتا، جنگ میں بچے اور عورتیں قتل کی جاتیں، دشمن کو تکلیف دینے کے لئے آگ جلائی جاتی، جنگی قیدیوں کو سخت ایذاء دے دے کر قتل کیا جاتا، روم جو اس دور کا مہذب ترین ملک تھا اس کا طریقہ یہ تھا کہ جب دوقوموں کے درمیان جنگ ہوتو سلسلہ اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک کہ کوئی ایک قوم صفحۂ ہستی سے ختم نہ ہوجائے ، فصلیں تباہ کی جاتیں، لہلہاتے باغوں کو اجاڑدیا جاتا، عمارتوں کو مسمارکیا جاتا، الغرض لوٹ مار ، قتل وخونریز ی کا ایک سلسلہ رہتا ، سکندر نے شام کے ایک علاقہ صور کو فتح کیا تو قتل عام کا حکم دیا، نتیجۃً ’’8000‘‘ آٹھ ہزار انسانوں کا خون بہایا گیا اور ’’30000‘‘ تیس ہزار افراد کو غلام بناکر فروخت کیا گیا۔<br /> <br /> اس وحشت انگیز، پرفتن دور کے جنگی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی طریقۂ جنگ اور قوانین ملاحظہ کریں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالت امن کے علاوہ اسلام جنگی حالات میں دنیائے انسانیت کے لئے کس طرح امن وسلامتی کی فضاء پیداکرتاہے اور بجز مقاتلین اور باغیوں کے ہر فرد کے لئے امن کی ضمانت دیتا ہے۔<br /> <br /> اسلام مسلمانوں کو ہدایت دیتا ہے کہ حالت جنگ میں<br /> <br /> بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کیا جائے<br /> <br /> جولوگ جنگ میں حصہ نہیں لیتے انہیں قتل نہ کیا جائے<br /> <br /> <br /> جس نے امان طلب کی اسے ہراساں نہ کیا جائے<br /> <br /> تعلیمی مراکز ،دفاتر ، آبی ذخائر، گوداموں، آبادیوں اور شفاخانوں پر حملہ نہ کیا جائے۔<br /> <br /> اسلام ہرفرد مسلم کو ان قوانین کا پابند کرتا ہے کہ ناحق کسی کو قتل نہ کرے ،کسی کے مال کو نقصان نہ پہنچائے ،کسی کی عزت داغدار نہ کرے ،کسی کی آبرو پر حملہ نہ کرے ، کسی شخص کی پردہ دری کرنے کے درپے نہ ہو۔ <br /> <br /> <br /> </span></div>