<div style="text-align: right"><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">تحویل قبلہ: <br /> اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت سے کعبۃ اللہ شریف کو آپ کی امت کے لئے قبلہ بنادیا- <br /> تمام عبادات میں نماز عظیم ترین عبادت ہے ۔<br /> جس کا ادا کرنا ہر بندۂ مومن پر فرض ہے ۔ جس طرح نماز خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جائے اسی طرح باطن پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں باجماعت نماز ادا کرنے کا سب سے بڑا ظاہری فائدہ اتحاد و اتفاق ہے اور نماز میں اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ کوئی جہت و سمت من جانب اللہ متعین ہو، جس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی جائے۔ چنانچہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تک مکہ مکرمہ میں قیام فرمارہے کعبۃ اللہ شریف کی جانب رخ کرکے نمازیں ادا فرماتے رہے لیکن ہجرت کے بعد آپ بحکم خدا بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نمازیں ادا فرمائیں۔ (صحیح بخاری شریف ۔ ج1۔ ص 57) <br /> سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نمازیں ادا فرمائیں، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش تھی کہ کعبۃ اللہ کو قبلہ بنایا جائے اکثر آپ وحی کے انتظار میں آسمان کی طرف چہرہ مبارک اُٹھا اُٹھا کر دیکھتے ۔ <br /> حضور نبی مکرم سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوقات میں سب سے افضل ترین ہیں ۔<br /> بارگاہ الٰہی میں آپ کا وہ مقام و مرتبہ ہے کہ جو آپ کی رضا ہوتی ہے وہی خالق کائنات کی رضا ہوتی ہے۔ <br /> رب تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم راضی اور خوش ہوجائیں چنانچہ ارشاد فرمایا: <br /> <font color="#006633">ولسوف یعطیک ربک فترضی-<br /> </font>ترجمہ: اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتناعطا فرمائے گاکہ آپ راضی ہوجائیں گے۔(سورۃ الضحی۔5) <br /> حدیث قدسی ہے : <br /> <font color="#006633">کل یطلبون رضائی وانا اطلب رضاک یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) <br /> </font>ترجمہ: سب میری رضا چاہتے ہیں اور میں تو آپ کی رضا چاہتا ہوں۔(جواھر البحار) <br /> آپ کی خواہش کے مطابق کعبہ شریف کومسلمانوں کا قبلہ بنادیا گیا کیوں کہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اسے تعمیر فرمایا تھا اور یہ عرب کو اسلام کی طرف راغب کرنے کا مؤثر ذریعہ تھا لہٰذا اللہ عز و جل نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حسب خواہش و مرضی نماز میں کعبہ شریف کی طرف رخ کرنے کا حکم فرمایا۔ <br /> چنانچہ سنھ 2 ہجری ماہ رجب بروز دوشنبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد بنی سلمہ میں نماز ظہر کی امامت فرمارہے تھے کہ عین حالت نماز میں وحی الٰہی آئی کہ آپ اپنا رخ انور کعبۃ اللہ کی جانب کرلیں،جیسا کہ ارشاد پاک ہے : <br /> <font color="#006633">قد نری تقلب وجہک فی السماء فلنولینک قبلۃ ترضٰہا-<br /> </font>ترجمہ:ہم بار بار آپ کے چہرہ انورکا آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف متوجہ ہونے کے لئے فرماتے ہیں جس کو آپ پسند فرماتے ہیں ۔ (سورۃ البقرہ ۔144) <br /> سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حالتِ نماز ہی میں اپنا رخ انوربیت المقدس سے کعبۃ اللہ کی جانب کرلیا اور تمام مقتدیوں نے بھی بحالت نماز آپ کی اتباع میں کعبۃ اللہ شریف کی طرف رخ کرلیا چونکہ اس مسجد میں ایک ہی نماز دونوں قبلوں کی طرف رخ کرکے ادا کی گئی اس لئے اس کو مسجد قبلتین کہا جاتا ہے<br /> ۔ (زرقانی علی المواہب ۔ ج2 ۔ ص 242/249</span></span></div>