<table border="0" cellspacing="1" cellpadding="2" width="762" align="center" height="388"> <tbody> <tr> <td bgcolor="#ffffff" height="18" valign="top" colspan="2"> <table border="0" cellspacing="0" cellpadding="0" width="97%" align="center"> <tbody> <tr> <td> <div class="arttext" align="right"><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">از: حضرت ابوالحسنات محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ <br /> اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرنے والو! اگر تم عمل سے خدا اور رسول کی مخالفت کرتے ہوئے محبت کا دعویٰ کررہے ہو تو یاد رکھو کہ دھوکہ کھارہے ہو‘ جلد اپنی خبر لو‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو‘ اور آپ کے طریق پر چلو تو سچے محبت کرنے والوں میں تمہارا شمار ہوگا۔ <br /> آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرو اور مٹی ہوئی سنتوں کو زندہ کرو‘ اس کے بغیر امن نصیب نہیں ہوتا۔ <br /> حدیث شریف: <br /> جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جس نے زندہ کیا میری سنت کو‘ اُس نے زندہ کیا مجھ کو‘ اور جس نے زندہ کیا مجھ کو‘ اس نے محبت کی مجھ سے‘ اور جس نے محبت کی مجھ سے وہ میرے ساتھ جنت میں رہے گا‘‘۔ <br /> اور فرمایا: جو میری سنت کی حفاظت کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو چار طرح سے عزت دے گا <br /> (1) نیکوں کے دل میں محبت پیدا ہوگی۔ <br /> (2) فاجروں کے دلوں میں ہیبت پیدا ہوگی۔ <br /> (3) رزق میں وسعت ہوگی۔ <br /> (4) سب لوگوں کو دین میں اس پر بھروسہ ہوگا۔ <br /> جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کی علامت ہے‘ اس لئے کہ چاہنے والے کو اپنے محبوب کی ہر ادا اچھی معلوم ہوتی ہے‘ لیکن سنت رسول کی پیروی بڑے ہی دل گردہ کا کام ہے‘ اس زمانے میں سنتوں پر عمل کرنا آگ کو ہاتھ میں لینے کے برابر ہے‘ غرض سنتوں پر عمل پیرا رہئے‘ کیسی ہی مشکلات کیوں نہ درپیش ہوں۔ <br /> اتباعِ سنت کا شوق نہایت مناسب ہے‘ اس سے سلوک بہت جلد طئے ہوجاتا ہے‘ سب سے بڑی سنت یہ ہے کہ دل کی بیماریوں سے واقف ہوکر وقتاً فوقتاً ان کا علاج کرتے رہیں۔ <br /> بابا! ہر معاملہ میں اتباع سنت کو اپنے لئے مشعل راہ بناؤ‘ اسی میں نور ہدایت ہے‘ رہبانیت اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں‘ اتباع سنت یہ ہے کہ اللہ اور بندوں کا حق ادا کرتے ہوئے مشغولِ طاعتِ الٰہی رہے۔ <br /> حکایت: <br /> حاکم وقت نے جب امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے قتل کا ارادہ کیا تو آپ تین دن چھپے رہے اور چوتھے دن باہر نکل آئے‘ لوگوں نے کہا حضرت! ابھی آپ کو ظالم ڈھونڈ رہے ہیں‘ اس وقت آپ کا ظاہر ہونا مناسب نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کیا کروں بھائی مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع منظور ہے‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غار ثور میں صرف تین دن ہی رہے ہیں‘ میں اس سے زیادہ دنوں تک چھپ کر کس طرح سنت کے خلاف کرسکتا ہوں۔ <br /> شیطان کے دھوکے میں نہ آئیے‘ بے شک خدا کی رحمت وسیع ہے مگر اس کے لئے جو اعمالِ صالحہ کرے اور جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع رہے‘ اس لئے کہ صرف ایمان کافی نہیں ہے‘ اعمالِ صالحہ و اتباع سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی بڑی ضرورت ہے۔ <br /> اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت چاہتے ہو تو ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کے در پر آؤ‘ اسی در پر خدا کی رحمت بٹتی ہے۔ <br /> کون رحمۃ للعالمین؟ وہی جن کا نامِمبارک ’’محمد‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور آسمانی کتابوں میں جن کی مدح و ثناء آئی ہے۔ <br /> حدیث شریف: <br /> جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری سنت کو دوست رکھنے والا میرا دوست ہے‘ اور میرا دوست میرے ساتھ جنت میں جائے گا۔ <br /> حدیث شریف: <br /> جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جس نے میری سنت پر عمل کیا وہ فائزین سے ہے اور جس نے اُسے ترک کیا وہ قاصرین سے ہے‘ اور جس نے میری سنت ضائع کی اس پر میری شفاعت حرام ہوئی۔ <br /> اگر جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کی آرزو ہے تو چار دن کی تکلیف اٹھاؤ‘ پھر ہمیشہ ان کے ساتھ رہو‘ حضرت کی تابعداری اور سنت پر عمل کرو‘ درود شریف کثرت سے پڑھا کرو۔ <br /> آپ کو جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار مبارک کا شوق ہے تو یہ آپ کے کمال ایمان کی علامت ہے۔ بابا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پوری اطاعت کرنا اور تمام سنتوں کا پابند رہنا‘ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بیداری میں دیکھنا ہے‘ خواب میں دیکھنے سے بیداری کا دیکھنا افضل ہے۔ <br /> حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کرنے والو! صرف عظمت کرنے سے کام نہ چلے گا‘ عظمت کے ساتھ ساتھ تابعداری اور محبت بھی ضروری ہیں۔ غرض پورے پورے حقوق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ادا ہوں‘ ہم سے کماحقہ محبت و اطاعت تو کیا ہوسکتی ہے‘ کم سے کم نقل میں تو ویسی شکل و صورت بنالینی چاہئے۔ <br /> حکایت: <br /> اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کی تخت نشینی کا جلسہ ہوا‘ تمام کام کے لوگوں کو عطایا دئیے گئے‘ ایک بہروپیا بھی مانگنے آیا‘ مگر عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ عالم و متشرع بادشاہ تھے‘ کس مد سے دیتے؟ انکار کرنا بھی خلافِ مروّت ہی تھا‘ لطائف الحیل سے کام لینا چاہا‘ فرمایا انعام تو کسی کمال درجہ پر دیا جاتا ہے‘ تمہارا کمال یہ ہے کہ ایسی صورت بناکر آؤ کہ میں تم کو پہچان نہ سکوں۔ جب بھی وہ بھیس بدل کر آتا عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ اس کو پہچان لیتے اور کبھی دھوکہ نہ کھاتے۔ <br /> اتفاقاً عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کو دکن کا سفر درپیش ہوا‘ اُس بہروپیے نے داڑھی بڑھائی اور مقدس لوگوں کی صورت بناکر راستہ کے کسی موضع میں جابیٹھا‘ کچھ دنوں بعد اسے شہرت ہوگئی‘ عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کی عادت تھی کہ جہاں بھی جاتے وہاں کے علماء و فقراء سے ضرور ملتے‘ جب اُس موضع میں پہنچے تو اُس کی شہرت سُن کر پہلے وزیر کو بھیجا‘ وزیر نے چند مسائل تصوف کے پوچھے تو سب کا جواب معقول ملا کیونکہ اس وقت بہروپئے ہر فن سیکھتے تھے‘ وزیر نے واپس آکر بادشاہ سے بہت تعریف کی‘ عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ اس سے ملنے گئے اور بہت دیر تک گفتگو رہی‘ عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ سمجھے کہ ’’شاہ صاحب‘‘ بہت کامل شخص ہیں‘ لوٹتے وقت ایک ہزار دینار اشرفیاں پیش کیں‘ شاہ صاحب نے لات مارکر کہا تو اپنی طرح مجھ کو بھی سگِ دنیا خیال کرتا ہے‘ اس جواب سے بادشاہ کا اعتقاد اور بھی بڑھا‘ واقعی استغناء عجیب چیز ہے‘ عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ قیام گاہ واپس چلے آئے‘ پیچھے پیچھے وہی بہروپیا بھی پہنچ کر عرض کیا: خدا حضور کو سلامت رکھے لائیے میرا انعام۔ عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: ارے کیا تو تھا؟ انعام دیا اور فرمایا تو نے وہ اشرفیاں کیوں نہ لیں وہ تو اس انعام سے بہت بڑھ کر تھیں‘ کیا میں اشرفیاں تجھ سے واپس لے لیتا‘ اس نے کہا حضور اگر میں وہ نذرانہ لیتا تو نقل صحیح نہیں ہوتی‘ اس لئے کہ فقیری کا روپ تھا‘ نذرانہ لینا شانِ فقیری کے خلاف ہے‘ نقل اس کو کہتے ہیں اگر نقل کررہے ہو تو پوری مشابہت اختیار کرو تاکہ اس میں تابعداری و محبت اور عظمت بھی ہو۔ <br /> اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرنے والو! اگر آپ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمداً مخالفت کررہے ہو تو یاد رکھو کہ دھوکہ کھارہے ہو‘ جلد اپنی خبر لو اور قول و فعل ‘ عادات و اطوار اور عقائد میں آپ کے طریق پر چلو تو اللہ تعالیٰ کی سچی محبت کرنے والوں میں آپ کا شمار ہوگا۔ <br /> ممکن ہے کہیں آثارِ مُبارک نہ رہے ہوں‘ لیکن ان کی نسبت تو ہے‘ ہمیں اس جگہ کا بھی ادب کرنا چاہئے‘ <br /> ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق ہی ادا نہیں کررہے ہیں تو آثارِ مبارک کے حقوق کیا ادا کریں گے‘ ہم پر حضور کے تین حقوق ہیں: محبت‘ متابعت اور عظمت۔ صحابۂ کرام نے ان تینوں حقوق کو ادا کیا ہے‘ اسی طرح ہمیں بھی چاہئے کہ صحابہ کرام کے نقشِ قدم پر چلیں۔ </span></span></div> </td> </tr> </tbody> </table> <br /> <br /> </td> <td class="content" bgcolor="#2893a6" height="18" valign="top" width="107"> <div align="right"> </div> </td> </tr> <tr> <td bgcolor="#ffffff" height="18" valign="top" colspan="2"> <div align="right"> <p class="style5" align="left"><br /> </p> </div> </td> <td bgcolor="#2893a6" height="18"> <div align="right"> </div> </td> </tr> <tr> <td bgcolor="#ffffff" height="18" valign="top" colspan="2"> <div align="right"><strong><span class="style4"><font face="Tahoma">: In Inpage format..</font></span></strong></div> </td> <td bgcolor="#2893a6" height="18"> <div align="right"> </div> </td> </tr> <tr> <td bgcolor="#ffffff" height="18" valign="top" colspan="2"> <div align="right"><strong><font face="Tahoma"><img alt="" src="http://www.ziaislamic.com/Interfaces/UploadImages/sunnat...jpg" /></font> </strong></div> </td> <td bgcolor="#2893a6" height="18" valign="top" width="107"> </td> </tr> <tr> <td bgcolor="#ffffff" height="18" valign="top" colspan="2"> <div align="right"><strong><img alt="" src="http://www.ziaislamic.com/Interfaces/UploadImages/sunnat22.jpg" /> </strong></div> </td> <td bgcolor="#2893a6" height="18" valign="top" width="107"> </td> </tr> <tr> <td bgcolor="#ffffff" height="18" valign="top" colspan="2"> <div align="right"><strong><img alt="" src="http://www.ziaislamic.com/Interfaces/UploadImages/sunnat33.jpg" /> </strong></div> </td> <td bgcolor="#2893a6" height="18" width="107"> </td> </tr> <tr> <td bgcolor="#ffffff" height="18" valign="top" colspan="2"> <div align="right"><strong><img alt="" src="http://www.ziaislamic.com/Interfaces/UploadImages/sunnat44.jpg" /></strong></div> </td> </tr> </tbody> </table>