<table border="0" cellspacing="0" cellpadding="0" width="97%" align="center"> <tbody> <tr> <td> <div style="text-align: right" class="arttext"><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">عمرہ سنت ہے، عمرہ کے لئے کوئی خاص وقت مقرر نہيں ،ایا م حج "9،10،11،12،13،"ذی الحجہ کے سوا کسی بھی وقت عمرہ ادا کیا جاسکتا ہے-<br /> عمرہ کی فضیلت:جامع ترمذی ،سنن ابن ماجہ اور سنن نسائی میں حدیث مبارک ہے: <br /> <font color="#000000">عن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم تابعوا بين الحج والعمرة فإنهما ينفيان الفقر والذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد والذهب والفضة-</font> <br /> ترجمہ:سیدنا عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،آپ نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :تم پے درپے حج وعمرہ کیا کرو کیونکہ حج وعمرہ فقر اور گناہوں کو ایسے ہی دفع کرتے ہیں جیسے بھٹی لوہا اور سونا چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے-<br /> (جامع ترمذی ، باب ما جاء في ثواب الحج والعمرة، حدیث نمبر:810) سنن نسائی ، فضل المتابعة بين الحج والعمرة ، حدیث نمبر: 2630- سنن ابن ماجہ، باب فضل الحج والعمرة، حدیث نمبر: 2887-<br /> صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں روایت ہے : <font color="#000000">عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رضى الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا ، وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلاَّ الْجَنَّةُ –</font> <br /> ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مقبول کا بدلہ صرف جنت ہے ۔<br /> ( صحیح بخاری ، باب وجوب العمرة وفضلها، حدیث نمبر:1773- صحیح مسلم، باب فى فضل الحج والعمرة ويوم عرفة، حدیث نمبر:3355) <br /> سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث مبارک ہے: <font color="#000000">عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ : الْحُجَّاجُ وَالْعُمَّارُ وَفْدُ اللَّهِ إِنْ دَعَوْهُ أَجَابَهُمْ وَإِنِ اسْتَغْفَرُوهُ غَفَرَ لَهُمْ –</font> <br /> ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالی کے مہمان ہیں, اگر وہ اللہ تعالی سے کوئی دعامانگتے ہیں تو وہ قبول فرماتا ہیں اور اگروہ مغفرت طلب کرتے ہیں تو اللہ تعالی ان کو بخش دیتا ہے-<br /> (سنن ابن ماجہ، باب فضل دعاء الحج، حدیث نمبر:3004) <br /> فرائض عمرہ: <br /> عمرہ میں دو(2)فرض ہیں –<br /> (1) احرام مع نیت عمرہ و تلبیہ -<br /> (2) خانہ کعبہ کا طواف ۔ <br /> واجبات عمرہ: <br /> عمرہ کے دو(2) واجبات ہیں-<br /> (1) صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا –<br /> (2) حلق یا قصر کروانا ۔ <br /> <br /> حدود حرم میں رہنے والے افراد حرمی کہلاتے ہیں- حدود حرم میں رہنے والے شخص کی میقات، حج کے لئے حرم ہے اور عمرہ کے لئے حل یعنی حدود حرم کے باہر کا حصہ مثلا :مسجد عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ،جعرانہ وغیرہ <br /> حدود حرم کے باہر کا وہ حصہ جو میقات تک پھیلا ہوا ہے اسے حل کہتے ہيں ،میقات اور حل کے درمیان میں رہنے والے افراد کو حلی کہتے ہیں مثلا ساکنان جدہ وغیرہ ،ان کی میقات حل ہے ،اگر وہ حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ آئیں تو وہ اپنے مقام ہی سے احرام باندہ لیں <br /> میقات سے باہر رہنے والےافراد جو حج وعمرہ کا قصد کرکے آئیں ان کو آفاقی کہتے ہیں -<br /> حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اقطاع عالم سے حج وعمرہ کے لئے آنے والوں کےمواقیت مقرر فرمائے ہیں ،کہ وہ ان مقامات نے سے احرام باندہ کرآئيں-<br /> صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے:‍<br /> <font color="#000000">عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضى الله عنهما قَالَ وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ ، وَلأَهْلِ الشَّأْمِ الْجُحْفَةَ ، وَلأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ الْمَنَازِلِ ، وَلأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ-<br /> </font>ترجمہ:سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اہل مدینہ منورہ کے لئے ذو الحلیفہ میقات مقرر فرمائی اور اہل شام کے لئے جحفہ اور اہل نجد کے لئے قرن المنازل اور اہل یمن کے لئے یلملم مقرر فرمایا- <br /> (صحیح بخاری شریف، باب مهل أهل الشأم . ، حدیث نمبر: 1526) <br /> اور صحیح مسلم شریف میں حدیث مبارک ہے: <br /> <font color="#000000">۔۔۔۔ وَمُهَلُّ أَهْلِ الْعِرَاقِ مِنْ ذَاتِ عِرْقٍ-<br /> </font>اہل عراق کے لئے میقات ذات عرق ہے-<br /> (صحیح مسلم شریف، باب مواقيت الحج والعمرة ،حدیث نمبر: 2867) <br /> کعبۃ اللہ شریف کے چاروں جانب مندرجہ ذیل مواقیت ہیں-<br /> (1)" ذو الحلیفہ " مدینہ طیبہ سے آنے والوں کے لئے میقات ہے-<br /> (2) " جحفہ " مصر اور شام سے آنے والوں کے لئے میقات ہے-<br /> (3)" قرن " نجد سے آنے والوں کے لئے میقات ہے-<br /> (4) " یلملم "یمن،تہامہ ، ہندوستان،پاکستان اور اس کے محاذات سے آنے والوں کے لئے میقات ہے-<br /> (5) " ذات عرق " عراق وغیرہ سے آنے والوں کے لئے میقات ہے-<br /> طریقہ عمرہ مع ادعیہ ماثورہ-<br /> احرام کی شرعی تعریف: <br /> احرام کے معنی حرام کرنے کے ہیں، جب محرم عمرہ یا حج کی نیت سے احرام باندھ کر تلبیہ پڑھ لیتا ہے تو چند جائز و حلال چیزیں احرام کےسبب اس پر حرام ہوجاتی ہیں‘ اس لئے اس کو احرام کہتے ہیں-<br /> احرام کی عرفی تعریف: <br /> عرف میں احرام ان دو چادروں کو کہتے ہیں جن کو عمرہ یا حج کرنے والااستعمال کرتا ہے –ایک بطور تہبند اور دوسری بطور چادر –<br /> غسل سے فارغ ہونے کے بعد دو چادر یں ایک بطور تہبند استعمال کریں اور دوسری بطور چادر اوڑھیں-<br /> احرام کی چادریں اگر نئی ہوں تو افضل و بہتر ہے ورنہ استعمال شدہ چادروں کو بھی دھونے کے بعد استعمال کیا جاسکتا ہے‘ فتاویٰ عالمگیری ۔کتاب المناسک میں ہے: <font color="#000000">ويلبس ثوبين ازاراً و رداءًً جديدين غسيلين‘ والجديد افضل کذافی فتاوی قاضی خان۔ </font><br /> <br /> عورت کا احرام: <br /> خواتین کے لئے احرام میں کوئی خاص لباس متعین نہیں بلکہ ان کا روزمرہ کا لباس کافی ہے بشرطیکہ وہ ساتر ہو اور حیا و حجاب کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔اور عورت کا احرام اس کے چہرے میں ہے-مرد حضرات کو سر اور چہرہ دونوں ڈھانکنا منع ہے اور خواتین کو صرف چہرہ ڈھانکنا منع ہے ،خواتین غیرمحرم سے پردہ کرنے کی غرض سے اس طرح کا نقاب استعمال کرسکتی ہیں کہ جس میں کپڑا چہرے سے مس نہ ہوتا ہو - <br /> جب احرام باندھنے کا ارادہ کریں تو جسم سے زائد بال دور کریں اور اچھی طرح سےغسل کریں-خواتین اگرچہ کہ وہ ناپاکی کی حالت میں ہوں غسل کرلیں <br /> پھر سر ڈھانک کرغیر مکروہ وقت میں دورکعت نفل اس طور پر اد اکریں کہ پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون ،اور دوسری رکعت میں ،سورۃ الاخلاص پڑھیں-<br /> نماز سے فارغ ہوکر سر سے چادر ہٹادیں ،قبلہ رخ ہوکر عمرہ کی نیت کرلیں، نیت دل کے ارادہ کا نام ہے تاہم زبان سے ادا کرنا مستحب ہے -<br /> عمرہ کی نیت : <br /> <font color="#000000">اللَّهُمَّ إنِّي أُرِيدُ الْعُمْرَة فَيَسِّرْها لِي وَتَقَبَّلْها مِنِّي-</font> <br /> ترجمہ:ائے اللہ میں عمرہ کی نیت کرتا ہوں ،تو اسے میرے لئے آسان فرمادے اور اسے قبول فرما-<br /> عمرہ کی نیت کے ساتھ ہی ایک مرتبہ تلبیہ پڑھنا واجب ہے اور تین مرتبہ پڑھنا مستحب ہے-مرد حضرات بلند آواز سے پڑھیں اور مستورات آہستہ پڑھیں <br /> تلبیہ یہ ہے: <br /> <font color="#000000">لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ-</font> <br /> تلبیہ پڑھنے کے بعد ذکر وتسبیح ،درود وسلام کا اہتام کریں ،اور تضرع وزاری کے ساتھ دعائیں کریں ،جس زبان میں دعاء یاد ہو کریں -<br /> احرام میں داخل ہونے کے بعد چند چیزیں محرم پر حرام ہوجاتی ہیں ،ان سے احتراز کریں-<br /> ممنوعات احرام <br /> اصولی طور پر احرام کی حالت میں چھ(6) چیزیں ممنوع ہیں-جن میں سے چار (4) مرد وعورت دونوں سے متعلق ہیں اور دو(2) مرد حضرات سے متعلق ہیں - <br /> (1) بیوی کے ساتھ صحبت کرنا یا اس کے مبادیات اور اس کے تمام متعلقات یہاں تک کہ اس عنوان کی کوئی گفتگو وغیرہ- <br /> (2) خشکی کےجانوروں کا شکار کرنا یا شکار کی طرف رہبری کرنا-<br /> (3) بال کٹوانا یا ناخن ترشوانا-<br /> (4) خوشبو کا استعمال کرنا۔ <br /> یہ چار ممنوعات مرد و عورت دونوں کے لئے ہیں –<br /> اور یہ دو<br /> (5) سلا ہوا لباس پہننا-<br /> (6) سر اور چہرے کو ڈھانکنا۔<br /> صرف مرد حضرات کے لئے ممنوع ہیں- <br /> اگر کسی سے بحالت احرام ان چھ ممنوعات میں سے کوئي ممنوع عمل سرزد ہوجائے تو اس پر حسب ترتیب کفارہ و صدقہ لازم آتا ہے-<br /> ٭پہلی صورت یعنی بیوی سے مباشرت کرنے یا شہوت سے بوس وکنار کرنے کی صورت میں دم واجب ہے،خواہ انزال ہویا نہ ہو-<br /> ٭شکار کرنے کی صورت ميں دو عادل مسلمان جو اس شکار کی قیمت مقرر کریں اسے صدقہ کرنا واجب ہے-<br /> ٭ سر کے علاوہ بدن کے کچھ مخصوص حصوں سے یا تمام بدن سے ایک ہی مجلس میں بال نکالنے پر ایک دم واجب ہوگا- اگر مختلف مجالس میں علحدہ علحدہ مختلف مقامات کے بال نکالیں تو علحدہ علحدہ دم واجب ہوگا-سر ،داڑھی ،گردن ،بغل اور زیر ناف کے بال نکالے جائیں تو دم واجب ہوگا-باقی دیگر اعضاء کے بال نکالنے پر صدقہ واجب ہوگا- <br /> اگر حالت احرام میں ہاتھ پیر کے تمام ناخن ت