<div style="text-align: right"><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">حج ارکان اسلام کا ایک مہمتم بالشان رکن ہے<br /> حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد سے ہجرت تک تین حج ادا فرمائے اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے قیام مکہ مکرمہ کے دوران ہر سال حج ادا فرمایا ہے، <br /> فرضیت حج کا حکم نازل ہونے کے بعد آپ نے ایک حج فرمایا جسکو حجۃ الوداع کہتے ہیں ، یہ وہ عظیم یادگار اور تاریخ ساز حج ہے جس میں صحابہ کرام اقطاع عالم سے سفر کرکے حاضرہوئے او رسرورعالمیان معلم کتاب وحکمت ، شارع اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بافیض صحبت سے مستفیض ہوتے ہوئے مناسک حج اداکرنے کی سعادت حاصل کی ۔ <br /> سیرت حلبیہ ج 3 ص 283، میں ہے: <br /> <font color="#000000">ولم يحج منذ هاجرالی المدينة غير هذه الحجة قال واما بعد النبوة قبل الهجرة فحج ثلاث حجات۔<br /> </font>حج کی فرضیت کے سن سے متعلق درج ذیل اقوال ہیں : <br /> 6ھ؁ 7ھ ؁ 8ھ؁ اور 9ھ ؁ - <br /> صاحب سیرت حلبیہ نے فرمایا : 6ھ؁ جمہور کا قول ہے ،امام رافعی اور امام نووی نے اس کو صحیح کہاہے۔ <br /> سیرت حلبیہ ج،3، حجۃ الوداع کے بیان میں ،283، پر ہے : <br /> <font color="#000000">قال الجمهور فرض الحج کان سنة ست من الهجرة ای وصححه الرافعی فی باب السيروتبعه النووی۔ <br /> </font>لیکن درمختار اور اسکی شرح ردالمحتار میں 9ھ؁ کے قول کو ترجیح دی گئی ہے : <br /> <font color="#000000">(فرض) سنة تسع انما اخره عليه الصلوة والسلام لعشر لعذر مع علمه ببقاء حياته ليکمل التبليغ –<br /> </font>اور ردالمحتار، ج، 2، ص، 151، میں ہے: <br /> <font color="#000000">وقدم الاول لمافی حاشيته الشبلی عن الهدی لابن القيم ان الصحيح ان الحج فرض فی اواخرسنة تسع۔ </font><br /> حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم چونکہ اپنی حیات طیبہ ،دنیوی قیام اور وصال مقدس سے متعلق بعطاء الہی کامل علم رکھتے ہیں اسی بنا پر آپ نے حج کو مؤخر فرمایا اور سن 10ھ میں کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار جاںنثاروں کو رفاقت کا شرف بخشتے ہوئے حجۃ الاسلام ادا فرمایا - <br /> حجۃ الوداع کی وجہ تسمیہ: <br /> حجۃ الوداع کے مختلف نام ہیں: <br /> (1) حجۃ الوداع-<br /> (2) حجۃ التمام-<br /> (3) حجۃ البلاغ-<br /> (4) حجۃ الاسلام –<br /> حجۃ الوداع کہنے کی پہلی وجہ: <br /> اس حج کو حجۃ الوداع اس لیے کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حج کے خطبہ میں اپنی امت کو خطاب کرکے الوداع فرمایا۔<br /> دوسری وجہ: <br /> اس زمانہ میں سفر کے لیے سہولتیں نہ ہونے کے باوجود اقطاع عالم میں رہنے والے اہل اسلام دور دراز مقامات سے آکر اس مبارک حج میں شریک ہوئے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار اور ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ چودہ ہزار صحابہ کرام اس موقع پر موجود تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ عالی جاہ میں صحابہ کرام کا اتنا بڑا مجمع اس کے بعد حاضر نہیں ہوا اور اس حج میں دور دراز سے آکر شرکت کرنے والوں میں اکثر حضرات کے لیے یہ ظاہری اعتبار سے آخری اور وداعی حاضری تھی اس لیے اس کو حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ <br /> حجۃ التمام کہنے کی وجہ: <br /> نو9 ذی الحجہ وقوف عرفہ کے دن دین اسلام کے تمام و کمال سے متعلق یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔<br /> <font color="#000000">اليوم اکملت لکم دينکم و اتممت عليکم نعمتی و رضيت لکم الاسلام دينا-<br /> </font>ترجمہ: میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام سے بحیثیت دین راضی ہوگیا۔ (سورۃ المائدہ ۔3) اسی مناسبت سے اس حج کو حجۃ التمام کہا جاتا ہے۔ <br /> حجۃ البلاغ کہنے کی وجہ: <br /> اس کو حجۃ البلاغ اس لئے کہتے ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حج کے خطبوں میں احکام الٰہی پہنچا کر تمام حاضرین سے تبلیغ رسالت پر گواہی طلب فرمائی، اُن کو گواہ بنایا اور حکم فرمایا: <br /> <font color="#000000">الا فليبلغ الشاهد الغائب۔<br /> </font>ترجمہ:سنو جو شخص حاضر ہے وہ غائب شخص کو پہنچا دے۔(سیرت حلبیہ ۔ ج3 ۔ ص282/283) <br /> حجۃ البلاغ کہنے کی وجہ: <br /> حجۃ الاسلام اس لئے کہتے ہیں کہ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس حج کے خطبہ میں اسلامی احکام کا خلاصہ و لب لباب بیان فرمایا اور اسلامی تعلیمات کے ہر گوشہ سے متعلق ہدایات مرحمت فرمائی۔ </span></span></div>