<span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><center><center><span style="font-size: large"><center><strong>مسجد نبوی شریف میں زور سے پکارنے کی ممانعت </strong><br /> مسجد نبوی شریف میں کسی کودور سے بآوازبلند پکارنا سخت ممنوع اور خلاف ادب ہے‘ یہ وہ مقدس مسجد شریف ہے جہاں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا روضۂ اطہر ہے،پیکرادب ہوکر حاضر ہونا چاہئیے، یہ وہ بارگاہ عالی جاہ ہے جہاں آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا اور آوازبلند کرنے کا حکم یہ ہے کہ تمام اعمال وعبادتیں ضائع وبرباد ہوجاتی ہیں اور آدمی کو اس کا شعور واحساس بھی نہیں رہتا جیسا کہ بارگاہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے آداب کی تعلیم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : <br /> <font color="#000000">يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ-<br /> </font>ترجمہ : اے ایمان والوا! تم اپنی آوازوں کو نبی (اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی آواز پر بلند مت کرو اور آپ کی خدمت میں اس طرح گفتگو مت کرو جس طرح تم ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہو ورنہ تمہارے اعمال ضائع واکارت ہوجائیں گے اور تمہیں اس کی خبر نہ ہوگی- (سورۃ الحجرات ۔2) <br /> حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد بھی یہی حکم ہیکہ مسجد نبوی شریف میں آواز بلند نہ کی جائے چنانچہ صحیح بخاری شریف ،ج1،کتاب الصلوۃ باب رفع الصوت فی المسجدص 67 میں حدیث مبارک ہے(حدیث نمبر :470) <br /> <font color="#000000">عن السائب بن يزيد قال کنت قائما فی المسجد فحصبنی رجل فنظرت اليه فاذا عمر بن الخطاب فقال اذهب فائتنی بهذين فجئته بهما فقال ممن انتما ؟او من اين انتما؟ قالا من اهل الطائف قال لوکنتما من اهل البلد لاوجعتکما. ترفعان اصواتکما فی مسجد رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ۔<br /> </font>ترجمہ: حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا میں مسجد نبوی میں کھڑا ہوا تھا تو ایک صاحب نے میری طرف کنکری پھینک کر متوجہ کیا,میں نے دیکھا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں آپ نے اشارہ دیاکہ ان دوآدمیوں کو میرے پاس لے آؤ! تو میں ان دونوں کو لے کر آپ کے پاس پہنچا ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :تم کس قبیلہ کے ہو ؟یا فرمایا: تم کس علاقہ کے باشندے ہو؟ ان دونوں نے عرض کیا: ہم طائف کے باشندے ہیں آپ نے فرمایا :اگر تم اس شہر کے رہنے والے ہوتے تو میں ضرور تمہیں سزادیتا تم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں اپنی آواز یں بلند کرتے ہو؟ <br /> سیدی شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی بانیٔ جامعہ نظامیہ رحمۃاللہ علیہ اس حدیث شریف کی شرح کرتے ہوئے رقمطرازہیں: <br /> اس خبر سے ظاہر ہے کہ مسجد شریف میں کوئی آواز بلند نہیں کرسکتا تھااور اگر کرتا تو مستحق تعزیر سمجھاجاتا تھاباوجود یہ کہ سائب بن یزید چنداں دور نہ تھے، مگر اسی ادب سے عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو پکارا نہیں بلکہ کنکری پھینک کر اپنی طرف متوجہ کیا،یہ تمام آداب اسی وجہ سے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیات ابدی وہاں تشریف رکھتے ہیں کیونکہ اگر لحاظ صرف مسجد ہونے کا ہوتا تو "فی مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "کہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی –<br /> دوسرا قرینہ یہ ہے کہ اس تعزیر کو اہل بلد کے لئے خاص فرمایا جن کو مسجد شریف کے آداب بخوبی معلوم تھے اگرصرف مسجد ہی کا لحاظ ہوتا تو اہل طائف بھی معذور نہ رکھے جاتے کیونکہ آخر وہاں بھی مسجدیں تھیں۔ <br /> علامہ ابو الفضل قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ شفاء شریف میں بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب بتفصیل بیان کرنے کے بعدالباب الثالث فی تعظیم امرہ ووجوب توقیرہ وبرہ ص251، پر رقمطراز ہیں: <br /> <font color="#000000">واعلم ان حرمة النبی صلی الله عليه وآله وسلم بعد موته وتوقيره وتعظيمه لازم کماکان حال حياته ۔ ۔ ۔ قال ابو ابريهم التجيبی واجب علی کل مؤمن متی ذکره أو ذکر عنده أن يخضع ويخشع ويتوقر ويسکن من حرکته ويأخذ فی هيبته واجلاله بما کان يأخذ به نفسه لوکان بين يديه ويتأدب بماأدبنا الله به۔ قال القاضی ابو الفضل وهذه کانت سيرة سلفنا الصالح وأئمتنا الماضين رضی الله عنهم ۔