Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Scholarly Articles

صبر کامیابی کی کنجی ہے


از:حضرت ابوالحسنات محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ
نفس Ú©Ùˆ غضب Ùˆ شہوت سے روکنے اور عقل Ú©Ùˆ اپنی خواہش پر ترجیح دینے اور حد شرعی سے باہر نہ ہونے کا نام صبر ہے‘ صبر کامیابی Ú©ÛŒ کنجی ہے اور ترقی باطن کا دارومدار صبر ہی پر ہے‘ صبر سے روح میں تازگی Ùˆ نورانیت اور نفس میں پژمردگی پیدا ہوتی ہے۔
کوئی کام دنیا کا ہو یا دین کا بے صبری سے نہیں بن پاتا‘ جہاں تک غور کیا جائے بے صبری سے کہیں کامیابی نہیں ہوتی‘ جس قدر بلند درجات ہیں صابرین ہی Ú©Ùˆ دینے کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔
بڑے بڑے مراتب Ùˆ درجات مصیبت زدوں Ú©Û’ لئے ہی ہیں‘ دوسرے ان مراتب پر نہیں پہنچ سکتے۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب کسی بندہ Ú©Ùˆ خدائے تعالیٰ کوئی مرتبہ دینا چاہتے ہیں اور وہ عمل سے اس مرتبہ پر نہیں پہنچ سکتا تو اسے جسمانی مصائب میں مبتلا کردیتے ہیں‘ یا مال Ú©ÛŒ مصیبتیں دے کر مفلس Ùˆ محتاج بنادیتے ہیں‘ یا اولاد Ú©ÛŒ اموات سے مصیبتیں آتی ہیں‘ جب وہ بندہ ان بلاؤں پر صبر کرتا ہے تو جو درجہ عمل سے نہیں مل سکتا تھا وہ ان بلاؤں پر صبر کرنے سے مل جاتا ہے۔
مصائب اور بلائیں تو بظاہر بری معلوم ہوتی ہیں مگر ان میں حکمتیں پوشیدہ ہیں‘ اگر Ú©Ùˆ ئی شخص بیمار ہوجائے اور اسے فاسد مادہ ستارہا ہو تو طبیب مسہل دے کر خارج کرواتا ہے‘ Ú¯Ùˆ مسہل سے تکلیف ہوتی ہے‘ دست آتے ہیں مگر آپ اس Ú©Ùˆ حکمت Ùˆ علاج سمجھ کر برداشت کرلیتے ہیں‘ اسی طرح مصائب روحانی مسہل ہیں‘ ان سے اللہ تعالیٰ آپ Ú©Û’ گناہ دور فرماتے ہیں‘ تعجب Ú©ÛŒ بات ہے کہ مسہل Ú©Ùˆ تو آپ حکمت سمجھیں اور مصائب Ú©Ùˆ حکمت نہ سمجھیں! اگر مصائب نہ ہوتے تو آپ Ú©Ùˆ صبر کا ثواب کیسے ملتا ہے۔
حدیث شریف:
حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جب میں اپنے بندہ پر بلا نازل کرتا ہوں اور وہ صبر جمیل سے پیش آتا ہے تو مجھے قیامت میں شرم آئے گی کہ اس کے اعمال تولنے کے لئے میزان کھڑی کروں!
اور فرماتے ہیں: قیامت Ú©Û’ دن ایک منادی ندا دے گا کہ دنیا میں مصیبتیں اور بلائیں جن پر نازل ہوئیں وہ جنت Ú©ÛŒ طرف چلیں! لوگ بے حساب جنت Ú©ÛŒ طرف چلیں Ú¯Û’‘ راہ میں فرشتوں Ú©ÛŒ دریافت پر کہ کیا تمہارا حساب ہوچکا ہے؟ جواب دیں Ú¯Û’ ہم حساب نہیں جانتے‘ اس پر فرشتے پوچھیں Ú¯Û’ کہ دنیا میں تمہارا کیا عمل تھا؟ جواب دیا جائے گا ہم بلاؤں پر صبر اور مصیبتوں Ú©Ùˆ نعمت سمجھ کر شکر ادا کرتے تھے۔ فرشتے کہیں Ú¯Û’ تمہارا یہی بدلہ ہے Ú†Ù„Û’ جاؤ جنت میں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں صبر Ú©ÛŒ تین قسمیں بتلائی گئی ہیں: اول ادائے فرائض پر‘ یہ بھی باعث ثواب ہے‘ دوم خدائے تعالیٰ Ú©ÛŒ حرام Ú©ÛŒ ہوئی چیزوں سے رکنے پر‘ اس Ú©Û’ لئے دو چند ثواب ہے‘ سوم مصائب اور صدقات پر اس Ú©Û’ لئے سہ چند ثواب ہے‘ ان تینوں میں ایک دوسرے پر فضیلت Ú©Û’ مدارج اس طرح ہیں جیسے گرما کا روزہ اور جاڑے Ú©ÛŒ نماز‘ فرائض اور محرمات Ú©ÛŒ سختی پر تو ہر ایمان دار صبر کرسکتا ہے مگر مصیبت پر صبر وہی کرے گا جس Ú©Ùˆ توفیق ہوگی‘ اس لئے کہ یہ نفس پر بہت شاق ہوتا ہے‘ جس شخص Ú©Ùˆ تیسرے درجہ Ú©Û’ صبر Ú©ÛŒ خصلت عطا ہوئی وہ بڑا سعادت مند Ùˆ صاحب فضیلت ہے‘ شب بیدار اور صائم الدہر سے اس کا درجہ افضل ہے۔
