<span style="font-size: large"> <p style="text-align: right"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><strong>قربانی کے معنی تقرب حاصل کرنے کے ہیں ، ہر وہ چیز جس سے ایک بندۂ مومن اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرتا ہے قربانی کے مفہوم میں شامل ہے۔</strong></span></p> <p style="text-align: right"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><strong>انسان اپنے اوقات و لمحات کو ،اپنی تمام صلاحیتوں کو ، اپنے مال و اسباب کو حتی کہ اپنی جان عزیزکو اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے قربان کردے تب بھی حق بندگی ادا نہیں ہو سکتا ، اللہ تعالی کے نیک بندوں کی مبارک زندگیوں سے ہمیں یہی درس وپیغام ملتا ہے ، بطور خاص حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مقدس حیات کے تمام گوشے اسی عظیم قربانی کی بے مثال تجلیات سے معمور ہیں ۔ </strong></span></p> <p style="text-align: right"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><strong>اللہ تعالی کی بارگاہ میں قربانی کرنا محبوب ومطلوب ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : </strong></span></p> <p style="text-align: right"> </p> <div style="text-align: right"> </div> <p style="text-align: right"><strong>ترجمہ:قربانی کا نہ گوشت اللہ تعالی کو پہنچتا ہے اور نہ خون لیکن تمہارا تقوی اس کی بارگاہ میں باریاب ہوتا ہے۔ (سورۃ الحج۔37)</strong></p> <div style="text-align: right"><center><strong>قربانی کی تعریف: </strong></center></div> <p style="text-align: right"><br /> </p> <p style="text-align: right"><strong>بہ نیت عبادت،10/11/12 ذی الحجہ میں سے کسی دن ، شریعت مطہرہ کے مقرر کردہ جانوروں میں سے کوئی جانور رضائے الہی کی خاطر ذبح کرنا ازروئے شرع قربانی کہلاتا ہے۔</strong></p> <p style="text-align: right"><strong>تنویر الابصار مع الدرالمختار ،ج:5، ص:219 میں قربانی کی تعریف اس طرح کی گئی ہے: </strong></p> <p style="text-align: right"><font color="#000000" size="+3" face="traditional Arabic"><strong>(ذبح حيوان مخصوص بنية القربة فی وقت مخصوص۔ ۔ ۔ (</strong></font> <p> </p> <center><strong>قربانی کا وقت: </strong></center> <p><br /> قربانی کے تین دن ہیں:</p> <p> </p> <p><strong>10/11/12 ذی الحجہ- قربانی کاوقت10 ذی الحجہ نماز عیدالاضحی کے بعد سے 12 ذی الحجہ کی غروب آفتاب تک ہے، اس کے بعد قربانی نہیں کی جاسکتی، رات میں قربانی کرنا مکروہ ہے ۔</strong></p> <center><strong>قربانی کے فضائل</strong></center> <p><br /> </p> <p><strong>احادیث شریفہ میں قربانی کے متعدد فضائل وارد ہیں، عیدالاضحی کے دن اللہ تعالی کے پاس محبوب ترین عمل قربانی کرنا ہے، جامع ترمذی شریف ج1،ص275 میں حدیث پاک ہے : </strong></p> <p><font color="#000000" size="+3" face="traditional Arabic"><strong>عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ : مَا عَمِلَ آدَمِىٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ. إِنَّهَا لَتَأْتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَشْعَارِهَا وَأَظْلاَفِهَا وَإِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الأَرْضِ فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا ۔</strong></font> <p><strong>ترجمہ:ام المؤمنین سید تنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا :آدمی کا قربانی کے دن کوئی عمل نہیں جو اللہ تعالی کے پاس خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ ہواور یقینا وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ ، بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کاخون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کی بارگاہ میں قبولیت حاصل کرلیتا ہے تو تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیاکرو۔ (جامع ترمذی شریف ج1،ص275،ابواب الأضاحى، باب ما جاء فى فضل الأضحية. حدیث نمبر: 1572) </strong></p> <p><strong>سنن ابن ماجہ شریف، ج:2، ص:226، میں حدیث پاک ہے: </strong></p> <p><font color="#000000" size="+3" face="traditional Arabic"><strong>عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: يَا رَسُولَ اللَّهِ !مَا هَذِهِ الأَضَاحِىُّ ؟ قَالَ: سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ. قَالُوا فَمَا لَنَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ : بِكُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ. قَالُوا: فَالصُّوفُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ : بِكُلِّ شَعَرَةٍ مِنَ الصُّوفِ حَسَنَةٌ. </strong></font> <p><strong>ترجمہ: سید نا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! یہ قربانیاں کیا ہیں ؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے جد کریم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت مبارکہ ہے _ صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! تو اس میں ہمارے لئے کیا ہے ؟ آپ نےارشاد فرمایا : ہر بال کے بدلہ ایک نیکی ہے – صحابہ کرام عرض گذار ہوئے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! پھر اُوْن کے بارے میں کیا حکم ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلہ ایک نیکی ہے۔ (سنن ابن ماجہ شریف، ج:2، ص:226،کتاب الأضاحى، باب ثواب الأضحية. حدیث نمبر: 3247) </strong></p> <p><strong>معجم کبیر طبرانی ، سنن دارقطنی ، اور شعب الایمان میں حدیث پاک ہے : </strong></p> <p><font color="#000000" size="+3" face="traditional Arabic"><strong>عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِي اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَا أُنْفِقَتُ الْوَرِقُ فِي شَيْءٍ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ نَحيرٍ يُنْحَرُ فِي يَوْمِ عِيدٍ. </strong></font> <p><strong>ترجمہ: سید نا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے ،حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے بہترین درہم وہ ہے جو عید کے دن ذبح کئے جانے والے جانور میں خرچ کیاجائے۔</strong></p> <p><strong>(معجم کبیر طبرانی ، ج:9،ص:231،حدیث نمبر:10735- سنن دارقطنی،کتاب الأشربة وغيرها، حدیث نمبر: 4815، شعب الایمان ،ج :5، باب فی القرابین والامانۃ ،ص482 ، حدیث نمبر: 7084) </strong></p> <center><strong>قربانی کا نصاب </strong></center> <p><br /> </p> <p><strong>قربانی کرنا ہر اس مسلمان ،عا قل وبالغ ،مالک نصاب پر واجب ہے جو مسافر یا قرض دار نہ ہو – قربانی واجب ہونے کے لئے مال بڑھنے والاہونا یااس پرسال گذرنا شرط نہیں ہے البتہ زکوۃ واجب ہونے کے لئے مال کابڑھنے والا ہونا اوراس پر سال گذرنا ضروری ہے۔ </strong></p> <p><strong>نصاب کے مالک ہونے کا مطلب یہ ہیکہ آدمی بنیاد ی ضرورتوں کے علاوہ 60 گرام 755 ملی گرام سونے یا425 گرام 285 ملی گرام چاندی کا مالک ہو یا اس کے معادل نقد رقم یااتنی قیمت والی چیزیں اس کی ملکیت میں ہوں ۔ رہائشی مکان ، سواری ، لباس ، گھرکا ضروری سازوسامان حاجت اصلیہ میں داخل ہے-</strong></p> <p><strong>فقہائے کرام نے لباس کے بارے میں یہ تفصیل بیان کی کہ ایک شخص کیلئے تین(3) عدد کپڑے حاجت اصلیہ میں ہیں‘(1) ایک گھر میں پہننے کے لئے ،(2) کام کاج کے وقت پہننے کے لئے اور(3) جمعہ ،عیدین اور دیگر مواقع پر پہننے کیلئے ، اس کے علاوہ اس کے پاس جتنے کپڑے ہیں سب حاجت اصلیہ سے زائد ہیں‘ رہائشی مکان کے سلسلہ میں یہ صراحت کی گئی کہ ہر شخص کے لئے دو کمرے ایک موسم گرما اورایک موسم سرما کی مناسبت سے ہوں ونیز باورچی خانہ ‘ حمام وبیت الخلاء حاجت اصلیہ میں داخل ہے۔ </strong></p> <p><strong>جیسا کہ ردالمحتار ج5 کتاب الاضحیۃ ص219 میں ہے:</strong></p> <p><font color="#000000" size="+3" face="traditional Arabic"><strong>(قوله اليسار الخ)بان ملک مائتی درهم اوعرضا يساويها غيرمسکنه وثياب اللبس اومتاع يحتاجه الی ان يذبح الاضحية ۔ ۔ ۔ وصاحب الثياب الاربعة لوساوی الرابع نصابا غنی وثلاثة فلا لان احد ها للبذلة والاخرللمهنة والثالث للجمع والوفد والاعياد۔ </strong></font></p> <p><strong>حضرات فقہائے کرام کی اس وضاحت کے تحت دیکھاجائے کہ رہائشی مکان اورضرورت کی اشیاء کے علاوہ جتنی چیزیں ہیں اگر ان کی قیمت 60 گرام 755 ملی گرام سونے یا425 گرام 285 ملی گرام چاندی کے مماثل ہے تو قربانی واجب قرار پائے گی ، جیسے ضرورت کی سواری کے علاوہ کوئی اور سواری ہو ، تین جوڑوں کے علاوہ کپڑوں کے مزید جوڑے اور ضرورت سے زائد دیگر چیزیں ان سب کی قیمت اگر سونے یا چاندی کے مذکورہ نصاب تک پہنچتی ہے تو قربانی واجب ہے۔ </strong></p> <p><strong>بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گھر کے ذمہ دار پر قربانی واجب ہے دوسروں کے لئے ضروری نہیں، اس بارے میں یہ ذہن نشین رہے کہ قربانی نماز، روزہ، زکوۃ کی طرح ایک عبادت ہے جو مذکورہ نصاب کے مطابق ہر صاحب استطاعت فرد پر واجب ہوتی ہے، خواہ وہ گھر کا ذمہ دار ہو یا نہ ہو، اگر ایک گھر میں پانچ افراد صاحب استطاعت ہوں تو ہر ایک پر علحدہ قربانی واجب ہوتی ہے۔</strong></p> <span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"> <p> <p><font color="#000000" size="+3"><strong>لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ –</strong></font> <p><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><strong>ترجمہ: تم نیکی کو نہیں پاسکتے یہاں تک کہ اس چیزسے خرچ کرو جس سے تم محبت کرتے ہو۔ (سورۃ ال عمران۔92)</strong></span></p> <p><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><strong>قربانی خوشدلی اور اللہ تعالی کی رضا کے حصول کے لئے دیں ، چونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر موقوف ہے اس لئے دیگر عبادات کی طرح قربانی بھی خلوص نیت کیساتھ کریں-</strong></span></p> <p><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><strong>سورۂ حج میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:</strong></span></p> <p><font color="#000000" size="+3"><strong>لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ ۔</strong></font></p> </p> </p> </span></p> </p> </p> </p> </span>