<table border="0" cellspacing="0" cellpadding="0" width="97%" align="center"> <tbody> <tr> <td> <div class="arttext" align="right"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><strong><center><span style="font-size: large"><center><center><strong>صحبت بافیض کا جانور پر اثر </strong>اللہ تعالی نے حضرت یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو قطبیت کے اعلی مرتبہ پر فائز فرمایا ، آپ سے بہت خارق عادات ظاہر ہوئے ہیں، آپ تقوی وطہارت کی اس قدر بلند منزل پر جلوہ فرما تھے کہ آپ کی صحبت بافیض سے آپ کا گھوڑا، دانہ چارہ جس میں حرمت کا شبہ ہو نہیں کھاتا تھا ، اور کسی کی ملکی مزروعہ میں بھی نہیں چرتا تھا – <p> </p> <p><span style="font-size: large">حضرت یوسف رحمۃ اللہ تعالی علیہ کاایسا تصرف تھا کہ حیوان لایعقل جوکہ مرفوع القلم ہے وہ بھی آپ سے تعلق اورصحبت کی وجہ سے صفت تقوی سے موصوف ہوگیا –</span></p> <center></center></center></center></span><center><center><span style="font-size: large"><center><strong>وصال مبارک: </strong><br /> </center></span></center></center><center></center></center><span style="font-size: large"><br /> </span><strong> <p><span style="font-size: large">حضرات یوسفین رحمۃ اللہ تعالی علیہما آپ دونوں بزرگ جلیل القدر برادران ،مقربین بارگاہ الہی،محبوبین دربار مصطفوی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام ہیں-</span></p> <p><span style="font-size: large">آپ حضرات کا اصلی وطن ملک شام ہے - ابتداء میں آپ دونوں بھائی بہادر شاہ کے لشکر میں تھے ،دونوں بھائیوں میں اتفاق واتحاد اسقدر تھا کہ مغائر ت ودوئی کانام و نشان تک نہیں تھا ، بظاہر مابہ الامتیاز صرف یہ تھا کہ دوجسم ودوشخص تھے لیکن واقع میں ایک ہی تھے، موافقت واتحاد کی وجہ سے دونوں بھائی آپس میں ایک ہی مقام ومنزل میں بسر فرمایا کرتے –</span></p> <p><span style="font-size: large">آپ دونوں بزرگ حضرات سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت سید شاہ کلیم اللہ قدس سرہٗ کے مرید ہیں-</span></p> <center><center><span style="font-size: large"><center><strong>دکن میں آمد: </strong></center></span></center></center></strong><span style="font-size: large"><strong><br /> </strong></span> <p><span style="font-size: large">جس وقت بہادر شاہ 1020ایک ہزار بیس ہجری میں کام بخش سے مقابلہ کے لئے ہند سے حیدرآباددکن روانہ ہوا اس وقت یہ دونوں بزرگ حضرات یہی بادشاہی لشکر کے ہمراہ ہوئے ، اتفاقاً راستہ میں ایک مقام پر تمام لشکرفروکش ہوا ،جابجاڈیر ے اور خیمے قائم کئے گئے ، اسی رات تیز بارش ہوئی ،اور اس قدر تندوتیز ہوا چلی کہ لشکر میں تمام ڈیرے اور خیمے سر بسجد ہ زمین پر پڑے تھے ، اس آفت قیامت میں کوئی خیمہ قائم نہ رہا مگر دونو ں بزرگوں کاخیمہ اس بارش اور تیز وتند ہوامیں بھی قائم رہا اور طرفہ یہ ہے کہ اس گردوغبار،کثرت ہوا اوربرسات میں آپ کا چراغ روشن تھا ، دونوں بھائی قرآن کریم کی تلاوت اور خدائے رحمان کی عبادت میں مشغول تھے، بارش وہوا کی شدت سے محفوظ تھے –</span></p> <p><span style="font-size: large">اہل لشکر نے جب آپ کی یہ حالت دیکھی تو سب آپ کی بزرگی وکرامت کے قائل ہوئے او ردونوں بزرگوں سے نیک اعتقاد رکھنے لگے، اکثر لشکر کےسپاہی آپ حضرات کی خدمت میں ملازم رہتے تھے، آپ دونوں بزرگ حضرات ،ہر ایک اعلی وادنی سے نیک سلوک کرتے تھے ، ہر ایک کے ساتھ محبت وہمدردی کا حق ادافرماتے تھے، اکثر مریضان دل اور گرفتاران مشکل آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ، دوا اور دعا سے تندرستی وآسانی پاتے – </span></p> <p> </p> <span style="font-size: large">ہزار ہا افراد آپ حضرات کے دامن کرم سے وابستہ ہونے لگے،اور دست حق پرست پر بیعت کرکے سلسلہ عالیہ میں مرید ہونے لگے ، جس وقت بہادر شاہ کا لشکر حیدرآباد پہنچاتو آپ دونوں بزرگوں نے اپنی اپنی نوکری ترک فرمادی اور جہاں اب مزار مبارک ہے وہاں متوکلانہ سکونت اختیار کی اور قناعت وریاضت کی باگ ہاتھ میں لی – </span> <p> </p> <center></center> <p><span style="font-size: large">صاحب مخازن الاعراس فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ اورحضرت شریف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہردو برادر بہادر شا ہ بادشاہ کے وزیرخان خانان کے ملازم تھے ،بادشاہ جس وقت حیدرآباد دکن آیا ، تو آپ حضرات بھی اس وقت دکن تشریف لائیں اور دکن پہنچے کے بعد حضرت یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طبیعت ناساز ہوگئی اور اسی حالت میں ہفتہ، دس دن گذر نے کے بعدآپ نے داعی اجل کو لبیک کہا ،اور اس دنیا ء فانی سے کوچ فرماگئے- آپ کا وصال مبارک 5 ذوالحجہ،1121 گیارہ سو اکیس ہجری میں ہوا ۔