حضرت ابو حامد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں صابر وہ ہے جو صبر پر صبر کرے نہ کہ جو صبر کرے اور شکایت کرتا پھرے۔
حدیث شریف:
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ Ú©Ùˆ دوست رکھتے ہیں تو اس Ú©Ùˆ ایسی بلاء میں مبتلا فرماتے ہیں جس Ú©ÛŒ دوا نہ ہو‘ پس اگر صبر کرے تو اس Ú©Ùˆ Ú†Ù† لیتے ہیں اور اگر راضی ہو تو اسے برگزیدہ کردیتے ہیں۔
حضرت فتح موصلی رحمۃ اللہ علیہ Ú©ÛŒ بی بی ایک بار پھسل کر گرپڑیں اور ان کا ہاتھ ٹوٹ گیا تو آپ ہنس دیں‘ لوگوں Ù†Û’ پوچھا کہ آپ Ú©Ùˆ اتنا زبردست صدمہ پہنچا‘ کیا تکلیف نہیں ہورہی ہے؟ ان بی بی Ù†Û’ جواب دیا مجھے اس کا ثواب بتلایا گیا ہے اُس Ú©Û’ مزہ میں میرے دل سے درد Ú©ÛŒ تلخی جاتی رہی۔
حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب میں کسی بندہ Ú©Ùˆ مرض میں مبتلا کرتا ہوں اور وہ صبر کرتا ہے اور شکایت کا کلمہ زبان پر نہیں لاتا تو میں اس کا معاوضہ گوشت سے بہتر گوشت‘ خون سے بہتر خون دیتا ہوں‘ اگر تندرست کرتا ہوں تو گناہ معاف کرکے‘ اور موت دیتا ہوں تو پاک Ùˆ صاف کرکے اپنے جوارِ رحمت میں Ù„Û’ لیتا ہوں۔
عادت کا صبر یہ ہے کہ کسی Ù†Û’ بری بات کہی ہو تو اس سے انتقام نہ لیا جائے اور اس Ú©Ùˆ سخت Ùˆ سست نہ کہا جائے‘ عبادت کا صبر یہ ہے کہ Ú¯Ùˆ مزہ نہ آئے مگر عبادت کرتا ہی جائے‘ مصائب میں بے قرار نہ ہو۔
بعض لوگ مصائب سے تنگ آکر حکام وقت Ú©Ùˆ برا بھلا کہنا شروع کرتے ہیں‘ یہ بھی بے صبری Ú©ÛŒ علامت ہے‘ حدیث شریف میں اس Ú©ÛŒ ممانعت آئی ہے‘ ارشاد ہوا ہے کہ حاکموں Ú©Ùˆ برا نہ کہو کہ ان Ú©Û’ قلوب اللہ تعالیٰ Ú©Û’ قبضہ میں ہیں‘ تم اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ اطاعت کرو‘ وہ حکام Ú©Û’ دل نرم کردیں Ú¯Û’‘ جو کام دنیا میں ظہور پاتے ہیں وہ بمتقضائے مشیت ایزدی ہوتے ہیں‘ اس لئے ہر حال میں ہم Ú©Ùˆ صابر Ùˆ شاکر رہنا چاہئے ’’ وَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآئُ‘‘ (اور اللہ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں)Û”
مصائب میں عشق Ùˆ محبت Ú©Ùˆ ترقی ہوتی اور اللہ تعالیٰ Ú©Û’ ساتھ تعلق بڑھتا ہے‘ اس وقت مخلوق سے نظر ہٹ کر مصیبت زدہ کا دل دنیا سے سرد ہوجاتا اور وہ ہمہ تن اللہ Ú©ÛŒ طرف متوجہ ہوتا ہے‘ خدائے تعالیٰ Ú©Û’ سوا کسی سے امید نہیں رہتی‘ دنیا Ú©ÛŒ حقیقت اس پر Ú©Ú¾Ù„ جاتی ہے‘ تکلیف میں جزع Ùˆ فزع (بے قراری) نہ کرنا اور اعمال نیک میں کوتاہی نہ کرنا صبر جمیل ہے۔
بعض لوگ جزع Ùˆ فزع تو نہیں کرتے مگر اعمال نیک میں کوتاہی کرنے لگتے ہیں‘ ذکر وتہجد Ùˆ تلاوتِ قرآن مجید سب Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیتے ہیں‘ جماعت کا اہتمام بھی نہیں رہتا تو یہ صبر جمیل نہیں ہے‘ خلاصہ یہ کہ مصائب میں جزع Ùˆ فزع نہ کرنا اور کسی معمول میں خلل نہ آنا یہی صبر جمیل ہے۔