<br /> </font>ترجمہ :حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں باادب رہنا عظمت بجالانا جس طرح قبل وصال شریف لازم تھا وصال فرمانے کے بعد بھی لازم وضروری ہے ۔ ۔ ۔ ہرایمان والے پر واجب ہے کہ جب آپ کا ذکر مبارک کرے یا سنے تو حددرجہ خشوع وخضوع کا اظہار کرے اپنے افعال وحرکات میں مؤدب رہے، آپ کی عظمت وبزرگی کو ملحوظ خاطر رکھے اور اللہ تعالی کے حکم اور تعلیم کے مطابق ادب بجالائے کیونکہ وہ خدمت اقدس میں حاضر ہے ۔علامہ ابو الفضل قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہمارے سلف صالحین اور بزرگ ائمہ کا یہی طریقہ ہے۔ <br /> مدینہ منورہ میں زائرین روضۂ اطہر کو ان آداب کا لحاظ رکھنا چاہئیے ، کسی کو مسجد نبوی شریف میں بلند آوازسے نہ پکاریں اور اپنے تمام حرکات وسکنا ت میں سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہونی چاہئیے جس میں بے ادبی کا ادنی شائبہ بھی ہو۔</center></span></center></center></span><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><br /> </span></span><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><center><center><span style="font-size: large"><center><strong>روضۂ اطہر کی حاضری<br /> </strong>حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دراقدس کی حاضری اقرب القربات اور موجب شفاعت ہے، <br /> سنن دارقطنى،شعب الإيمان للبيهقي،جامع الأحاديث،جمع الجوامع،مجمع الزوائد اور كنز العمال وغیرہ حدیث مبارک ہے : <br /> <font color="#000000">عن ابن عمر ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « من زار قبري وجبت له شفاعتي- </font><br /> ترجمہ: سیدنا عبد اللہ ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے ،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میرے روضۂ اطہر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوچکی ہے-<br /> سنن الدارقطنى: کتاب الحج، حدیث نمبر::2727-<br /> (شعب الإيمان للبيهقي، الخامس و العشرين من شعب الإيمان و هو باب في المناسك ، فضل الحج و العمرة حدیث نمبر: 4159) <br /> جامع الأحاديث، حرف الميم، حدیث نمبر: 22304-<br /> جمع الجوامع، حرف الميم، حدیث نمبر: 5035<br /> مجمع الزوائد ،ج 4،ص 6،حدیث نمبر:5841-<br /> كنز العمال ، زيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم،حدیث نمبر: 42583-<br /> <center><strong>مسجد نبوی شریف سے نکلتے وقت چپل وغیرہ پٹخنا <br /> </strong></center></center></span></center><span style="font-size: large"><br /> </span></center></span><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><br /> </span></span> <div style="text-align: right"> </div> <center></center><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">کسی بھی کام کو اطمینان وآہستگی‘ وقاروشائستگی کے ساتھ کرنا چاہئیے،عجلت وبے وقاری طبیعت سلیمہ کے لئے پسند یدہ نہیں ،حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام امور کو اطمینان و وقار کے ساتھ انجام دیتے چنانچہ صحیح مسلم شریف ،ج،1،کتاب الجنائز، فصل فی التسلیم علی اہل القبور والدعاء والاستغفار لہم، ص 313، میں طویل روایت کا ایک جزملاحظہ ہو(حدیث نمبر:974) <br /> <font color="#000000">فاخذ ردائه رويدا وانتعل رويد ا وفتح الباب رويدا فخرج ثم اجافه رويدا ۔ ۔ ۔ ۔<br /> </font>ترجمہ: ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آہستہ سے اپنی چادر مبارک لی ،اطمینان سے نعلین مبارک پہنی ،آہستہ دروازہ کھول کر باہر تشریف لے گئے پھر آہستہ سے دروازہ بندکیا۔ <br /> (صحیح مسلم شریف، ج،1،کتاب الجنائز، فصل فی التسلیم علی اہل القبور والدعاء والاستغفار لہم، ص 313،حدیث نمبر:974) <br /> کسی بھی موقع پر چپل وغیرہ پٹخنا یا زمین پر اس طرح زور سے رکھنا کہ جس سے آواز آئے ناپسندیدہ ہے ، اور مساجدسے نکلتے وقت یہ عمل حد درجہ ناپسندیدہ ہے ، مسجد میں داخل ہوتے وقت، نکلتے وقت اور اندرون مسجد اس کے آداب کو ملحوظ رکھاجائے ایسی کوئی آواز نہ کی جائے جس سے نمازیوں او رذکر وتلاوت کرنے والوں کو خلل ہو ،لہذا چپل وغیرہ رکھتے وقت آہستگی ووقار کو پیش نظررکھنا چاہئیے-<br /> یہ عام مساجد کے احکام ہیں اور بالخصوص مسجد نبوی شریف علی صاحبہ الصلوۃ والسلام اور مسجد حرام شریف کے آداب تو دیگر مساجد کے بالمقابل زائد ہیں اس لئے حجاج کرام وزائرین حضرات کو چپل پہنتے اور رکھتے وقت ان مقامات مقدسہ کی قربت کا لحاظ کرتے ہوئے اس طرح کی غفلت ولاپرواہی سے مکمل طور پر احتیاط برتنی چاہئیے کہ کہیں یہ عمل سوئے ادبی قرار پاکر دنیا وآخرت میں خسارہ کا باعث نہ بن جائے۔ <br /> </span></span><center></center>