</span></p> <p><span style="font-size: large">آپ کے وصال مبارک کے وقت حضرت شریف صاحب رحمۃ اللہ علیہ وہاں موجود نہ تھے تھوڑی دیر بعدجب آپ تشریف لائے تومعلوم ہوا کہ حضرت یوسف صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا وصال ہوگیا ہے، یہ سنتے ہی آپ نے غم کی حالت میں فرمایا:" شرط رفاقت سے بعید ہے کہ آپ اس جہاں میں نہ رہیں او رمیں رہوں "؟ باوضوہوکر حجرہ مبارکہ میں داخل ہوئے اور سفید چادر چہرہ پہ ڈال کر لیٹ گئے ، اور اسی وقت فوراً جان بحق تسلیم کئے بعدازاں خادموں نے دونوں برادران طریقت کو غسل دیکر نماز جنازہ سے فراغت پاکر حیدرآباد کے مغربی جانب واقع موضع نام پلی میں جہاں آپ قیام پذیر تھےتدفین کی سعادت حاصل کی-</span></p> <p><span style="font-size: large">(تلخیص از :محبوب ذوالمنن تذکر ۂ اولیاء دکن) </span></p> <center></center></strong></span><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><strong><center><center><strong>حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی نصیحت: </strong></center></center></strong></span><strong><br /> </strong></span> <p><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">اولیاء کرام اللہ تعالی کے محبوب بندے ومقربان بارگاہ ہوتے ہیں اللہ تعالی یہ گوارا نہیں فرماتا کہ کوئی شخص انہیں کسی قسم کی اذیت پہنچائے یا ان کی شان میں نامناسب الفاظ کہے ، اللہ تعالی اولیاء کرام کو تکلیف دینے والوں کے خلاف جنگ کا اعلان کرتا ہے ، جیسا کہ حضرت محد ث دکن رحمۃ اللہ علیہ ولایت کے درجات اور اولیاء اللہ کی اقسام بیان کرنے کے بعد حدیث قدسی کے حوالہ سے فرماتے ہیں:</span></span></p> <p><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">’’میں میرے دوست کو اذیت پہونچانے والے کے خلاف اعلان جنگ کردیتا ہوں-</span></span></p> <p><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">بعض دفعہ اللہ تعالی اپنے دوستوں کا امتحان ان کے مخالفین او ردشمنوں کے ذریعہ فرماتا ہے ، مگر پھر بہت جلد مخالفین پر غضب نازل ہونے لگتا ہے ، یہ نہ سمجھو کہ ہم نے بزرگوں کی مخالفت کی لیکن ہمارا کچھ نہ بگڑا، اولیاء اللہ کو ستانا کبھی خالی نہیں جاتا ۔ </span></span></p> <p><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ نے اولیاء اللہ کی بارگاہوں میں جانے والے راستے کی بھی بے ادبی کرنے پر سخت تنبیہ فرمائی اور برے خاتمہ سے ڈرایا چنانچہ فرماتے ہیں:</span></span></p> <p> </p> <span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"> <p>میرے دوستو! ایک اور وجہ بتلاتا ہوں کہ جس سے خاتمہ خراب ہو تا ہے۔</p> </span></span><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"> <p> <p> </p> <span style="font-size: large"> <p> <p><strong> سنو! اولیاء اللہ کے ساتھ بے ادبی کرنے سے بھی خاتمہ خراب ہوتا ہے۔</strong> <p><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">یاد رکھو! آج کل یہ بھی شروع ہو گیا ہے کہ اولیاء اللہ کے ساتھ بڑی بے ادبی ہورہی ہے، معلوم نہیں ان کا خاتمہ کیسا ہوتا ہے؟</span></span></p> <p><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">ایک صاحب نے مجھ سے کہا حضرت یوسف صاحب اور شریف صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہما کی درگاہ کے سامنے جو سڑک ہے اس پر سے بھی گزرنا نہیں چاہئے ،اندر درگاہ میں جانا تو برا ہے ہی ،اس سڑک پر چلنا بھی برا ہے۔</span></span></p> <p><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><strong>افسوس افسوس </strong>اولیاء اللہ کی یہ قدر ہے آپ کے پاس ؟خدا کے دوستوں کے ساتھ یہ معاملہ ہے ؟ یہ حال ہے تو تب کیا حال ہوگا آپ کا ، خیال کرلو اس کو ،یاد رکھو! ہر گز ایسا راستہ اختیار نہ کرنا۔</span></span></p> <p><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">(فضائل رمضان،ص: 189-مواعظ حسنہ ج:1 ص:54/55</span></span></p> </p> </p> </span></p> </span></div> </td> </tr> </tbody> </table>