حکایت:
ایک روز حضرت غوث بہاؤ الدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ وعظ فرمارہے تھے‘ اثنائے وعظ میں کسی Ù†Û’ یہ خبر دی کہ آپ کا جہاز جس میں ہزارہا روپیہ کا مال Ùˆ اسباب تھا طوفان میں آگیا‘ آپ Ù†Û’ اس خبر وحشت اثرکو سن کر سرجھکالیا‘ تھوڑی دیر بعد سر اٹھاکر فرمایا ’’الحمد للہ ‘‘ اور بدستور وعظ فرمانے میں مصروف Ùˆ مشغول ہوگئے‘ رنج وملال اور تغیر Ùˆ تبدل مزاج مبارک سے ظاہر نہ ہوا‘ چند روز Ú©Û’ بعد آپ پھر وعظ فرمارہے تھے‘ ایک شخص Ù†Û’ آپ Ú©Ùˆ خبر دی کہ آپ کا وہ جہاز جو مع مال Ùˆ اسباب طوفان میں آگیا تھا صحیح وسالم ہے‘ اس میں کسی طرح کا نقصان نہیں ہوا‘ آپ Ù†Û’ حسب سابق سر جھکالیا اور تھوڑی دیر بعد سر اٹھاکر فرمایا ’’الحمد للہ ‘‘ اور بدستور وعظ میں مشغول ہوئے‘ فرحت Ùˆ سرور مزاج مبارک میں ظاہر نہ ہوا‘ بعد اختتام وعظ خادموں Ù†Û’ عرض کیا کہ واقعہ رنج Ùˆ ملال سن کر بھی آپ Ù†Û’ الحمد للہ فرمایا تھا اور خبر فرحت Ùˆ سرور بھی سن کر الحمد للہ ہی فرمایا! اس Ú©Û’ راز Ùˆ اسرار سے آگاہ فرمائیں تو مناسب ہے‘ آپ Ù†Û’ فرمایا کہ میں Ù†Û’ دونوں خبروں Ú©Ùˆ سن Ú©Ùˆ اپنے دل Ú©ÛŒ طرف توجہ Ú©ÛŒ‘ دونوں حال میں بھی اس Ú©Ùˆ اللہ پاک Ú©ÛŒ یاد میں مستغرق پایا‘ رنج Ùˆ ملال اور فرحت Ùˆ سرور سے یادِ خدا میں فرق نہ آیا‘ اس لئے دونوں وقت میں Ù†Û’ الحمد للہ کہا۔
مصیبتوں میں رنج Ùˆ غم Ùˆ تکلیف دو طرح Ú©ÛŒ ہوتی ہے‘ ایک تو جسمانی ‘ دوسرے عقلی۔ جیسے عمل جراحی کرواتے وقت جسمانی تکلیف تو ہوتی ہے لیکن عقل Ú©Û’ اعتبار سے ناگواری نہیں ہوتی‘ جسمانی رنج تو انبیاء علیہم السلام Ú©Ùˆ بھی ہوتا ہے‘ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Ùˆ صاحبزادے Ú©Û’ انتقال Ú©Û’ وقت ہوا تھا‘ لیکن عقلی رنج نہ ہونا ہی صبر جمیل ہے۔
عاشقانِ الٰہی Ú©Ùˆ مصائب کا جسم پر تو اثر ہوتا ہے لیکن قلب پر پریشانی نہیں پہنچتی‘ اگر کوئی ظاہری تکلیف بھی پہنچتی ہے تو ان کا قلب پرسکون رہتا ہے‘ وہ عین غم Ú©ÛŒ حالت میں بھی مسرور ہی رہتے ہیں‘ جس طرح عاشق Ú©Ùˆ معشوق Ú©Û’ دبوچنے سے تکلیف تو ضرور ہوتی ہے لیکن دل راضی اور خوش رہتا ہے‘ Ú¯Ùˆ جسم Ú©Ùˆ تکلیف ہوتی ہے لیکن روح Ú©Ùˆ آرام پہنچتا ہے۔
حکایت:
عین عید Ú©Û’ دن حضرت مولانا یعقوب رحمۃ اللہ علیہ Ú©Û’ نوجوان صاحبزادہ کا انتقال ہوا‘ ادھر فرزند نزع میں ہے‘ ادھر نماز عید کا وقت قریب آگیا‘ مولانا Ù†Û’ بیٹے Ú©Û’ سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا لو بھائی تم Ú©Ùˆ خدا Ú©Û’ سپرد کرکے اب ہم تو جاتے ہیں‘ اس لئے کہ ہمیں نماز Ù¾Ú‘Ú¾Ù†ÛŒ ہے‘ انشاء اللہ تعالیٰ قیامت میں ملاقات ہوگی‘ یہ کہہ کر آپ رخصت ہوگئے‘ آنکھوں سے آنسو جاری تھے لیکن ایک کلمہ بھی بے صبری کا زبان سے نہ نکلا‘ خوش تھے کہ اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ یہی مرضی تھی‘ اسی کا نام صبر جمیل ہے۔