<div style="text-align: right"><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><span style="display: none" id="1167593914896S"> </span>نابالغ پر دیگر احکام اسلام کی طرح حج کی فرضیت بھی بلوغ کے بعد ہے‘ لیکن نابالغ بچہ اگر نماز پڑھے‘ روزہ رکھے اور حج کرے تو درست و صحیح ہے‘ خواہ بچہ عقل و تمیز رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو‘ نابالغ بچے جب کوئی نیک کام کرتے ہیں تو اس کا ثواب ان کے والدین کو بھی ملتا ہے‘ حج کا بھی یہی حکم ہے۔<br /> صحیح مسلم شریف میں حدیث مبارک ہے،حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک صحابیہ اپنے بچہ کو لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کیا: <br /> یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا اس بچہ کا بھی حج ادا ہواگا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں اس کا بھی حج ادا ہواگا اور اس کا اجر و ثواب تمہارے لئے بھی ہے-<br /> <font color="#006633">عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم لَقِىَ رَكْبًا بِالرَّوْحَاءِ فَقَالَ : مَنِ الْقَوْمُ. قَالُوا الْمُسْلِمُونَ. فَقَالُوا مَنْ أَنْتَ قَالَ : رَسُولُ اللَّهِ. فَرَفَعَتْ إِلَيْهِ امْرَأَةٌ صَبِيًّا فَقَالَتْ أَلِهَذَا حَجٌّ قَالَ : نَعَمْ وَلَكِ أَجْرٌ. <br /> </font>(صحیح مسلم شریف، باب صِحَّةِ حَجِّ الصَّبِىِّ وَأَجْرِ مَنْ حَجَّ بِهِ. حدیث نمبر: 3317) <br /> نابالغ لڑکا اگر حج کرلے تو وہ نفل ہوگا‘ بلوغ کے بعد اگر اس پر حج فرض ہوجائے تو دوبارہ حج کرنا اس پر ضروری ہوگا۔<br /> <font color="#006633">وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنَّ الصَّبِىَّ إِذَا حَجَّ قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَ فَعَلَيْهِ الْحَجُّ إِذَا أَدْرَكَ لاَ تُجْزِئُ عَنْهُ تِلْكَ الْحَجَّةُ عَنْ حَجَّةِ الإِسْلاَمِ-<br /> </font>(جامع ترمذی شریف) <br /> نابالغ لڑکا اگر سمجھدار ہو‘ عقل و تمیز رکھتا ہو تو وہ خود احرام باندھے اور پاکی و طہارت کا لحاظ رکھے اور ان تمام امور کو پیش نظر رکھے جو حالت احرام میں لازم و ضروری ہیں‘ اور مناسک حج سے از خود جو ادا کرسکتا ہو وہ ادا کرے‘ اور جو ادا نہیں کرسکتا اس کو ولی ادا کردے۔ <br /> بچہ اس قدر چھوٹا ہو جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتا اور عقل و تمیز سے عاری ہو‘ تو اس کی طرف سے اس کا ولی احرام باندھے اور اس کی طرف سے مناسک ادا کرے‘ طواف و سعی کے موقع پر اس کو گود میں لے کر طواف و سعی کرلے تو ہر دو کا طواف و سعی ہوجائے گی‘ اسی طرح سے دیگر مناسک جیسے وقوف عرفہ وغیرہ میں اس کی طرف سے بھی نیت کرلے‘ حتیٰ المقدور اس کو ممنوعات احرام سے بچانے کی کوشش کرے‘ اگر کوئی قصور و جنایت اس سے سرزد ہو تو اس پر یا اس کے ولی پر کوئی جزا واجب نہیں ہوگی-<br /> احرام کے موقع پر سلا ہوا لباس اس کے بدن سے نکال دیا جائے اور حسب قاعدہ اس کو بھی احرام کی چادریں پہنائی جائیں۔</span></span></div>